Inquilab Logo Happiest Places to Work

آم کے رس کو دھوپ میں سکھا کر خصوصی ڈِش ’اماوٹ‘ تیار کی جاتی ہے

Updated: June 29, 2025, 1:51 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

جس سال فصل اچھی ہوتی ہے تو گھر کے ہر کونے کھدرے میں آم ہی آم نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں آم کے خراب ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، لیکن گھر کی سگھڑ خواتین آم کو کہاں برباد ہونے دیں گی۔ آموں کی جب افراط ہوتی ہے تو شروع ہو جاتا ہے’ اماوٹ‘ ڈالنے کا کام۔

The mango paste or mango papad available in the market is like jelly, it is made by machines instead of being prepared in the oven. Photo: INN.
بازار میں ملنے والا اماوٹ یاآم پاپڑ جیلی کی طرح ہوتا ہے، یہ اوکھلی میں تیار ہونے کے بجائے مشینوں کے ذریعے بنایا جاتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

یہ آموں کا موسم ہے۔ لکھنؤ کے لوگ ملیح آباد کی دسہری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور گائوں میں دیسی آموں کا مزہ لیا جارہا ہے۔ دیسی آموں کے پیڑ بڑے ہوتے ہیں چنانچہ ان میں پھل بھی زیادہ لگتے ہیں۔ جس سال فصل اچھی ہوتی ہے تو گھر کے ہر کونے کھدرے میں آم ہی آم نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں آم کے خراب ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، لیکن گھر کی سگھڑ خواتین آم کو کہاں برباد ہونے دیں گی۔ آموں کی جب افراط ہوتی ہے تو شروع ہو جاتا ہے’ اماوٹ‘ ڈالنے کا کام۔ آم کے رَس کو دھوپ میں سکھا کر یہ خصوصی ڈِش ’اماوٹ‘ تیار ہوتی ہے جسے کہیں ’ آم رس‘ تو کہیں ’آم پاپڑ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ گائوں سے تعلق رکھنے والوں کی اس سے بڑی یادیں وابستہ ہیں۔ یہی کوئی۹۵۔ ۱۹۹۰ء کا دور تھا جب ہمارے یہاں آم کی اتنی پیداوار ہوتی تھی کہ بیچنے، کھانے اور عزیز اقارب کے یہاں بانٹنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا تھا۔ گھر میں اِدھر اُدھر پڑے آم کو خواتین ایک جگہ جمع کرتیں اُسے اوکھلی میں کوٹ کر اُس کا رَس نکالتی تھیں پھر صاف کپڑے پر اسے سوکھنے کیلئے ڈال دیا جاتا تھا، ایک پَرت سوکھ جانے کے بعد پھر اُسی پر دوسری، تیسری اور کئی پرَتیں چڑھائی جاتی تھیں۔ سوکھ جانے کے بعد اُس پر سرسوں کا تیل لگا کر اسے کپڑے سے الگ کر لیا جاتا تھا۔ آم کا سیزن ختم ہونے کے بعد اسے گرم پانی میں ڈال کر پھر سے آم کا رَس تیار کیا جاتا تھا اور لوگ اسے بڑےچائو سے روٹی کے ساتھ کھاتے تھے۔ بچوں کیلئے تو یہ خاص مٹھائی تھی۔ دھیرےدھیرے لوگوں کا گائوں سے رشتہ ختم ہوا اور وہ پیڑ بھی نہیں رہے جن کی شاخوں پر ڈھیر سارے آم لدے رہتے تھے، جس سے ’اماوٹ‘ بنایا جاتا تھا۔ اُس وقت گائوں کے ہر گھر کی حالت یہ ہوتی تھی کہ خوب سارا ’اماوٹ‘ تیار کیا جاتا تھا اور اُس کی مٹھاس سے شہد کی مکھیاں گھروں میں خوب منڈرا تی پھرتی تھیں۔ گھر کے جس کمرے میں ’اماوٹ‘ رکھا جاتا تھا، وہ آم جیسا ہی مہکتا تھا۔ اُس کمرے سے گزرتے وقت آم کی مٹھاس کا احساس ہوتا تھا۔ ’اماوٹ‘ کو دھوپ میں اتنا سکھایا جاتا تھا کہ اس کا رنگ سیاہ پڑ جاتا تھا۔ 
گھرمیں تیار ہونے والا ’اماوٹ‘ بازار کے آم رَس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس میں آم کے رس کے علاوہ کسی چیز کی ملاوٹ نہیں ہوتی ہے۔ چنانچہ اسے کھانے سے بھر پور آم کا ذائقہ ملتا ہے۔ بازار میں ملنے والا اماوٹ یاآم پاپڑ جیلی کی طرح ہوتا ہے۔ اوکھلی میں تیار ہونے کے بجائے وہ مشینوں کے ذریعے بنایا جاتا ہے۔ اسلئے اس میں وہ ذائقہ نہیں مل پاتا جو گھر میں خواتین کے ہاتھوں سے تیار کئے ہوئے ’اماوٹ‘ میں ملتا تھا۔ 
’اماوٹ‘ کے تعلق سے ایک قصہ ہے آپ بھی سنئے ...کسی وجہ سے گھر کے اہم افراد کو گاؤں جانا تھا۔ طے ہوا کہ گھر کے ۶؍ افراد میں سے والدین اور اکلوتی بہن ہی جائے گی۔ بقیہ تین بھائی گھر پر ہی رہیں گے۔ یہ سننا تھا کہ چھوٹا بیٹا رونے لگا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ اپنے والدین سے الگ ہو رہا تھا، وجہ یہ تھی کہ وہ سب گھومنے جا رہے تھے، اس کا دل بھی گھومنے کا تھا، آخر وہ تو محض سات سال کا تھا، اتنا چھوٹا ہونے کے ساتھ بھی وہ اس سفر کا حصہ نہیں بنا تھا۔ بچے کو خاموش کرنے کیلئے ماں نے اس سے پوچھا کہ بول تجھے کیا چاہئے۔ یہ سُن کر اسے اندازہ ہو گیا کہ ماں اسے ساتھ نہیں لے جائے گی۔ چنانچہ اس نے گائوں سے اپنے لئے’ اماوٹ‘ لانے کی فرمائش کی اور ماں نے ہامی بھی بھر لی۔ ۱۷؍ دنوں بعد جب وہ گائوں سے لوٹے تو بچہ اپنی ماں کو دیکھ کر خوش ہو گیا۔ آتے ہی پہلا سوال کیا ’ماں اماوٹ‘۔ ماں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ میری’ اماوٹ‘ کی فرمائش پوری ہو گئی ہے۔ اگلے دن لائے گئے سارے سامان کھولے گئے تو بچہ وہیں بیٹھ گیا، کسی پوٹلی سے اماوٹ کے نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔ سامانوں کی ساری تھیلیاں کھل جانے کے بعد بھی جب ’اماوٹ‘ نہیں نکلا تو اس نے ماں سے پھر پوچھا ماں اماوٹ۔ اس بار ماں نے ٹالنے والے انداز میں کہا ’ارے بیٹا وہ تو بھول گئے‘۔ یہ سُن کر بچے نے محسوس کیا کہ گائوں جانے کے بعد ماں، اماوٹ نہیں مجھے بھی بھول گئی تھیں۔ روہانسا چہرہ بنا کر وہ باہر نکل گیا۔ اس کے بعد بچے نے جب بھی اماوٹ کھایا، اُسے مذکورہ واقعہ ضرور یاد آیا۔ 
بندیل کھنڈ میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ’’گھر کا لڑکا آم کی گٹھلی چوسے اور ماماکھائیں اماوٹ ‘‘جس کا مفہوم یہ ہے کہ بھوک سے پریشان گھر کے بچے آم کا رس نکالنے کے بعد بچ جانے ولی گٹھلی چوسنے پر مجبور ہیں لیکن جب ماں کے بھائی (ماموں )آتے ہیں تو اُسی رَس کو گاڑھا کرنے کے بعد تیار کیا جانے والا ’اماوٹ‘ انہیں پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بچوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے۔ خیر یہ کہاوت ہے، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ آم کے دنوں میں سب سےزیادہ فائدے میں بچے ہی رہتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK