Inquilab Logo Happiest Places to Work

حالات کا رونا کیا روئیں، سب اپنا اپنا کام کریں

Updated: June 01, 2025, 3:25 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

حالات کیسے اور کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، اگر ہمارے عزائم بلند ہوں تو یہ حالات ہمیں آگے بڑھنے اور اپنا کام کرنے سے نہیں روک سکتے۔ مشکل حالات میں بھی مایوسی کو کفر سمجھنے والے مسلمانوں نے خود کو منوایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ہم دریا ہیں، سیل رواں ہیں۔ ایک راستہ بند ہوگا تو دوسرا بنالیں گے اور اپنا سفر جاری رکھیں گے۔

Despair is clearly against the mood of Muslims and their faith. Photo: INN.
مایوسی، مسلمانوں کے مزاج اور ان کے ایمان کے بھی صریح خلاف ہے۔ تصویر: آئی این این۔

حالیہ چند دنوں میں چار ایسی خبریں سامنے آئی ہیں، جس کی وجہ سے قانون و انصاف پر یقین رکھنے والوں کو ایک جھٹکا لگا ہے۔ ان میں پہلی خبر کا تعلق بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان برج بھوشن شرن سنگھ سے ہے۔ دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے گزشتہ دنوں اُن کے خلاف پوکسو کے تحت درج معاملہ ختم کر دیا۔ اس کے بعد برج بھوشن جب دہلی سے ایودھیا ہوائی اڈے پر پہنچے تو ایک ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ۱۰۰؍ سے زائد قیمتی گاڑیوں کے قافلے نے ان کا ’فاتحانہ جلوس‘ نکالا۔ برج بھوشن کے خلاف مزاحمت کرنے والی خاتون پہلوان اور کانگریس کی رکن اسمبلی ونیش پھوگاٹ نے اس کے بعد پوسٹ میں لکھا کہ’’ لشکر بھی تمہارا ہے، سردار بھی تمہارا ہے، تم جھوٹ کو سچ لکھ دو، اخبار بھی تمہارا ہے۔ ہم اس کی شکایت کرتے تو کہاں کرتے؟ سرکار تمہاری ہے، گورنر بھی تمہارا ہے۔ ‘‘
اس خبر کوعوامی سطح پر ایک پیغام کے طور پر دیکھا گیا کہ ’’جو ہمارے ساتھ ہے، وہ پوری طرح سے محفوظ ہے۔ کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ ‘‘ 
دوسری خبر کا تعلق سیبی(سیکوریٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا)کی سابق سربراہ مادھوی بچ سے ہے۔ گزشتہ دنوں لوک پال نے ان کے خلاف عائد الزامات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ ان پر عائد بدعنوانی کے الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ لوک پال نے ’سنی سنائی باتوں ‘ کو بطور ثبوت ماننے سے انکار کر دیا۔ اسی کے ساتھ شکایت کنندگان کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ کارروائی کے دوران پیش کئے گئے دستاویزی ثبوتوں کو عام نہ کریں۔ 
سوشل میڈیا پر اس خبر کے تعلق سے خوب تبصرے ہوئے۔ بیشتر نے اس خبر میں پوشیدہ پیغام کو کچھ اس طرح ’ڈی کوڈ‘ کیا کہ ’’ جو ہمارے مفادات کا خیال رکھے گا، ہم اس کے مفادات کا خیال رکھیں گے۔ ‘‘
 تیسری خبر کا تعلق خود کو سادھوی کہلوانے والی فرقہ پرست لیڈر رتھمبرا سے ہے۔ گزشتہ دنوں ایک سرکاری تقریب میں صدر جمہوریہ کے ہاتھوں انہیں ملک کا تیسرا سب سے بڑا شہری ایوارڈ ’پدم بھوشن‘ دیا گیا۔ یہ وہی رتھمبرا ہیں جنہوں نے ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو’ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو ‘ نعرہ لگایا تھا، جسے سپریم کورٹ نے ایک مجرمانہ عمل قرار دیا تھا۔ ترشولوں، کدالوں اور ہتھوڑوں سے لیس جس بھیڑ نے ایودھیا میں مسجد اور نازک طریقے سے بُنے گئے ملک کے سیکولر تانے بانے کو تہس نہس کیا تھا، یہ اس کا ایک اہم حصہ تھیں۔ اس کے بعد ملک بھر میں تباہ کن فسادات ہوئے تھے۔ رتھمبرا کو اس اعلیٰ شہری اعزاز سے نوازے جانے پر ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا نے افسوس کااظہار کرتے ہوئے ایک پوسٹ کی کہ اس فیصلے سے ملک کا سر شرم سے جھک گیا ہے کیونکہ یہ وہی خاتون ہے جس نے مسلمانوں کا موازنہ مکھیوں کے جھرمٹ سے کرتے ہوئے انہیں دودھ میں لیموں قرار دیا تھا۔ 
سادھوی رتھمبرا کے اعزاز کو ملک کے طول و عرض میں اس پیغام کے طور پر دیکھا گیا کہ’’ جو ہمارے ایجنڈوں کی تشہیر میں معاونت کرے گا، ہم اسے ہر ممکن طریقے سے نوازیں گے۔ ‘‘ 
اس سلسلے کی چوتھی خبرکا تعلق ملک کی مشہور نجی یونیورسٹیوں سے میں سے ایک اشوکا یونیورسٹی سے ہے۔ اس یونیورسٹی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے قیام(۲۰۱۴ء) کے محض تین سال بعد ۲۰۱۷ء میں اسے ’یونیورسٹی آف دی ایئر‘ کا خطاب ملا تھا اور ۲۰۱۹ء میں اسے ملک کی ۱۰۰؍ پرائیویٹ یونیورسٹیز میں دوسرا مقام ملا تھا۔ گزشتہ دنوں حکومت کے نشانے پر آنے والے پروفیسر علی خان محمود آباد کا تعلق اسی یونیورسٹی سے ہے۔ اس بحرانی کیفیت میں یونیورسٹی نے اپنے پروفیسر کے ساتھ ہرطرح سے تعاون کیا ہے، اسلئے یونیورسٹی اب حکمراں طبقےکے نشانے پر ہے۔ اپنے کچھ خدشات کے ساتھ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’اب یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوتی جا رہی ہے کہ علی خان محمود آباد کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا اس پر مکمل قبضہ کرلیا جائے گا؟ یا پھر اسے بھی جے این یو کی طرح برباد کرنے کی کوشش کی جائے گی؟‘‘
اس خبر کو اس حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ’’جو ہمارا ساتھ نہیں دے گا، ہماری ہاں میں ہاں میں ملانے کے بجائے اپنا نظریہ پیش کرے گا اور اختلاف کی جرأت کرے گا یا پھر ایسا کرنے والوں کا ساتھ دے گا اور ان کا دفاع کرے گا، وہ ہمارے نشانے پر ہوگا۔ ‘‘
ان خبروں نے ملک کے ایک طبقے کو مایوس کیا ہے۔ وہ لوگ جو ملک میں انصاف کا بول بالا چاہتے ہیں، مجرمین کیلئے قرار واقعی سزاکی خواہش رکھتے ہیں، بدعنوانوں اور ملک کے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچانے والوں کو جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں اور تحریر و تقریر کی آزادی کی بھی امید رکھتے ہیں، ان تمام کو ان خبروں کی وجہ سے تکلیف پہنچی ہے۔ 
بے شک ان خبروں سے مایوس ہونے والوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مایوسی میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ پر بیٹھ جایا جائے۔ یہ تو ہمارے مزاج اور ہمارے ایمان کے بھی صریح خلاف ہے۔ 
سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کو انہیں حالات میں اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ ہابیل کے راستے میں قابیل نے رکاوٹیں کھڑی کیں تو ہابیل نے شکست نہیں قبول کرلی۔ یوسف ؑ کو جیل میں ڈال دیا گیا تو وہ ہمت نہیں ہار بیٹھے۔ فرعون سے ڈر کر موسیٰ ؑ گھر میں نہیں بیٹھ گئے۔ حضور اکرم ؐ کے زمانے میں بھی کیا کم مصیبتیں تھیں۔ ابوجہل اور ابو لہب کی کارستانیوں کے ساتھ ہی عبداللہ بن ابی کی سازشیں بھی ہوتی تھیں۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں منگول تو بعد کے ادوار میں طرح طرح کے فتنے مسلمانوں کے راستوں کی رکاوٹیں رہے ہیں لیکن مسلمانوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ حالات کیسے اور کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، اگر ہمارے عزائم بلند ہوں تو وہ ہمیں آگے بڑھنے اور اپنا کام کرنے سے نہیں روک سکتے۔ مشکل حالات میں بھی مایوسی کو کفر سمجھنے والے مسلمانوں نے خود کو منوایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ہم دریا ہیں، سیل رواں ہیں۔ ایک راستہ بند ہوگا تو دوسرا بنالیں گے اور سفر جاری رکھیں گے۔ ملاحظہ کریں چند مثالیں :
ابھی حال ہی میں کرناٹک میں دسویں کے نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ ۲۲؍ طلبہ نے ۶۲۵؍ میں ۶۲۵؍ یعنی صد فیصد مارکس حاصل کئے ہیں۔ ان میں سے تین طالب علم عقیل احمد نداف، محمد مستور عادل اور شگفتہ انجم الحمدللہ مسلمان ہیں۔ 
کچھ دن قبل بہار میں بھی بورڈ کے نتائج ظاہر ہوئے تھے۔ وہاں پر بارہویں آرٹس میں دو طلبہ نے یکساں (۴۷۳) مارکس کے ساتھ اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ ان میں سے ایک طالب علم کا نام ثاقب شاہ تھا۔ اسی طرح۴۷۰؍ مارکس کے ساتھ تیسری پوزیشن پر تین طالب علم تھے جن میں سے ایک رقیہ فاطمہ تھیں۔ 
کچھ دنوں قبل مدھیہ پردیش میں ۱۲؍ویں کے نتائج کااعلان کیا گیا ہے۔ اس میں کامرس گروپ میں ۵۰۰؍ میں ۴۸۸؍ مارکس لے کر ذیشان قریشی نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ ۱۰؍ویں کا نتیجہ بھی شاندار رہا۔ وہاں پر ٹاپ ٹین میں تین مسلم طلبہ نے اپنی جگہ بنائی۔ ۵۰۰؍ میں ۴۹۸؍ مارکس لے کرشاذیہ فاطمہ نےتیسری، سنبل خان اور ترنم رنگریز نے (۴۹۶) مارکس کے ساتھ پانچویں پوزیشن حاصل کی۔ 
ابھی چار دن قبل ۲۷؍مئی کو جھارکھنڈ میں ۱۰؍ویں بورڈ کے نتائج ظاہر کئے گئے۔ اس میں ۵۰۰؍ میں ۴۹۷؍ مارکس لے کر تحرین فاطمہ نے پانچویں رینک حاصل کی۔ 
یہ چند امتحانات کے نتائج بطور مثال پیش کئے گئے ہیں ، ورنہ سچائی یہ ہے کہ ہرشعبے میں اُن مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی ہے جو ہار نہیں مانتے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حالات پر رونے اور شکوے شکایتیں کرنے کے بجائےہم سب اپنے اپنے حصے کا کام کریں اور پھر دیکھیں کہ کامیابی کس طرح ہمارے قدم چومتی ہے۔ وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
اُڑان والو اُڑانوں پہ وقت بھاری ہے
پروں کی اب کے نہیں حوصلوں کی باری ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK