گرمیوں میں گائوں کے بچے اسی درخت کے نیچے جمع ہو کر کھیلتے ہیں ۔ اب صبح اُٹھ کرگائوں میں بھی دانت صاف کرنے کیلئے برش تلاش کیا جاتا ہے لیکن ایک دور تھا جب گاؤں والوں کی صبح نیم کی مسواک سے ہوا کرتی تھی۔
EPAPER
Updated: June 01, 2025, 2:50 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
گرمیوں میں گائوں کے بچے اسی درخت کے نیچے جمع ہو کر کھیلتے ہیں ۔ اب صبح اُٹھ کرگائوں میں بھی دانت صاف کرنے کیلئے برش تلاش کیا جاتا ہے لیکن ایک دور تھا جب گاؤں والوں کی صبح نیم کی مسواک سے ہوا کرتی تھی۔
آج بات کرتے ہیں نیم کی۔ مئی، جون کی دوپہریا میں لوگ اسی کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھتے ہیں ۔ تیز دھوپ سے بچنے کیلئے مویشیوں کو بھی اسی کے نیچے باندھا جاتا ہے۔ گرمیوں میں گائوں کے بچے اسی درخت کے نیچے جمع ہو کر کھیلتے ہیں ۔ اب صبح اُٹھ کرگائوں میں بھی دانت صاف کرنے کیلئے برش تلاش کیا جاتا ہے لیکن ایک دور تھا جب گاؤں والوں کی صبح نیم کی مسواک سے ہوا کرتی تھی۔ صبح اُٹھ کر بچے نیم کا بڑا سا کلّاتوڑتے پھر اُس کے بالشت بھر کے ٹکڑے کرکے گھر کے بڑوں کے سرہانے لے جاکر رکھ دیتے تھے۔ اِس طرح وہ صبح صبح اپنے بزرگوں کی دعائیں لیتے تھے۔ وہ وقت تھا جب گائوں میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال معیوب سمجھا جاتا تھا۔ بمبئی اور دِلّی سے آنے والے پردیسی جب صبح صبح نل کے پاس برش لے کر پہنچتےاور بڑوں کی نظریں اُن پر پڑتیں تو وہ کہتے ’’بیٹا اب بلایت میں نہیں ہو، یہ تمرا گائوں ہے، یہی نیم کی مسواک کرکے بڑے ہوئے ہو، یہ برش وہیں شہرمیں استعمال کرنا یہاں جب نیم ہے تو پھر اس کی کیا ضرورت۔ ‘‘گھر کے بڑے بزرگ اُس وقت نیم کی مسواک خود استعمال کرتے تھے، چنانچہ گھر کے بچے بھی اُسی کو پسند کرتے تھے۔ پیسٹ سے متعلق گھر کی خواتین کہتی تھیں کہ اس کے استعمال سے منھ کا مزہ خراب ہو جاتا ہے۔ نیم کی دتون کرو تو دانت بھی صاف اور من’ پھر چھا‘ہو جات ہے (دانت صاف ہونے کے ساتھ من بھی صاف ہو جاتا ہے)گائوں میں نیم کے درخت اِکا دُکا ہی سہی لیکن آج بھی ہیں لیکن اب صبح صبح مسواک کیلئے اُن کا استعمال بہت کم ہو گیا ہے۔
نیم تیزی سے اُگنے والا درخت ہے۔ یہ قد میں ۲۰۔ ۱۵؍ میٹر اونچا ہوتا ہے۔ جاڑے کے خشک دنوں کے علاوہ پورے سال گہرے سبز پتوں سے لدا رہتا ہے۔ اس کی شاخیں کافی چوڑی اور پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کی شاخیں ایک دوسرے سے مل کر ایک گھنی چھتری بن جاتی ہیں، اس چھتری کا دائرہ ۲۰؍ سے ۲۵؍ میٹر تک پہنچ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ درخت اپنے گھنے سائے کیلئےمشہور ہے۔ نیم کےسائے میں دوسرے درختوں کی چھاؤں کی نسبت دو تین ڈگری درجہ حرارت کم رہتا ہے۔ اس کے پتےآمنے سامنے ایک جوڑے کی شکل میں پتلی سی سینک پر سجے ہوتے ہیں ۔ یہ پتلی سی لمبی ڈنڈی ہوتی ہے، مسواک کیلئے اسی ڈنڈی کا استعمال ہوتا ہے۔ اس پر درمیانے درجے کے گہرے سبز رنگ کے پتے موجود ہوتے ہیں ۔ اس کے پتلے پتلے سینکے بھی بڑے کام کے ہوتے ہیں۔ جس طرح مسواک سے دانت صاف کیا جاتا ہے اسی طرح کھانے کے بعد اگر دانت کے اندر کچھ پھنس گیا تو اس کے پتلے سے سینک سےاسے نکالا جاتا تھا۔ اب تو اِس کی جگہ ’ٹوتھ پِک‘ نے لے لی ہے۔ موسم خزاں میں جب پتیوں کے ساتھ یہ سینکے ٹوٹ کر گرتے تھے تو اِن کو چُن کر جمع کیا جاتا تھا اور پتلے سے دھاگے میں باندھ کر حفاظت سے رکھ دیاجاتا تھا۔ جب کوئی گائوں سے بمبئی یا دِلّی جانے لگتا تو اسے کئی کپڑوں کے درمیان تہہ کرکے خواتین یہ کہتے ہوئے دیتیں کہ بابو حفاظت سے لے جانا، اس میں سینکا ہے کہیں ٹوٹے نا۔ گائوں کی خواتین اُس وقت چھوٹی چھوٹی چیز شہربھیجا کرتی تھیں یہ سوچ کر کہ شاید وہ شہر میں نہ ملتی ہو، بس اس میں ان کامحبت اور خلوص شامل تھا۔
نیم اونٹوں کا پسندیدہ چارہ ہے۔ پہلے اونٹ پالنے والے شام کو ایک لمبی لگّی کے ساتھ نیم کے درختوں کا رُخ کرتے تھے۔ یہاں وہ بڑی تعداد میں نیم کی پتیاں توڑتے اور اُسے اونٹ پر لاد کر گھر لے جاتے تھے۔ اس طرح اونٹ کے کئی روز کے چارے کا انتظام ہو جاتا تھا۔ ہاں تو اُس روز بچے بھی وہاں نیم کے پیڑ کے پاس جمع ہو جاتے تھے اور اپنی پسند کی ڈھیر ساری دَتون توڑلیتے تھے پھر کئی روز تک انہیں صبح اُٹھ کر نیم کی مسواک تلاش نہیں کرنا پڑتی تھی۔ اُس وقت گائوں میں اونٹوں کی بڑی تعداد ہوا کرتی تھی کیونکہ یہ اینٹ بھٹے پر کچے اینٹ ڈھونے کے کام آتے تھے۔ اونٹوں کی قطاریں جب علی الصباح اینٹ بھٹے کیلئے نکلتیں تو دور باغوں کی طرف سے ان کے گلے میں بندھی گھنٹی کی ٹِن ٹِن کی آواز آتی تو لوگ بستر چھوڑنے لگتے کہ... اب دیر کی تو فجر کی نماز جاتی رہے گی۔
آم میں بو رلگنے کے ساتھ ہی نیم کے پھول نکلتے ہیں ۔ آم میٹھا اور نیم کڑوی ہوتی ہے، لیکن جب آم کھا کھا کے بچوں کے جسم میں پھوڑے اور پھنسیاں نکلتی ہیں تو اسی نیم سے وہ ٹھیک ہوتی ہیں۔ نیم کی چھال، بیجوں کا عرق اور نیم کے پتے صدیوں سے انسانوں اور جانوروں کے علاج کیلئے استعمال ہورہے ہیں۔ مئی جون میں نیم کی چھائوں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ ہمارے علاقے میں جب بجلی نہیں تھی تو گرمیوں کی راتیں اِسی نیم کی ٹھنڈی چھائوں میں کٹتی تھیں۔ اُس قت جب صبح بستر تہہ کیا جاتا تو پورے بستر سے نیم کے چھوٹے چھوٹے پھول نکلتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے رات بھر آسمان سے پھولوں کی بارش ہوئی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ جب انگریزوں نے۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد دارالحکومت دہلی کو ازسرِنو بسانا شروع کیا تو نیم کے درخت کو خصوصی ہدایات دے کر لگوایا گیا تھا۔