دونوں ممالک میں میڈیا کی سنسنی خیزی کے باوجود حالات اور مختلف ملکوں کے سربراہوں کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی مفادات کی کسی نہ کسی انداز میں لڑائی تو جاری رہے گی لیکن جنگ نہیں ہوگی۔
EPAPER
Updated: May 06, 2025, 1:42 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
دونوں ممالک میں میڈیا کی سنسنی خیزی کے باوجود حالات اور مختلف ملکوں کے سربراہوں کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی مفادات کی کسی نہ کسی انداز میں لڑائی تو جاری رہے گی لیکن جنگ نہیں ہوگی۔
گزشتہ ایک ہفتے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کسی جنگی جنون میں مبتلا ہیں، دونو ں ملکوں کے ذرائع ابلاغ تو جنگ کی سنسنی بیچنے میں مصروف تھے کیونکہ جنگ کی سنسنی کسی اور چیز کے مقابلے میں آسانی سے بکنے والی چیز ہوتی ہے اور لوگ بھی اسے خرید لیتے ہیں۔ لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ اگر ہندوستانی میڈیا کو دیکھا جائے تو یہ ضرور ہے کہ یہاں جنگ کا وہ جنون نہیں تھا جو پاکستان میں تھا اور اس کی ایک وجہ بھی تھی۔ یہ نہ بھولئے کہ ہندوستان پاکستان سے چھ گنا بڑا ملک ہے، ا س کی فوج بھی پاکستانی فوج سے زیادہ ہے اور ہندوستان کی جنگ میں شامل ہونے کی قابلیت بھی زیادہ ہے، تاہم پاکستانی میڈیا پچھلے ہفتے بہت زیادہ سنسنی میں تھا۔ وہاں تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جنگ آج ہی ہوگی یا کل ہوجائے گی۔ پاکستان کا بار بار یہ کہنا کہ وہ ایک ایٹمی طاقت ہے، کوئی دھمکی نہیں تھی بلکہ پوری دنیا سےیہ گزارش تھی کہ دیکھئے ہندوستان کو جنگ کرنے سے روکا جائے کیونکہ دونوں ملک نیوکلیائی طاقت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہے، یہ کوئی نہیں بات نہیں ہے، وہی بم ہندوستان کے پاس بھی ہے، لیکن ہندوستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ ایٹم بم استعمال کرنے میں کبھی پہل نہیں کرے گا۔ رہا پاکستان، تو یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ایٹم بم کا استعمال کرنا آسان نہیں ہے بلکہ یہ بے وقوفی اور خالص بے وقوفی ہوگی۔ اتفاق سے پاکستان میں منظر عام پر کوئی بہت طاقتور سیاسی لیڈر نہیں ہے اور جو ہے وہ گزشتہ دو سال سے جیل کی کال کوٹھری میں پڑا ہوا ہے۔ اگر وہ باہر ہوتا تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔ اس کا ثبوت جیل کے اندر سے عمران خان کا وہ پیغام ہے جو بہت اچھی سیاست پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ساری دنیا کے لئے خطرہ ہے، پہلگام میں جو چھبیس افراد مارے گئے ان میں سے کسی کا کسی سیاسی گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ نہتے لوگ تھے اور چھبیس کی تعداد میں مارا جانا ایک ہولناک واقعہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ چھبیس افراد کے خاندان کے ساتھ ان کے درد میں شریک ہیں اور دہشت گردی چاہے دنیا کے کسی بھی کونےمیں کیوں نہ ہو، ایک قابل مذمت کام ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھا پیغام تھا، جیل میں رہتے ہوئے بھی عمران خان کا یہ بیان بہادرانہ ہی کہا جاسکتا ہے، ایسا بیان کوئی مضبوط اور مستحکم سیاسی قوت ہی دے سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:لفظ کی تاریخ، جنگ کی تاریخ سے بڑی ہے!
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے وزیراعظم نریندر مودی کا یہ قدم کہ حملے کی خبر سنتے ہی وہ سعودی عرب کا دورہ درمیان میں چھوڑ کر ملک واپس آگئے، ایک قابل ستائش قدم تھا۔ ایسے حالات میں ان کا کسی دوسرے ملک میں رہنا دانشمندی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں نریندر مودی کے لئے ستائش اور تعریف کا ایک دروازہ کھل گیا لیکن ان کے ساتھ یہ ایک بدقسمتی ہوئی کہ سعودی عرب سے آنے کے بعد ہندوستان کے گودی میڈیا نے انہیں اس حد تک مجبور کیا کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی بات کریں نہیں تو مصیبت ہوجائے گی، چنانچہ وہ بہار گئے اور الیکشن کی ایک ریلی میں ’بزبان انگریزی‘ یہ بھی کہا کہ دہشت گرد چاہے جہاں کہیں بھی ہوں انہیں ہندوستان نہیں چھوڑے گا۔ ‘کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اس طرف انہوں نے ایک بار بھی پہلگام کا نام نہیں لیا، یہ بھی ایک وجہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کو پاکستان سے کسی جنگ کی کوئی توقع نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندوستان معاشی او ردوسری چیزوں میں پاکستان سے بہت آگے ہے لیکن ہندوستان کی معیشت بہرحال اس حال میں نہیں ہے جس حال میں سرکار اور میڈیا بتاتا ہے۔ معاشی معاملات میں ڈونالڈ ٹرمپ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے، ان کی برآمدات کو ٹیکس کی لمبی چھوٹ دینے اور امریکہ سے واپس آئے غیر ہندوستانیوں کی وجہ سے حالات اور بھی خراب ہوچکے ہیں۔ ممکن ہے کہ نریندر مودی کو اس کا احساس نہ ہو لیکن ہندوستان کا ہر باشعور شہری جانتا ہے کہ یہ جو بات کہی جارہی ہے، سچ اور بالکل سچ ہے۔
اب رہا پاکستانی معیشت کا حال، تو اس کے لئے اگر کچھ نہ ہی کہا جائے تو بہتر ہوگا۔ پاکستانی معیشت مٹی میں مل چکی ہے، اس کے علاوہ بھی پاکستان جمہوریت کا وہ قبرستان ہے جس میں ہر روز قبروں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ہر روز ایک نئی قبر کھودی جاتی ہے اور پاکستان کی نام نہاد جمہوریت کا کوئی مردہ اس میں ڈال دیا جاتا ہے، اسے دفن بھی نہیں کہا جاسکتا ہے، اسے صرف مٹی میں ڈال دیا جاتا ہے اور اوپر سے خاک ڈال دی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ سوچنا کہ پاکستان، ہندوستان کے خلاف کوئی حرکت کرے گا، ایک فضول چیز ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور باتیں بھی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ نہیں رہے گی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان نے یہ تو کہہ دیا کہ پہلگام میں قتل و خون کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں حکومت پاکستان کا ہاتھ تھا اور دیکھا جائے تو یہ بات غلط بھی نہیں ہوگا۔ ماضی میں کئی ایسے معاملات ہوئے جن میں پاکستان کا ہاتھ نمایاں طور پر نظر آیا، مثال کے طور پر پٹھان کوٹ کا واقعہ یہ صاف بتاتا ہے کہ وہاں جو قتل و غارت ہوئی ا وہ پاکستان سے آئے ہوئے لوگوں نے ہی کی تھی۔ اس کے علاوہ ممبئی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ میں بھی صاف طور پر پاکستان کا ہاتھ نمایاں نظر آرہا تھااور جسے ساری دنیا نے مان لیا تھا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اجمل قصاب کی کیا صورت حال تھی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسے ہندوستان کی ایک عدالت نے صاف شفاف مقدمے کے بعد پھانسی کی سزا دی تھی۔
جنگ نہیں ہوگی، اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے طاقتور ہونے کے باوجود دنیا ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے حق میں نہیں ہے۔ یہ واقعہ جس دن پیش آیا تھا اُس دن امریکہ کے نائب صدر ڈی وینس اور ان کا خاندان ہندوستان میں موجود تھا۔ اب ان کا بھی بیان آیا ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما نہیں ہوسکتے۔ یہی نہیں ٹرمپ نے واضح طور پر کہہ دیا ہےکہ ہندوستان اور پاکستان دونوں سے ان کے قریبی مراسم ہیں اور انہیں یقین ہے کہ یہ دونوں عقلمند ممالک کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور کرلیں گے۔ سعودی عرب اور پھر ایران نے بھی دونوں ملکوں کو جنگ سے دور ہنے کی ترغیب دی ہے۔ ایران نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر دونوں ملک چاہیں تو ایران میں صلح کے لئے ثالثی کراسکتا ہے۔ اتنا واضح بیان کبھی کسی لیڈر کا نہیں آیا تھا۔
ان بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان اورپاکستان کے سیاسی معاملات ایک طرف، دونوں اپنے سیاسی مفادات کے لئے کچھ عرصہ لڑ تو لیں گے لیکن ان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوگی۔