Inquilab Logo Happiest Places to Work

جامن کے موسم میں کوئی جامن کے باغ چلاجائے تو جامن کھائے بغیرواپس نہیں آسکتا

Updated: July 06, 2025, 1:00 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

شاخوں پر پکے جامن جھول رہے تھے۔ میں نے کافی جامن کھائے، پھر پانی پیا اور پیٹ بھر لیا۔ جیب میں موجود پچاس روپے فی الحال ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ رات رفتہ رفتہ تاریک ہو رہی تھی۔

The branches laden with berries are high, but now that they have reached the orchard, how can they return without eating? Photo: INN.
جامن سے لدی شاخیں اونچی ہیں لیکن اب جبکہ باغ پہنچ ہی گئے ہیں تو کھائے بغیرواپس بھلا کیسے جائیں ؟تصویر: آئی این این۔

سیتاپور کے تاریخی قصبہ بِسواں سے چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے ہم کیوٹی گائوں پہنچ گئے۔ گائوں کا نام جب سنا تو میرے ذہن میں خیال آیا کہ املے میں ذرا سی تبدیلی کر دی جائے تو یہ گائوں جاپان کاکیوٹو ہو جائےگا لیکن پھر سوچا کہ املا کی تبدیلی سے نام بدل سکتا ہے لیکن حقیقت نہیں ۔ جیسے لاکھ دعویٰ کرنے کے بعد بھی بنارس آج تک کیوٹو نہیں بن سکا۔ بِسواں سے نزدیکی کا اثر ہے یا پھر اودھ کا حصہ ہونےکے سبب یہاں لوگوں کی گفتگو میں لکھنؤ جیسی مٹھاس ہے۔ جامن کے پیڑ کے نیچے بیٹھے ہیں۔ چار پائی بچھی ہے۔ برابر میں کرسیاں لگائی گئی ہیں، لیکن وہ سب خالی پڑی ہیں کیونکہ چارپائی پر بیٹھنےمیں جو آرام ملتا ہے وہ کرسیوں پر کہاں۔ آسمان پر بادل چھائے ہیں۔ پُروا ہوا سَرسَر چل رہی ہے، شہر سے آئے یہ مہمان جامن کے باغ میں آم کھا کر بیٹھے ہیں۔ سر کے اوپر اونچی اونچی شاخوں میں جامن موتیوں کی لڑی کی طرح گچھی ہے۔ جامن وہ بھی اتنے سارے اور تازے بھی، جسے دیکھ کر ہر کسی کے منھ میں پانی آجائے۔ شاخیں اونچی ہونے کے سبب دسترس سے باہرہے۔ سب چھوٹے بچوں کی طرح مچل رہے تھے کہ اتنے میں مولانا فہیم جامعی گائوں کے کچھ نوجوانوں کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ یہ نوجوان ایک ایک کرکے پیڑوں پر چڑھ گئے اور تھوڑی دیر میں جامن کا ڈھیر لگا دیا۔ پھر باقاعدہ جامن کو دھل کرکے اس پر نمک لگا کر ایسا کھایا گیا کہ گٹھلیوں کا ڈھیر لگ گیا۔ 
جامن کھانے کے دوران ماسٹر اشتیاق صاحب نے ایک پرانا قصہ بھی سنایا....کوئی ۲۷؍ سال گزر گئے اُس وقت مجھے انٹر میڈیٹ کے امتحان کیلئے لکھنؤ جانا تھا، میرے پاس پیسے کم تھے۔ لکھنؤ پہنچا تو کرایہ وغیرہ دینے کے بعد جیب میں محض پچاس روپے ہی باقی رہ گئے تھے۔ امتحان دے کر گھر واپس جاتے تو دوسرے روز آنے کیلئے ہاتھ میں پیسے نہیں  تھے۔ چنانچہ روز گھر آنا جانا ممکن نہیں  تھا۔ دل میں خیال آیا کیوں نہ رات کو کالج ہی میں رُک جایا کروں۔ اُس وقت لکھنؤ میں میرا کوئی دوست یا جان پہچان والا بھی نہیں تھا۔ پیپر دینے کے بعد مَیں نے یہ کیا کہ کالج کے گراؤنڈ میں پھرتا رہا اور اگلے دن کے پیپر کی تیاری کرتا رہا۔ یہ کالج بہت پرانا تھا، وہاں جا بجا جامن، آم اور امردد کے درخت تھے۔ جامن کے درخت زیادہ تھے اور موسم بھی جامن کا تھا۔ شاخوں پر پکے جامن جھول رہے تھے۔ میں نے کافی جامن کھائے، پھر پانی پیا اور پیٹ بھر لیا۔ جیب میں موجود پچاس روپے فی الحال ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ رات رفتہ رفتہ تاریک ہو رہی تھی۔ پرندوں سے لے کر انسان تک سب اپنے گھر جا چکے تھے۔ وہاں برآمدوں میں چوڑے چوڑے ڈیسک پڑے تھے، وہیں سر کے نیچے کتابیں رکھ کر لیٹ گیا۔ پنکھا نہیں تھا اور مچھر ایسے کہ اللہ کی پناہ۔ صبح کی امید پر آنکھیں موند لیں لیکن مچھروں کی یلغارسے نیند کوسوں دور تھی۔ یہاں کوئی آدم نہ آدم زاد۔ رات کے اندھیرے میں ہر طرف سے سائیں سائیں کی آواز آ رہی تھی، ڈر کے مارے اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ سامنے دیکھتا ہوں تواسی برآمدے کے ایک کونے میں ایک نئی سائیکل پڑی ہے۔ جسے دیکھ کر حیرانی ہوئی قریب گیا تو دیکھا اس میں تالا بھی نہیں لگا تھا سوچا کسی چوکیدار کی ہو گی، جو یہیں آس پاس ڈیوٹی دے رہا ہوگا، اس خیال سے اطمینان ہوا کہ چلو اس ویرانے میں کوئی تو ہے۔ دوبارہ بستر پر گیا اور سو گیا۔ جب اُٹھا تو سورج کی روشنی برآمدے میں پہنچ گئی تھی اور دیکھا تو سائیکل وہیں کھڑی تھی۔ برآمد کے باہر نل پر ہاتھ منھ دھلا اور جامن کا ناشتہ کیا پانی پی کر پیپر دینے نکل گیا۔ 
دوپہر کو پھر جامن کھائے مگر بھوک نہ مٹتی تھی اور روٹی کی طلب شدید ہونے لگی اور جامنوں سے دل اوبنے لگا مگر مصیبت یہ تھی کہ وہ پچاس روپیہ کھانے پر خرچ کر دیتا تو کرایہ کہاں سےلاتا۔ مرتا کیا نہ کرتا جامن پر اکتفا کرنا پڑا۔ باہر بینچ پر بیٹھ کر کتابیں پڑھنے لگا ...یوں روٹی کا خیال دل سے جاتا رہا۔ اُسی حالت میں شام بھی ہو گئی۔ اب جو برآمدے میں آرام کرنے پہنچا تو سائیکل وہیں، اُسی حالت میں تھی۔ دل میں خیال آیا کیوں نہ اِسے لے کر چلتا بنوں ، گائوں پہنچ جائوں گا کرائے بھی بچ جائیں گے، پچاس روپے کھانے پر خرچ کر دوں گا۔ پھر خیال آیا یہ تو چوری ہے، توبہ توبہ۔ 
جامن کھاکھا کر طبیعت بھر گئی تھی، بھوک سےپریشان تھا، کالج کے نکڑ پر ایک ہوٹل تھا وہاں سے بیس روپے کا ناشتہ کیا اور واپس آ کر خالی پیٹ کو پھر کچھ جامنوں سے بھرا۔ پیپر دے کر آیا تو دیکھا، وہ سائیکل وہیں تھی۔ تیسرے دن سوچا آج پہلے تیس روپے کا کھانا کھالیتا ہوں پھر پیپر دوں گا اوراُس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائےگا۔ پیسوں کے حساب سے دال روٹی کا آرڈردے دیا، مگر بیرا گوشت روٹی لے آیا۔ میں نے ایک آنکھ بیرے کو دیکھا اور بولابھائی، بھوک سے سر میرا گھوما ہوا ہے، آپ کو کیا ہو گیا ہے، دال روٹی بولا تو آپ گوشت پیش کررہے ہیں ، اُس نے کہا آپ کھا لیجئے پیسے ہو چکے ہیں۔ میں حیران ہو گیا۔ اس نے کونے میں بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ دیکھا تو میرے لئے وہ بالکل انجان تھے۔ میں اُٹھ کر اُن کے پاس گیاتو کہنے لگے ...بیٹے میں اس کالج میں ملازم ہوں ، میری دو سائیکلیں چوری ہو چکی تھیں، تیسری نئی سائیکل یہاں رکھ کر اس کی خفیہ نگرانی کررہا تھا، پہلے مجھے تم پر شک تھا لیکن آج صبح فجر کے وقت اصل چور پکڑا گیا ...پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ تم یہاں امتحان دینے آئے ہو اور جامن پر گزارا کررہے ہو اسلئے تمہارا پیچھا کرکے یہاں تک آیا ہوں، بے فکر ہو کر کھانا کھائو۔ یہ سننا تھا کہ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ کہیں میری نیت خراب ہوتی اور سائیکل کو ہاتھ لگا دیتا تو ...یہ کہتے ہوئےاشتیاق بھائی آبدیدہ ہو گئے اور وہاں موجود سبھی کے آنکھیں نم ہو گئیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK