پانی کے بحران کے سبب بہت سے کسانوں نے دھان کی کھیتی سے توبہ کر لی ہے، اب وہ مکئی وغیرہ کی بُوائی کرتےہیں لیکن یہاں بھی انہیں آوارہ مویشیوں سےفصلیں بچانا مشکل ہے۔
EPAPER
Updated: August 31, 2025, 3:05 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
پانی کے بحران کے سبب بہت سے کسانوں نے دھان کی کھیتی سے توبہ کر لی ہے، اب وہ مکئی وغیرہ کی بُوائی کرتےہیں لیکن یہاں بھی انہیں آوارہ مویشیوں سےفصلیں بچانا مشکل ہے۔
اس بار بھادوں کے مہینے میں کہیں کہیں بادل روٹھے ہیں تو کچھ علاقوں میں ایسے برسے ہیں کہ وہاں سیلاب آگیا ہے۔ کہیں فصلیں پانی کے بغیر سوکھ رہی ہیں تو کہیں پانی میں ڈوب کر برباد ہو رہی ہیں۔ جن علاقوں میں بارش نہیں ہو رہی ہے وہاں کی فصلیں بالخصوص دھان کی سنچائی کیلئے لوگ پمپنگ سیٹ چلا رہے ہیں اورجہاں بجلی کا انتظام ہے وہ سبمرسیبل چلا کر دھان کی سنچائی کررہےہیں۔ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ لوگوں نے بجلی کی موٹر کو کرائے پر اُٹھا دیا ہے وہ کسانوں سے فی بیگھہ دو سو روپے وصول رہے ہیں۔ وہ یہ کام محکمہ توانائی کے ملازمین سے بچ بچا کررہےہیں کیونکہ پکڑے جانےپر محکمہ لمبا جرمانہ وصول کرتا ہے اور مقدمہ الگ سے درج ہوجا تا ہے۔ پانی کے بحران کے سبب بہت سے کسانوں نے دھان کی کھیتی سے توبہ کر لی ہے، اب وہ مکئی وغیرہ کی بُوائی کرتےہیں لیکن یہاں بھی انہیں آوارہ مویشیوں سےفصلیں بچانا مشکل ہے۔ اس بار دھان کی فصل کیلئے کھاد کامسئلہ بھی سنگین ہوتا جارہا ہے۔ کھاد کیلئے کو آپریٹیو سوسائٹیوں میں صبح ۶؍ بجے سے لائن لگنے لگی ہے۔ سائیکل پر دو بوری کھاد لادے سکندر بھائی بتا رہے تھے کہ دو دن سے لائن لگنے کے بعد یہ دو بوریاں نصیب ہوئی ہیں۔ اسی طرح ننھے بھائی کو دو دن کی محنت کے بعد دو بوری یوریا ہاتھ لگی، گھر پہنچے تو شام ہو گئی تھی یہ سوچ کر باہری برآمدے میں کھاد رکھ دیئے کہ صبح اُٹھ کر کھیت میں کھاد ڈال دیں گے۔ صبح جلدی جلدی اُٹھ کر جب وہ برآمدے کے پاس پہنچتے ہیں تو دیکھا کھاد غائب ہے۔ برآمدے میں رکھی دوسری اشیاء اپنی جگہ پر جوں کا توں پڑی ہیں بس کھاد ندارد تھی۔ انہیں چور کی اس ایمانداری پر بڑا رشک ہوا اور کھاد جانے کا افسوس۔ خیر تھوڑی دیر تک کھاد کا غم منانے کے بعد وہ سائیکل اٹھائے اور کو آپریٹیو سو سائٹی پر پھر لائن میں لگنے کیلئے چل پڑے۔
اِس وقت گائوں میں چوری کے واقعات بھی خوب ہو رہے ہیں۔ چوروں کے خوف سے لوگ رات رات بھر جاگ کر پہرا دے رہے ہیں۔ چوری کے یہ واقعات سُن کر بچپن کی وہ راتیں یاد آگئیں، جب شب میں دیر گئے کبھی نیند کھل جاتی اور پہرا دینےوالوں کی یہ آواز آتی ’جاگت رہیا‘(جاگتے رہو ) تو اس قدر خوف طاری ہوتا کہ چارپائی میں بالکل چپک جاتے تھے۔ اب بھی گائوں کی صورتحال کم و بیش یہی ہے۔ کبھی بھینس بکری چوری کرنے والا گروہ سرگرم ہو جاتا ہے تو کبھی سونے چاندی اور مال و اسباب لوٹنے والے ڈکیت گائوں میں دھاوا بول دیتے ہیں۔ چنانچہ ایسی صورت میں کبھی پورب کی طرف سے شور اُٹھتا ہے کہ وہ دیکھو چور آیا تو کبھی پچھم والے پکارتے ہیں کہ دوڑو چور آیا۔ کوئی کہتا ہےوہ دیکھو باغ کی طرف بھاگا، کوئی آواز لگاتا ہےکہ گنے کے کھیت کی طرف دوڑو اُدھر نظر آیا ہے، لیکن گائوں والوں کی ان تمام تگ و دو کے باوجود چور ہتھے نہیں لگتا۔ سب ہاتھوں میں ٹارچ لئے پہرے کی جگہ پر آکر بیٹھ جاتے اور پھر شروع ہو جاتی پرانی چوری اور ڈکیتی کی کہانیاں جو وہ اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں۔
بات کھیتی باڑی سے شروع ہو کر چوری ڈکیتی تک آ پہنچی۔ پھر آپ کو کھیتوں کی طرف لے چلتے ہیں ....ہاں تو اِس وقت دھان کی فصل کی ’نرائی‘ کا کام بھی زوروں پر ہے۔ (فصلوں کے درمیان اُگ آنے والی گھاس پھوس کی صفائی کو نِرائی کہا جاتا ہے )۔ دھان کی کھیتی میں شروع سے آخر تک بڑی محنت کرنی پڑ تی ہے۔ جی ہاں ...دھان لگانے سےپہلے کھیت جوت کر پانی بھر کر چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ اس میں پڑا کوڑا کَرکٹ سڑ جائے، لیکن دھان لگنے کے بعد جب کھیت کو کھاد اور پانی ملتا ہے تو اس میں دھان کے ساتھ ہی گھاس پھوس بھی بڑھنےلگتی ہے۔ بڑے کسان تو مزدوروں سے ’نِرائی‘ کا کام کراتے ہیں لیکن چھوٹے کسان اپنے گھر کے ممبران کے ساتھ صبح صبح کھیتوں کی طرف نکل آتےہیں۔ ٹھنڈے موسم میں جب پُروائی چلتی ہے تو یہ محنت بھرا کام مشکل نہیں لگتا کیونکہ چھوٹے چھوٹے بادل کے ٹکڑے ان محنت کش کسانوں کیلئے سائبان بن کر کچھ دیر کیلئے تیز دھوپ کو روک لیتے ہیں۔ اب تو بہت سے کسان اس طرح نکل آنے والی گھاس اور کیڑوں کیلئے جراثیم کش ادویہ کا ستعمال کرنے لگے ہیں لیکن یہ دوائیں خطرناک ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کا اثر کھیت میں پیدا ہونے والے اناج پر بھی پڑتا ہے جو صحت کیلئے مضر ہے۔ ’نِرائی ‘ کا کام محنت بھرا ضرور ہےلیکن یہ فائدے مند بھی ہے۔ اس سے کھیتوں سے نکلنے والی گھاس مویشیوں کیلئےچارے کے کام آتی ہے۔
گائوں کی ایک ’کاکی‘(چاچی) بتاتی ہیں کہ ایک بار بھادوں کے مہینے میں بارش نہیں ہو رہی تھی، فصلیں مرجھانے لگی تھیں ۔ گائوں کی ایک بوڑھی دادی نے بارش کیلئے تالاب کے پاس مٹی کا دِیا جلایا، اس میں سرسوں کا تیل ڈالا اور تالاب میں تیرا دیا۔ اُس وقت موسم باراں میں جب بھی بارش رُک جاتی گائوں میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگ اپنے اپنے طریقے سے بارش کیلئے پوجا پاٹھ اور دعائیں کیا کرتے تھے۔