Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں: بدھنی میں چاند دیکھنے کی مثال آج بھی دی جاتی ہے

Updated: April 14, 2024, 5:14 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

تیس کا چاندتھا، گاؤں والوں  کو چاند دیکھنے میں  کوئی دشواری نہیں ہوئی، اسی لئے ’ بدھنی میں چاند‘ دیکھنے کی جیسی گواہی بھی سامنے نہیں آئی بلکہ اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔

After seeing the moon, young people and children in the village Eidgah. Photo: INN
چانددیکھنے بعدنوجوان اور بچے گاؤں کی عیدگاہ میں.....۔ تصویر : آئی این این

تیس کا چاندتھا، گاؤں والوں  کو چاند دیکھنے میں  کوئی دشواری نہیں ہوئی، اسی لئے ’ بدھنی میں چاند‘ دیکھنے کی جیسی گواہی بھی سامنے نہیں آئی بلکہ اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ایک گاؤں میں مغرب کی نما ز ہی کے بعد سے نوجوانوں اور بچوں نے مل کر عیدگاہ کا فرش صاف کیا اور چادر بچھائی۔ پھر عید کی تیاری کیلئے گھر کی راہ لی۔ اس بار پوروانچل کےہر گاؤں کا یہی قصہ تھا۔ ایک زمانے میں چاند دیکھنے کی گواہی میں مشکلات ہوتی تھیں، اس کے بہت سے لطیفے مشہور ہیں۔ ایک لطیفہ یہ ہےکہ ایک گاؤں والوں نے چاند دیکھنے کا دعویٰ کیا، انہیں گاؤں سے چند کلو میٹر دوربازار میں واقع ہلال کمیٹی کے دفترلے جایا گیا۔ جب وہاں ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے چاند کہاں دیکھا ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’بدھنی‘ (لوٹا نما پانی کا برتن) میں دیکھا ہے۔ قاضی نے پوچھا کہ چاند تو آسمان میں نکلتا ہے، آپ نے زمین میں کیسے دیکھ لیا؟ معصوم دیہاتیوں کا جواب تھا کہ بندھنی آنگن میں رکھی تھی، اس میں پانی بھی تھا، بس اسی پانی میں چاند کی پرچھائیں (عکس) نظر آئی ہے۔ آپ ہی بتایئےکہ اس گواہی پر کوئی قاضی سر نہیں پیٹ لے گا تو اور کیاکرے گا؟چاند کی گواہی کے ایسے ہی بہت سے قصے مشہور ہیں۔ بدھنی کی مثل آج بھی مشہور ہے۔ اپنے سے چھوٹے یا جن سے بھی سے بے تکلفی ہوتی تھی، انہیں چڑانے کیلئے آج بھی کہا جاتا ہے : فلاں  نے بدھنی میں  چاند دیکھ کر عید منائی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: الوداع جمعہ میں چند تصاویر اور سیلفیوں پر قناعت اور اُس زمانے کی روایتیں

 مطلع ابر آلود ہونے پر گاؤں والے پریشان ہوجاتے تھے۔ اس کالم نگار نے تو وہ زمانہ نہیں دیکھا ہے، اپنی عمراور تجربے سے بال سفید کرنے والے گاؤں کے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ انہیں عید کےچاند کی تلاش میں جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، ان کے بارے میں نئی نسل سوچ بھی نہیں سکتی۔ چالیس پچاس سال پہلے مطلع ابرآلود رہتا تھا تو عید کا چاند تلاش کرنے میں پسینے چھوٹ جاتے تھے، گھر کے مرد دوڑتے دوڑتے تھک جاتے تھے، بےچاری عورتیں رات گئے تک انتظار کرتی تھیں، کبھی پوری پوری رات جاگتے گزر جاتی تھی اور اچانک اذان سے ذرا پہلے پتہ چلتا تھا کہ کہیں چاند نہیں نکلا ہے۔ پانی پی کر سحری کی جاتی تھی۔ بغیر سحری کا بھی روزہ رکھا جا تا تھا۔ ایسا بھی ہو اہے کہ صبح کے ۱۰؍بجے روزہ کھولنے کا اعلان ہوا، پھر عید کی نماز دوسرے دن پڑھی گئی۔ اعلان کاطریقہ بھی دلچسپ ہوتا تھا۔ اعلان لاؤڈاسپیکر پر نہیں ہوتاتھا بلکہ دو چار گاؤں والوں کے پاس ایک گھنٹہ ہوتا تھا، چند لوگ باری باری گاؤں گاؤں گھومتے تھے اور گلی گلی کی خاک چھانتے، گھنٹہ بجاتے اورچاند نکلنے کی خبر عام کرتے تھے۔ یہ اعلان کسی بھی وقت ہوجاتا تھا۔ کچھ بھی منظم طریقے سے نہیں ہوتا تھامگر اعلان ہوتے ہی گوشت کی دکانیں آبادہو جاتی تھیں۔ دودھ گھر کا ہوتا تھا، اس لئے کوئی دقت نہیں ہوتی تھی، آج کے دور کی طرح خریدنا پڑتا تو دودھ حاصل کرنے میں  خاصی دشواری ہوتی، دودھ بیچنے والوں کے گھر کے باہر بھیڑ ہوتی، طویل قطار لگ جاتی۔ بارہا ایسا بھی ہوتا تھا کہ ایک گاؤں والے روزہ رکھتے تھے تو دوسرے گاؤں والے عید مناتے تھے، فون وون تھا نہیں، پڑوسی گاؤں  والوں کو خبر نہیں ہوتی تھی کہ ان کے قریب کے گاؤں کی عیدگاہ میں  نماز پڑھی جارہی ہے اوروہ روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ 
  اسی طرح عید سے چند پہلے پابندی سے ریڈیو سننے والوں  کی بھی اہمیت بڑھ جاتی تھی۔ سال بھر توایک بڑی تعدادیہی کہتی تھی کہ یہ ریڈیو پر خبریں سن کر وقت ضائع کر تے ہیں، ٹائم پاس کرتےہیں۔ ۲۹؍ویں رمضان کو گاؤں کے کچھ بڑے بوڑھے ریڈیو سنتے تھے، ان کے ساتھ پورا محلہ کان لگائے رہتا تھا، ریڈیو کا سگنل خراب ہوتا تو سب کی سانسیں رک جاتی تھیں۔ اس کی مناسبت سے پابندی سے ریڈیو سننے والوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی تھی، وہ اپنے ریڈیو میں پہلے ہی نئی بیٹری لگادیتے تھے۔ ریڈیومیں ’ کھر کھرہوتا‘ یعنی اس کے خراب ہونے کے آثار بھی ہوتے تو لوگ بازار جاکر اس کی مرمت کروا تے تھے۔ پھر بھی گاؤں کے کچھ لوگ ریڈیو پر بہت زیادہ بھروسہ نہیں کرتے تھے، وہ معصومیت سے کہتے تھے کہ ہم مشین کی بات نہیں مانیں گے، چاند دیکھے بغیر عید نہیں منائیں گے۔ ایسے ہی ایک دو مسائل نہیں تھے، مسائل ہی مسائل تھے۔ 
 گاؤں ہو یا شہر.. گواہی کا مسئلہ اس دور میں بھی  باقی ہے لیکن اب یہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں  رہ گیا ہے۔ دوسرا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے، وہ ہے چاند کی افواہ ... چاندکی خبر کو تو جیسے پر لگ جاتے ہیں۔ ’فارورڈ‘کی ہوڑ میں پتہ نہیں کیا کیا ہوجاتا ہے ؟ بات کہاں  سے کہاں پہنچ جاتی ہے ؟ یہ اس دور کا مسئلہ ہے۔ اس سے گاؤں والے بھی متاثر ہوتے ہیں بلکہ بری طرح  پریشان ہوجاتے ہیں۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے نئی نسل سے کہتےہیں کہ ہم نے تو اپنا مسئلہ حل کر لیا لیکن آپ کیا کریں گے؟ ہلال کمیٹی کے مقابلے میں کون سی کمیٹی بنائیں گے؟ اس دور میں گاؤں والے بھی ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتےہیں اور اپنے موبائل کے کیمرے میں نئے چاند کو قید کرلیتے ہیں اور اسے لے جا کر رویت ہلال کمیٹی کے سامنے پیش کردیتے ہیں، حالانکہ سوشل میڈیا پر گمر اہ کرنے والے بھی کم نہیں ہوتے۔ ایک سال پہلے کا چاند وائرل کرکے اپنے گھر میں چین سے بیٹھے رہتے ہیں اور بہت سوں  کو کام پر لگا دیتےہیں، وہ بھی اپنے ذوق اور ظرف کے اعتبار سے ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بہرحال ان کی مشکل کے سامنے یہ مشکل کچھ نہیں  ہے۔ اس نئی مشکل کاسامنا گاؤں اور شہر والے دونوں مل کر تے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK