امام حسین ؑ نےمقابل فوجیوں کو مخاطب کر کے کہا تھاکہ’’ میری باتوں پر کان نہیں دھرتے ہو کیونکہ تمہارے پیٹ مال حرام سے پُر ہو چکے ہیں اور تمہارے دلوں پر شقاوت کی مہر لگا دی گئی ہے‘‘
EPAPER
Updated: July 06, 2025, 1:55 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
امام حسین ؑ نےمقابل فوجیوں کو مخاطب کر کے کہا تھاکہ’’ میری باتوں پر کان نہیں دھرتے ہو کیونکہ تمہارے پیٹ مال حرام سے پُر ہو چکے ہیں اور تمہارے دلوں پر شقاوت کی مہر لگا دی گئی ہے‘‘
کربلا کی جنگ نے فتح و شکست کے اس روایتی تصور کو یکسر تبدیل کر دیا جو میدان کارزار کو سر کر لینے والے کو فاتح اور شکست کھانے والے کو مفتوح قرار دیتا ہے۔ اس جنگ میں بظاہر فاتح گروہ تا ابد کیلئے ہدف ملامت بن گیا اور جنھوں نے جام شہادت نوش فرمایا، آج ان کے نام پر دنیا بھر میں سبیلیں لگائی جاتی ہیں ، ان کے مصائب و آلام پر سوگواری کا اظہار کیا جاتا ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ راہ حق پر ان کے ثبات قدم کو جہاد زندگی کیلئے نمونہ ٔ عمل بنایا جاتا ہے۔ روز عاشور یزید کی کثیر فوج نے اگر چہ اسلحوں کے دم پر امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب و انصار کو تہہ تیغ کر دیا لیکن ان شہیدوں کے لہو سے نمو پانے والی روشنی جادۂ حیات کے پرپیچ اورپریشان کن مراحل کو صالح افکار و اقدار کی ضیا سے منور کئے ہوئے ہے۔ یہ شہادت حسین ؑ کا فیض ہے کہ کربلا حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان حد فاضل کا ایسا استعارہ بن چکا ہے جو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال سے نوع انسانی کو حق و صداقت کیلئے جاں نثاری کی تحریک عطا کرتا ہے۔
کربلا کی جنگ، یزید کے مطالبہ ٔ بیعت پر امام حسینؑ کا فوری یا اضطراری رد عمل نہیں تھا جس کے تمام عوامل محض میدان جنگ تک ہی محدود رہ جاتے۔ اس جنگ کے وقوع ہونے سے قبل امام حسینؑ نے مدینہ سے ہجرت اور کربلا میں آمد کے درمیان چھ ماہ کی مدت میں جو اقدام کئے، ان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ صرف مبارز طلبی ان کا مقصود نہیں تھا۔ کربلا کی جنگ تو انھوں نے روز عاشور لڑی لیکن اس سے قبل وہ ان حالات و معاملات سے مسلسل نبرد آزما رہے جن سے مذہب کی اصل شکل کے مسخ ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو چلا تھا۔
اس ضمن میں امام حسین ؑ نے مدینہ، مکہ اور مکہ سے عراق کے سفر میں مختلف مقاما ت پر تقاریر کیں ۔ مدینہ سے ہجرت کے وقت انھوں نے اہل مدینہ کو انکار بیعت کی وجہ بتائی اور یزید کے خلاف قیام کی دعوت دی۔ اس تقریر میں امام حسین ؑ نے بہت واضح طور پر کہا کہ ان کے قیام کا مقصد مال و دولت اور اقتدار کا حصول ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ اپنے جدکے دین کی بقا اور دولت و حکومت کے زور پر مذہب کو مسخ کرنے والوں کی اصلاح کیلئے قیام کر رہے ہیں۔ مکہ پہنچنے کے بعد امام حسین ؑ نے کئی موقعوں پر اپنے موقف اور مقصد کی وضاحت کی اور باطل قوتوں کے مقابل سینہ سپر ہونے اور شہادت قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ مکہ میں بہ ظاہر حاجیوں کی شکل میں آنے والے یزیدی فوجیوں کے احرام میں چھپے ہوئے جنجر دیکھ کر حج کو عمرہ میں تبدیل کر کے امام حسین نے ۸؍ذی الحجہ ۶۰ھ کو جب عراق کی جانب روانہ ہونے کا قصد کیا تو اس وقت بھی اہل مکہ کو خطاب کر کے اپنی حقانیت و صداقت اور یزید کی بداعمالیوں کی تفصیل بیان کی۔ ۲؍ محرم ۶۱ھ کو کربلا پہنچنے اور روز عاشور میدان کارزار سجنے سے قبل امام حسین ؑ نے کئی مرتبہ اپنے رفقا اور انصار سے خطاب کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے یزیدی لشکر میں شامل اہل کوفہ کو بھی ان کی بے وفائی کا آئینہ دکھایا جنھوں نے متواتر اور متعدد خطوط بھیج کر امام حسین ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی۔ اہالیان کوفہ کے اصرار کی حقیقت نمایاں کرنے کی غرض سے جب امام حسین ؑ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا تو انہی کوفیوں نے حاکم وقت کے خوف اور بہکاوے میں آکر انھیں قتل کر دیااور ان کی لاش کی بے حرمتی کی۔
امام حسین ؑ نے روز عاشور کئی موقعوں پر اپنے اصحاب و انصار کے علاوہ یزیدی فوج سے خطاب کیا۔ ان خطبات میں انھوں نے اپنے حسب ونسب کی فضیلت اور عظمت کو بیان کرنے کے ساتھ ہی مذہب کی تبلیغ و ترویج کے سلسلے میں کی گئی ان ریاضتوں جاں فشانیوں کا ذکر کیا جو ان کے نانا حضرت محمد ؐ اور بابا حضرت علی ؑ سے منسوب ہیں۔ یزیدی لشکر میں شامل فوجیوں پر دولت و حکومت کی حرص کا غلبہ اس حد تک ہو چکا تھا کہ ان پر امام حسین ؑ کی ان باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس کثیر فوج میں صرف ایک حُر ہی ایسا بندہ ٔ حق شناس تھا جس نے تمام دنیوی مال و متاع اور منصب و مرتبہ کو ٹھوکر مار دی اور حسین پر جاں نثار کر کے شہدائے کربلا میں شامل ہو گیا۔ روز عاشور، اتمام حجت سے قبل امام حسین ؑ نے جتنے بھی خطبے دیئے ان سب میں شہادت برائے حق پر خصوصی زور دیا۔
امام حسین ؑ کو تنہا دیکھ کر یزیدی فوج اس قدر شور وشر میں محو ہوئی کہ ان بصیرت افروز کلمات کو سننے کے بجائے امام حسین ؑ کو چشم زدن میں قتل کر دینے کا سامان کرنے لگی۔ اس وقت امام حسین ؑ نے ان فوجیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ’ ’ خدا تمہیں سمجھے ! اگر تم میری بات سن لو گے تو تمہارا کیا بگڑ جائے گا؟ میں تمہیں صراط مستقیم کی طرف بلاتا ہوں جو میری اطاعت کرے گا وہ ہدایت پا جائے گا اور جو میری نافرمانی کرے گا وہ ہلاک ہوگا۔ تم سب میرے فرمان سے سرکشی کرتے ہو اور میری باتوں پر کان نہیں دھرتے ہو کیوں کہ تمہارے پیٹ مال حرام سے پُر ہو چکے ہیں اور تمہارے دلوں پر شقاوت کی مہر لگا دی گئی ہے۔ ‘‘امام حسین ؑ کے خطبہ ٔ آخر کے یہ فقرے صرف ان یزیدی فوجیوں کیلئے ہی نہیں تھے جوقتل حسین ؑ پر آمادہ تھے اور حق و باطل کے فرق کا شعور گنوا بیٹھے تھے بلکہ ان فقروں کا اطلاق ہر اس فرد پر ہوتا ہے جو اپنی بے پایاں اور لامحدود خواہشات اور مال و زر کے لالچ میں حرام و حلا ل کے فرق کوفراموش کردیتا ہے۔ ان فقروں کے بین السطور میں ایسی نفسیاتی حقیقت پوشیدہ ہے جو عہد حاضر کے انسانی رویہ میں بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ انسان کی مادیت پرستی اور پر تعیش زندگی جینے کی خواہش جب اس کی جائز آمدنی سے پوری نہیں ہوتی تو وہ اکثر حرام و حلال کے فرق اور اس کی تاثیر سے تجاوز کر کے صرف تکمیل خواہشات کو ترجیح دینے لگتا ہے۔ انسان کا یہ رویہ نہ صرف اس کی آل و اولاد اور اہل خاندان کے قول و فعل میں کجی اور آلودگی کا باعث بنتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے بعض اوقات معاشرہ ایسے مسائل سے دوچار ہوتا ہے جو انسانی صفات اور آداب حیات کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔
کربلا درس گاہ ایمانی کے ساتھ ہی اس درس گاہ انسانی کا بھی نام ہے جو معیاری اور پروقار زندگی جینے کے آداب سکھاتی ہے۔ فی زمانہ امام حسین ؑ کے خطبہ ٔ آخر کے ان فقروں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ گرد و اطراف کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو ایسے کئی چہرے نظر آئیں گے جن کا حلیہ تو بہ ظاہر مذہبی ہے لیکن ان کا باطن ایسی خرابیوں کا محور ہوگا جو معاشرہ میں صالح انسانی اقدار کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ امام حسین ؑ نے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل تین دن کی بھوک و پیاس کے عالم میں جام شہادت نوش کرنے سے قبل انسانی وجود کو آلودہ کر دینے والی اس کثافت کا ذکر کر دیا تھا جس کی تاثیر اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے کہ خود کو مسلمان کہنے والے اس نواسہؐ رسول کے قتل کیلئے صف آرا ہو جاتے ہیں جسے پیغمبرؐ نے جوانان جنت کا سردار کہا ہے۔
یہ فقط یزیدی فوج کا ردعمل نہیں بلکہ مال حرام اور ہوس زر میں مبتلا ہر اس شخص کی خصلت ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل میں جائز و ناجائز کے فرق کو فراموش کردیتا ہے۔ یہ انسانی خصلت عہد حاضر کے انسانی سماج کا پریشان کن مسئلہ بن گئی ہے۔ کربلا کا حقیقی عرفان معاشرہ کو ایسے مسائل سے نجات عطا کر سکتا ہے اور بلاشبہ یہ قربانی حسین ؑ کا فیض لا متناہی ہے۔