اس طرح جب کسانوں سے کہئے کہ ایسی صورت میں تو دھان لگانا گھاٹے کا سودا ہے، پھر اتنی محنت کیوں کرتے ہیں ؟ اتنا سب کیجئے اور چار مہینے کے انتظار کے بعد کیا ہاتھ لگتا ہے تو کسان کہتے ہیں کہ نفع نقصان کیلئے دھان نہیں لگاتے ہیں۔
EPAPER
Updated: July 27, 2025, 2:12 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
اس طرح جب کسانوں سے کہئے کہ ایسی صورت میں تو دھان لگانا گھاٹے کا سودا ہے، پھر اتنی محنت کیوں کرتے ہیں ؟ اتنا سب کیجئے اور چار مہینے کے انتظار کے بعد کیا ہاتھ لگتا ہے تو کسان کہتے ہیں کہ نفع نقصان کیلئے دھان نہیں لگاتے ہیں۔
بھلے ہی اِس سال ابھی تک امید سے کم بارش ہوئی ہے لیکن زیادہ تر کھیتوں میں دھان کی روپائی ہوگئی ہے۔ کچھ کسان ابھی بھی بیہن (دھان کی نرسری )کی تلاش کررہے ہیں۔ کیونکہ ابھی تک اُن کاکھیت خالی ہے۔ وہ بارش کے انتظار میں دھان کی روپائی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ بیہن کی تلاش کے ساتھ مزدور بھی ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ بیہن ملنے کے فوراً بعد دھان کی روپائی کر دی جائے۔ گائوں میں ابھی بھی کام کے بدلے کام کی پرانی روایت باقی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ وقت کےساتھ اس میں اب کمی آگئی ہے۔ اِس طرح کام کرنے کوگائوں کی زبان میں ’ہونڈ‘ کہتے ہیں۔
ساون کے اِس مہینے میں روز آسمان میں کالے بادل چھا رہے ہیں لیکن برس نہیں رہے ہیں، کھیت پانی کو ترس رہے ہیں۔ کچھ لوگ کھیت میں پانی بھرنے کیلئے بجلی کی موٹر کا تار بچھا رہے ہیں۔ کچھ کسان نہر میں پانی آنے کا انتظار کررہے ہیں۔ جہاں بجلی کا انتظام نہیں ہے وہاں پمپنگ سیٹ کے ڈیزل کیلئے گیلن لئےشہر کی دوڑ لگا رہے ہیں۔ دھان کی روپائی کا کام زیادہ تر عورتیں ہی کرتی ہیں۔ پہلے گیت گا گا کر یہ عورتیں روپائی کیا کرتی تھیں لیکن موبائل آنے سے اب وہ گانا نہیں گاتی ہیں بلکہ موبائل سے گانا سُنا جاتا ہے اور نو عمر لڑکیاں رِیل بناتی ہیں۔
کھاد، بیج، سینچائی، جوتائی اور دھان کی فصل کی دیکھ بھال کا اگر تخمینہ لگایا جائے تو اب خرچ بڑھ گیا ہے، اناج بیچ کر اُس کی لاگت نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس طرح جب کسانوں سے کہئے کہ ایسی صورت میں تو دھان لگانا گھاٹے کا سودا ہے، پھر اتنی محنت کیوں کرتے ہیں ؟ اتنا سب کیجئے اور چار مہینے کے انتظار کے بعد کیا ہاتھ لگتا ہے تو کسان کہتے ہیں کہ نفع نقصان کیلئے دھان نہیں لگاتے ہیں۔ کھیت ہمارے پُرکھوں کی محنت سے ملا ہے اور یہی اُن کی نشانی ہے۔ اب کھیتی باڑی میں ہمیں چاہے فائدہ ہو یا نقصان ہمیں یہ کام نہیں چھوڑنا ہے۔ کھیت اگر خالی پڑا رہ جائے تو ہماری کیا عزت رہ جائے گی، ہم گائوں جوار میں کیا منھ دکھائیں گے ؟ کھیتوں سے اگر ایسی ہی بے رخی ہو گئی تو یہ بِک جائیں گے۔ ان کھیتوں کو بچانے کیلئے ہمارے بزرگوں نے کتنی مصیبتیں برداشت کیں ہیں ؟کیسے بھی حالات آئے ہوں لیکن انہوں نے زمین بیچنے کا کبھی خیال تک ذہن میں نہیں لایا۔ اُن کی اس قربانی کو دیکھتے ہوئے ہم جب تک زندہ ہیں نہ ہمارا کھیت پَرتی(خالی) رہ سکتا ہے اور نہ ہی ہم اسے بیچنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اتنے میں آسمان پر کالے بادل اُٹھنے لگے اور تھوڑی ہی دیر میں ایسا اندھیراچھایا کہ لگا کہ اب تو سب طرف پانی ہی پانی ہو جائےگا۔ جو کھیتوں میں کام کررہے تھے بدلتے موسم کو دیکھ کر گھر کا رُخ کرنے لگے کیونکہ ایسے موسم میں بھیگنے سے تو کوئی نہیں ڈرتا لیکن بجلی کا خوف ہر کسی کے دل میں رہتا ہے۔ بارش کے موسم میں آس پاس کے گائوں سے بجلی گرنے اور جانوروں اور انسانوں کے مرنے کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں۔ ابھی ایک ہفتہ قبل پاس کے گائوں میں ایک کسان کی دھان روپائی کے دوران بجلی گرنے سے موت ہو چکی ہے اور اس کے بیوی بچے جو کھیت میں ہاتھ بٹا رہے تھے جھلس کر بیہوش ہو گئے تھے۔
اب تو لوگ پانی سے بچنے کیلئے بھاگتے وقت خود سے زیادہ موبائل کو بچاتے ہیں۔ رواں سال ساون میں کچھ ایسا ہو رہا ہے کہ کالے بادل تو خوب آسمان میں چھا رہے ہیں لیکن وہ پانچ دس منٹ سے زیادہ برس نہیں رہے ہیں۔ لوگوں کو اُس بارش کا انتظار ہے جو گھنٹوں برسے اور ہر طرف جل تھل ہو جائے۔ ایسی بارش میں اب تو نہ بڑی تال بھر رہی اور نہ ہی پانی کھیتوں کےمینڈ کے اوپر سے بہہ رہا ہے۔ پہلے اساڑھ میں ہی اتنی بارش ہو جاتی تھی کہ ہر طرف پانی پانی ہو جاتا تھا۔ کھیت میں کام کرتے کسانوں کے پائوں سڑ جاتے تھے، شام کو گھر پہنچنے پر اُن کے پائوں میں سرسوں کا گرم تیل لگایا جاتا تھا اورچولہے کے پاس بٹھاکر پائوں کو آگ میں سینکا جاتا تھا۔ تب کہیں جاکر وہ رات کو سو پاتے تھے کیونکہ دن بھر کھیتوں میں کام کرنے کی تھکن اور اوپر سے پائوں کا درد نا قابل برداشت ہوتا تھا۔ اب تو ساون میں لگنے والے میلے میں دھول اُڑتی ہے، پہلے بارش میں بھیگ کر بچے میلہ دیکھنے جایا کرتے تھے۔ گائوں میں ساون لگنے کے ساتھ میلہ لگنے کی شروعات ہو جاتی تھی اور دیوالی تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔
بارش کے وہ دن ایسے تھے کی ہر طرف تال تلیا بھر جاتی تھی۔ اُس وقت تالاب ہی میں نہیں بلکہ گائوں کی نالیوں میں لوگ مچھلیاں پکڑ لیتے تھے۔ دادی بتاتی تھیں کہ بھیا یہ مچھلیاں بارش کے ساتھ آسمان سے گرتی ہیں، اب اس بات میں کتنی سچائی ہے یہ تو اللہ جانے۔ مچھلیاں پکڑنے کیلئے بچے چپکے سے گھر سے نکل جاتے تھے اور جب وہ شام کو واپس آتے تو مائوں کے ہاتھوں سے مار کھاتے تھے۔ اب گائوں کےبچے کٹیا لے کر مچھلی نہیں پکڑتے بلکہ اُن کے ہاتھوں میں موبائل ہے اور کان میں ’ایئر بڈ‘اس طرح وہ اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں۔