چوری ہونے سے زیادہ گائوں والے چوروں کے اس نئے طریقے سے پریشان ہیں ۔ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بزرگ نے ہاتھ مَلتے ہوئے کہا کہ چور غضب چکمہ دے گئے۔
EPAPER
Updated: September 25, 2025, 2:53 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
چوری ہونے سے زیادہ گائوں والے چوروں کے اس نئے طریقے سے پریشان ہیں ۔ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بزرگ نے ہاتھ مَلتے ہوئے کہا کہ چور غضب چکمہ دے گئے۔
ستمبر ماہ کا نصف سے زائد حصہ گزر چکا ہے۔ اب رات کو شبنم (اوس)پڑنے سے صبح کے موسم میں خنکی آگئی ہے، لیکن دن کا موسم اب بھی گرم ہے اور یہی صورتحال رات کے ابتدائی حصے کا بھی ہے۔ دن بھر کھیتوں میں محنت کرکے جب کسان رات کو آرام کرنے کیلئے بستر پر جاتا ہے تو اس کی رات کا ایک پہر کروٹیں بدلنے ہی میں گزر جاتا ہے۔ آدھی رات کو جب موسم کچھ ٹھنڈا ہوتا ہے اور نیند آتی ہے تو گائوں کے کسی کونے سے چور چور کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ جی ہاں ! اس وقت مشرقی یوپی کے بیشتر اضلاع میں چوری کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، لیکن اب چوری کا طریقہ بدل گیا ہے۔ پہلے چور رات کے اندھیرے میں چھپ کر گھروں کو نشانہ بناتے تھے، اب انہوں نے ڈرون کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ گویا گائوں کے چوربھی ہائی ٹیک ہو گئے ہیں۔ اِدھر بیشتر مواضعات میں دیر رات آسمان پر ڈرو ن اُڑتے نظر آ رہے ہیں ۔ کئی مقامات پر ایسا ہوا کہ گائوں والے جب ڈرون کا پیچھا کرتے ہوئے کافی دور نکل گئے اور گائوں خالی ہو گیا تو موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے چوروں نے گھروں کو نشانہ بنایا اور گھر کے قیمتی مال و اسباب لے کر چمپت ہوگئے اور واپس لوٹے گائوں والے ہاتھ ملتے رہ گئے۔
چوری ہونے سے زیادہ گائوں والے چوروں کے اس نئے طریقے سے پریشان ہیں ۔ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بزرگ نے ہاتھ مَلتے ہوئے کہا کہ چور غضب چکمہ دے گئے۔ ان کے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایک دوسرے بزرگ نے کہا کہ ’’بھیا زمانہ بدل گیا ہے۔ چور اب آسمان سے جھانکتے ہیں، ہم زمین پر لاٹھی گھما کر کیا کریں گے؟‘‘ابھی چند دنوں پہلے کی بات ہے پرتاپ گڑھ کے ایک گائوں میں ڈورن اُڑتا ہوا نظر آیاکچھ نوجوانوں نے جال اُچھال کر ڈرون کو گرا دیا۔ اس طرح ڈرون تو ہاتھ آگیا لیکن چوروں کا دور دور تک پتہ نہیں چل سکا۔ رائے بریلی اور سلطانپور اضلاع کے گائوں میں بھی ایسے ہی واقعات سامنے آرہے ہیں۔ جہاں رات ہونے کے ساتھ ہی آسمان میں ڈرون اُڑنے لگتے ہیں۔ پولیس سے شکایت کی گئی ہے لیکن ابھی تک ڈرون اُڑنے کے راز سے پردہ نہیں اُٹھ سکا ہے۔ آسمان میں چمکنے والی اِن پر اسرار لائٹوں نے گائوں کے لوگوں کی نیند حرام کرکے رکھ دیا ہے۔ اِس وقت گائوں میں ڈرون کے اُڑنے کے واقعات موضوع بحث ہیں۔
ماضی میں بھی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ بات ۲۰۰۲ء کی ہے جب یوپی اور بہار کے مواضعات میں ’منھ نوچوا‘ کا خوف تھا۔ گائوں میں شام ہوتے ہی سنّاٹا چھا جاتا تھا۔ بچوں کو گھروں میں قید کر دیا جاتا تھا۔ مئی، جون کی تپتی راتوں میں لوگ چھتوں پر سونا چھوڑ چکے تھے۔ دن میں بھی گھر سے بچوں کے باہر نکلنے پر مکمل طور پر پابندی تھی۔ روزانہ کسی نہ کسی کے منھ نوچنے کی خبر سنائی دیتی تھی کہ فلاں گائوں میں ’ منھ نوچوا‘ نے کسی پر حملہ کر دیا۔ اخباروں میں اِس سے جڑی خبریں تقریباً روزانہ شائع ہوتی تھیں لیکن کسی کے پاس اس کا درست جواب نہیں تھا کہ آیا رات کا یہ شکاری کون ہے؟ کوئی انسان، کوئی مشین یا ایلین ...گویا جتنے منھ اتنی باتیں، لیکن زیادہ تر لوگوں کا دعویٰ تھا کہ یہ ایک اُڑنے والی مشین ہے جس کے اندر لال، پیلی اور ہری لائٹ لگی ہوئی ہے اور یہ اندھیرے میں منھ نوچ کر بھاگ جاتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے کہ ایک ماروتی کار آتی ہے اور سنسنان مقام پر رُک جاتی ہے۔ اُس کار سے اُڑنے والی ڈیوائس نکلتی ہے۔ گھروں کی چھتوں پر سوئی خواتین اور بچوں کو نشانہ بناتی ہے۔
جس طرح آج ڈرون کا ڈر ہے اسی طرح اُس وقت’منھ نوچوا‘کا خوف تھا۔ کئی گائوں میں تو باقاعدہ ٹیم بنا دی گئی تھی جو رات میں پہرے دیتی اور گائوں میں گھوم گھوم کر ’منھ نوچوا‘ کی تلاش کرتی۔ اگر غلطی سے بھی گائوں میں کوئی اجنبی شخص مل جاتا تو اس کی تلاشی لی جاتی۔ کئی بار اس بے چارے پر ذرا سا شک ہونے پر پٹائی بھی ہو جاتی تھی۔ ’یعنی بے گناہن ۱۰۰؍ گُداہن ‘(بے گناہ کے۱۰۰؍ڈنڈے)۔ ’منھ نوچوا‘ کے تعلق سے جو واقعات سامنے آئے اُن میں کچھ زخمی ہوئے لیکن اس کا کوئی پختہ ثبوت نہیں تھا کہ کس شے نے ان کے چہرے نوچے تھے۔ اُس وقت یہ بھی سننے میں آیا کہ ایک نیم کے درخت میں پھنسی پتنگ کے لال رنگ کو دیکھ کر ’منھ نوچوا‘ کی افواہ پھیل گئی تھی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
’منھ نوچوا‘ کاواقعہ صرف ایک پراسرار مخلوق کی کہانی نہیں تھی بلکہ اس وقت کے سماجی اور نفسیاتی حالات کا نتیجہ تھا۔ ۲۰۰۲ء میں، شمالی ہندوستان کے بہت سے حصے خشک سالی، معاشی مشکلات اور سماجی عدم استحکام کا سامنا کر رہے تھے۔ چنانچہ توہمات اور افواہیں پھیلنے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ اس وقت معمولی چوٹیں، جیسے کیڑوں کے کاٹنے یا جلدی امراض کو ’منھ نوچوا‘ سے جوڑ دیا گیا تھا۔ ’منھ نوچوا‘ سے پہلے ’لکڑ سونگھوا‘ کا واقعہ بھی یوپی اور بہار میں پیش آ چکا تھا۔ چند سال قبل ’چوٹی کٹوا‘کی دہشت بھی گائوں میں خوب پھیلی ہوئی تھی، اس پر تفصیلی گفتگو پھر کبھی۔