جے این یو طالبعلم کی گمشدگی کے کیس میں ایجنسی نے مبینہ طورپر اے بی وی پی کے غنڈوں کو بچانے کی کوشش کی، اس سے اور کیا سمجھاجائے ؟
EPAPER
Updated: July 06, 2025, 2:14 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
جے این یو طالبعلم کی گمشدگی کے کیس میں ایجنسی نے مبینہ طورپر اے بی وی پی کے غنڈوں کو بچانے کی کوشش کی، اس سے اور کیا سمجھاجائے ؟
نجیب احمدصرف ایک نام نہیں ہے بلکہ اس سے ایک المیہ جڑا ہوا ہے اور اس المیہ کی جڑیں ملک کی سیاسی جمہوریت سے لےکرتعلیمی اداروں تک میں گہرائی سے پیوست ہیں ۔ یہ المیہ یہ ثابت کرنےکیلئے کافی ہےکہ فرقہ واریت سے ملک کی سیاست کس حد تک متاثر ہےاوریہ سیاست ملک کے مخصوص تعلیمی اداروں پر کس طرح حاوی ہوتی جارہی ہے۔ جواہر لال نہرویونیورسٹی انہی میں سے ایک ہے جہاں ۱۵؍ اکتوبر۲۰۱۶ء کو نجیب احمد نامی طالب علم جو لاپتہ ہوا توآج تک اس کاسراغ نہیں مل سکا اورملک کی اہم ترین تفتیشی ایجنسی سی بی آئی بھی اسے تلاش کرنے میں ناکام رہی۔
نجیب احمد کی گمشدگی اور سی بی آئی کے ذریعےاس معاملے کی گتھی سلجھانے کی کوشش تو ناکام رہی ہے، اس کے علاوہ اب تک وہ اسباب بھی متعین نہیں ہو سکے ہیں جن سے اس پورے معاملے کی بنیادکا پتہ چلتا ہو۔ بس ایک خبر ہےکہ لا پتہ ہونے سے پہلے اے بی وی پی کے کارکنوں کےساتھ کسی بات پر نجیب کا جھگڑا ہوا تھا۔ یہ جھگڑا کس بات پرتھا، کس نوعیت کا تھا، اس کے بارے میں تفصیلات پر زیادہ گفتگو نہیں کی جاتی ۔
نجیب احمد جے این یومیں ایم ایس سی بائیوٹیکنالوجی کے سال اول کا طالبعلم تھا۔ گمشدگی سے ایک ہفتہ پہلے ہی اس نے یونیورسٹی کے کیمپس میں ماہی منڈاوی ہاسٹل میں رہائش اختیار کی تھی۔ نجیب کے اہل خانہ اورجے این یو اسٹوڈنٹ یونین نے نجیب کی گمشدگی کوایک دن پہلے یعنی ۱۴؍ اکتوبر۲۰۱۶ء کی رات اس پر اے بی وی پی کارکنوں کے ذریعے کئے گئے حملے سے جوڑا تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی ) کے غنڈ وں نے نجیب کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اورہاسٹل کے الیکشن کیلئے اس سے ووٹ کا مطالبہ کیاتھا۔ ممکن ہےکہ نجیب کے انکار کے بعدمعاملہ بگڑ گیا ہواوراے بی وی پی کے کارکنوں نے اس پرحملہ کردیا ہو۔ اس کے بعد سے نجیب کاکچھ پتہ نہیں چلا۔ اس رات غنڈوں نے اس کے ساتھ کیا کیا، اسے کہاں لے گئے، کہیں اغواکر کے رکھا یا قتل کردیا، یہ ساری باتیں راز میں ہیں ۔ حالانکہ ان میں ایساکچھ بھی نہیں ہے جن کی تہہ تک سی بی آئی جیسی تفتیشی ایجنسی نہ پہنچ سکتی تھی لیکن حیرت ہےکہ اس نے کیس ہی ختم کر دیا۔ اس کےاس رویے پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
اس معاملے کے آغاز سے بات کی جائے تو یونیورسٹی انتظامیہ کا رویہ بھی اس پر کچھ سنجیدہ نہیں تھا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن (جے این یو ٹی اے) نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بے حسی اور جانبداری کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا کیونکہ اس واقعے کے بعد انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ ۲۵؍ نکاتی بلیٹن میں اس حقیقت کو چھپایا گیا تھاکہ نجیب احمد پر ایک دن پہلے ہی ایک جھڑپ کے دوران حملہ کیا گیا تھا۔ نجیب احمد کی والدہ فاطمہ نفیس نے پہلےیونیورسٹی انتظامیہ کے رویے پر ہی تنقید کی تھی۔ پھر وہاں اس خاتون نے جس آہنی عزم کا مظاہرہ کیا اور اس کیس کیلئے جدوجہد کی، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ انہوں نےعدالتوں کے چکر کے کاٹے، اپنے بیٹے کیلئے سماجی اور تعلیمی تنظیموں کے احتجاج میں شریک رہیں اوراہم عوامی فورموں پرآواز اٹھائی اوراب بھی ان کا لڑائی جاری رکھنے کاعزم ہے۔
نجیب کے والدین کی شکایت پر اس و قت وسنت کنج پولیس نے اغوا اور غلط طریقے سے قید کرنے کی ایف آئی آر درج کی تھی جبکہ ایسی بھی اطلاعات ملی تھیں کہ نجیب ایک چھوٹے سے قصبے میں خفیہ طور پر رہنے کیلئے چلا گیا۔ نجیب کا تعلق یوپی کے بدایوں سے تھا۔
دہلی ہائی کورٹ نے نجیب احمد کا معاملہ سی بی آئی کو سونپا تھا۔ کیس کی جانچ سی بی آئی کو سونپتے ہوئے عدالت نے خصوصی ہدایت دی تھی کہ کیس کی تحقیقات کم از کم ڈی آئی جی رینک کے افسر کے پاس ہونی چاہئے۔ دہلی ہائی کورٹ نے یہ حکم نجیب احمد کی ماں فاطمہ نفیس کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر دیا تھا۔ اب اسی دہلی ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ سی بی آئی اپنی تحقیقات میں غلطی نہیں کرسکتی، ایجنسی کی کلوزر رپورٹ تسلیم کرلی اور کیس کو ختم کردیا ۔ اس کیس کی ابتدا میں دہلی پولیس نے نجیب کے ٹھکانے کی اطلاع دینے پر ایک لاکھ روپےکے انعام کا بھی اعلان کیا تھا۔ یہ سب کچھ بے سود ثابت ہوا اورنجیب احمد کو نہ ملنا تھا سو نہ ملا۔
قوی شبہ ہےبلکہ معاملے پر نظر رکھنے وا لوں کی اکثریت کو یقین ہےکہ نجیب احمد کو قتل کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہےکہ اس شبہ کے زوایےسے سی بی آئی نے کیا کارروائی کی؟کیا سی بی آئی نے اے بی وی پی کے ان ۹؍ کارکنوں سےپوچھ تاچھ کی جنہوں نے نجیب احمد پرحملہ کیا تھا؟کیا سی بی آئی نے یونیورسٹی انتظامیہ کے اس بلیٹن کا جائزہ لیا جو اس نے جاری کیا تھا اوراس میں نجیب احمد کو ہی اسٹوڈنٹس کو اکسانے کا ملزم ٹھہرایا تھا ؟ کیا سی بی آئی نے یہ پتہ لگانے کی کوشش کی کہ اس وقت یونیورسٹی کیمپس میں آخر چل کیا رہا تھا ؟ایک تعلیمی ادارے میں ایک انتہا پسند تنظیم کے کارکنوں کے ذریعے تشدد، ہنگامہ، دھمکی اور متنازع سیاسی ہلچل کے اسباب کیا تھے؟ کیا سی بی آئی جیسی بڑی تفتیشی ایجنسی کو یہ سب کچھ نظر نہیں آیا؟ایجنسی نے نجیب سے جھگڑاکرنے والے اے بی وی پی کارکنوں اوراے بی وی پی کو بطورتنظیم کس حد تک تفتیش کے دائرے میں لایا؟یہ سارے سوالات کیا بے معنی ہیں ؟
غور طلب ہےکہ سی بی آئی نے ۲۰۱۸ء میں ہی کلوزر رپورٹ دہلی کی عدات کوسونپ دی تھی۔ اس کا جائزہ لینے کے بعدعدالت نے ۷؍ سال بعداب رپورٹ تسلیم کرلی یعنی یہ مان لیا کہ سی بی آئی کی تحقیقات میں کوئی خامی نہیں تھی۔ ایجنسی نے تمام پہلوؤں سے کیس کی تحقیقات کی۔ عدالت نے سی بی آئی کی اس تحقیق سے اتفاق کیا کہ ’’نجیب احمدرضا کارانہ طورپر کیمپس چھوڑ کرچلا گیا۔ ‘‘ اگر یہ اس پورے کیس کا نتیجہ ہےکہ نجیب اپنی مرضی سےکیمپس چھوڑ کر چلا گیا، توایسے نتیجے میں پہنچنے والی سی بی آئی کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی کیونکہ سی بی آئی کوئی معمولی ا یجنسی نہیں ہے۔ عام طورپرسنگین نوعیت کے مقدمات میں جن میں پولیس کی تحقیقات سوالات کے گھیرے میں آتی ہے، معاملہ سی بی آئی کو سونپنے کا مطالبہ کیاجاتا ہے اور اس ایجنسی سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی امید کی جاتی ہے، لیکن نجیب احمد جیسے واضح کیس میں کلوزر رپورٹ داخل کرناسمجھ سے بالا تر ہے! اس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ سی بی آئی نے کیس کی تفتیش غیر جانبداری سے نہیں کی بلکہ کسی کی ایما پر کی ہے، کسی کے دباؤ میں کی ہے اوربالآخر اے بی وی پی کو کلین چٹ دینے کیلئے کی ہے!
مالی جرائم یاخودکشی جیسے کسی کیس میں، مثلاً سوشانت سنگھ راجپوت کیس، ایجنسی کا کلوزر رپورٹ داخل کرنا سمجھ میں آتاہے لیکن یہ قومی راجدھانی کےایک تعلیمی ادارے سے طالبعلم کی گمشدگی کا کیس تھا۔ اس میں کئی پہلوواضح تھےاور کئی اچھوتے پہلوؤں تک سی بی آئی پہنچ سکتی تھی لیکن معلوم ہوتا ہےکہ سی بی آئی صرف مرکزی ہی نہیں بلکہ کیمپس سیاست اوراس جیسی سیاست کرنے والی ایک انتہا پسند تنظیم کے بھی زیر اثر آچکی ہےیعنی مرکزی ایجنسی نے خوداپناقد چھوٹا کرلیا ہے۔