Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں: اپریل کی ایک دوپہریا، کٹیا لگنے کا وہ زمانہ اور لگن لگنے کا قصہ

Updated: April 21, 2024, 3:52 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

اپریل کی ایک دوپہر تھی۔ اس بھری دپہیریا(دوپہری)میں اس کالم نگارکو کھیتوں کی سیر کی سوجھی...چپکے سے نکلنا چاہتے تھےمگر سب کو اس کے ارادے کا علم ہوگیا۔

Even today wheat harvesting is done in villages but now people have forgotten the term `Katya Lagna`. Photo: INN
گاؤں دیہاتوں میں آج بھی گیہوں کی کٹائی ہوتی ہے مگر اب لوگ ’کٹیا لگنا‘کی اصطلاح بھول گئے ہیں۔ تصویر : آئی این این

اپریل کی ایک دوپہر تھی۔ اس بھری دپہیریا(دوپہری)میں اس کالم نگارکو کھیتوں کی سیر کی سوجھی...چپکے سے نکلنا چاہتے تھےمگر سب کو اس کے ارادے کا علم ہوگیا۔ گھر والوں نے سمجھایا کہ مت جاؤ...گرمی لگ جائے گی، بیمار ہوجاؤگے، لو چل رہی ہے، بہت گرم ہورہا بابو! شام کو جانا... ٹھنڈا رہے گا۔ 
 زبان سے انکار نہیں کیا مگر آنکھوں اور چہروں کی زبان پڑھنے والے سمجھ گئے کہ یہ ماننے کے موڈ میں نہیں ہے۔ زور زبردستی نہیں کی۔ ایک گمچھا(انگوچھا) لاکر دیا۔ لاپروائی سے کندھے پر رکھ رہا تھا مگر اس پر جان نہیں چھوٹی۔ گمچھے سے سر ڈھانکنے اور چہرہ چھپانے کا حکم صادر ہوا۔ فرمانبردار بیٹا ہونے کا ثبوت دیا، ڈھانٹا باندھ لیا، یعنی سفید گمچھے سے سر اور چہرہ دونوں چھپا لیا۔ 
بتاتے ہیں کہ جب گاؤں میں ڈاکے عام تھے، اس زمانے میں ڈاکو اپنی شناخت چھپانے کیلئے ڈھانٹے ہی باندھتے تھے۔ ’دوائیں‘(مڑائی ) کے وقت گردو غبار سے بچنے کا بھی یہی طریقہ تھا۔ کورونا کے پہلے دور میں تو نہیں، دوسرے دور میں گاؤں والوں کا ماسک یہی تھا۔ 
ڈھانٹا باندھنے سے پہلے اس کالم نگار نے گڑ کی بھیلی کھائی۔ دو گلاس پانی سے گلا تر نہیں کیا بلکہ اچھی طرح پیاس بجھائی اور تنہا تنہا نکل گیا گاؤں کی خاک چھاننے.... 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: بدھنی میں چاند دیکھنے کی مثال آج بھی دی جاتی ہے

کیسے کیسے خالی کھیت تھے؟لق و دق صحرا جیسے، کچھ جوتے ہوئے کھیتوں میں دھول بھی اڑ رہی تھی، ارہر کے تمام کھیت خالی ہوچکے تھے، ان کی بڑی بڑی کھتھی(جڑ)دکھائی دے رہی تھی، اس لئے ان کھیتوں میں پیدل چلنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ ارہر کے کٹے ہوئے کھیتوں میں سلیپر چپل کے ساتھ بھی چلنے پرپاؤں زخمی ہوجاتے ہیں۔ گیہوں کے کچھ کھیتوں میں فصلیں کھڑی تھیں۔ وہ بھی ایسی تھیں کہ ڈنٹھل ذرا سا چھونے پر ٹوٹ رہے تھے۔ پچھوا چل رہا تھا، اس لئے ڈنٹھل ایک دم کھرا ہوگیا تھا۔ اسی پر دوائیں کردی جاتی تو چند گھنٹے میں گیہوں اور بھوسے الگ الگ ہوجاتے۔ اتنی تیار فصل کیوں نہیں کاٹی گئی؟ یہ سوال پوچھا تو پتہ چلاکہ مزدور نہیں ملے۔ اس دور میں گیہوں کی کٹائی کی بہت سی مشینیں آگئی ہیں، گیہوں بوائی بھی کم ہورہی ہے۔ اس کے باوجود مزدور نہیں ملتے ہیں۔ 
  بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں گاؤں والے گاؤں ہی میں رہتے تھے۔ کوئی پردیس نہیں جاتا تھا، کھیتی کسانی ہی سے گزارا ہوتا تھا۔ اس دور میں بھی مزدور نہیں ملتے تھے۔ یہ بہت مشکل مرحلہ ہوتا تھا، اس دو ر میں  گیہوں  گٹنے کے سیزن کو ’کٹیا لگنا‘ کہتے تھے۔ اس وقت اس کا بھرپور احساس ہوتا تھا، پورے گاؤں والے دوڑتے بھاگتے تھے، کوئی چین سے نہیں بیٹھتا تھا۔ لو لگنے کی بھی پروا نہیں کی جاتی تھی، صبح سے شام تک دوائیں ہوتی رہتی تھی۔ چاروں طرف ’کنائی‘ اڑتی رہتی تھی۔ کنائی دوائیں کے وقت اڑتی ہے، یہ گرد نما ہوتی ہے، اس سے پوری فضا گرد آلود ہوجاتی ہے، یہ آنکھوں میں چلی جاتی ہے تب بھی دشواری ہوتی ہے، اس سے بچنے کیلئے بھی ڈھانٹے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ 
اس زمانے میں لگن (برادران وطن کی شادیوں کا سیزن) اور کٹیا ایک ساتھ ہوتی تھی۔ شاید اسی سے’ لگن لگ گئی‘ کا محاورہ رائج ہوا ہے۔ اس دور میں باراتی رات بھی گزارتے تھے، اس لئے سونے کا انتظام کٹے ہوئے گیہوں کے کھیتوں ہی میں ہوتا تھا، اسی میں پلاسٹک کے بادھ والی لوہے کی چارپائیاں بچھا دی جاتی تھیں، اسی پر باراتی کھانے کے بعد آرام کرتے تھے۔ 
بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں باراتیوں کیلئے گیہوں کے کھیتوں میں ٹاٹ بھی بچھائے جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گاؤں میں کرسی اور لوہے کی چارپائی نہیں  پہنچی تھی۔ ا س وقت بادھ والی چارپائی ہی تھی۔ یہ گاؤں اورمحلے کے گھر گھر سے جمع کی جا تی تھی لیکن باراتی اتنے زیادہ ہوجاتے تھے کہ بادھ کی چاپارئی کم پڑ جاتی تھی، اس لئے ا س پر خاص مہمان ہی لیٹتے اور بیٹھتے تھے۔ باقی باراتی ٹاٹ پر سوتے تھے، پھر صبح چائے ناشتہ کرکے دلہن کو ساتھ لے کر جاتے تھے۔ لگن کے دوران کہیں شادی ہوتی تھی تو کھیتوں میں جنریٹر چلتا تھا، اس کی بجلی سے ٹیوب لائٹ جلتی تھی، اس کی روشنی دور سے دکھائی دیتی تھی، ناچ گانے کا شور بھی دور دور تک سنائی دیتا تھا۔ گاؤں والوں کی ایک بڑی تعداد ناچ دیکھنے جاتی تھی، کچھ لوگ گھر والوں کی اجازت کے بغیر ناچ دیکھنےجاتے تھے اور رات کے آخری پہر دبے پاؤں آتے تھے اور پھر خاموشی سے اپنے بستر پر لیٹ جاتے تھے۔ 
اپریل کی اس دوپہر نے کٹیا لگنے کی یاد تازہ کی تو اس کے ساتھ ہی لگن کا وہ دور بھی یاد آگیا۔ اسی دوپہری میں کھیتوں میں پیاز کی لہلہاتی فصل دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ کچھ کھیتوں کی سنچائی ہوئی تھی، ان کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو آس پاس بکھری ہوئی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK