Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار میں ۵؍ کروڑ سے زائد رائے دہندگان کے باہر رہ جانے کا خطرہ ہے

Updated: July 06, 2025, 2:16 PM IST | Amarinder Kumar Roy | Mumbai

آزادی سے قبل بہت کم لوگوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا، آزادی ملی تو ووٹ دینے کا حق بھی ملا لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ شہریوں سے ان کا حق ایک بار پھر چھین لیا جائے گا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

الیکشن کمیشن نے۲۴؍ جون کو ایک حکم جاری کیا۔ اس میں کہا گیا کہ بہار سمیت ۶؍ ریاستوں میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہرائی سے جانچ کی جائے گی۔ جن ۵؍ دیگر ریاستوں میں ووٹر لسٹ کا مکمل جائزہ لیا جائے گا ان میں مغربی بنگال، آسام، کیرالا، پڈوچیری اور تمل ناڈو شامل ہیں۔ یہ تمام وہ ریاستیں ہیں جہاں ۲۰۲۶ء میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ان ۵؍ ریاستوں میں جہاں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں وہاں زیادہ شدید ردعمل نہیں ہے کیونکہ ان ریاستوں کے پاس اب بھی اس کیلئے وقت ہے۔ لیکن بہار میں آئندہ تین چار ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ انتخابات ووٹر لسٹ کی بنیاد پر کرائے جائیں گے جو ووٹر لسٹوں کا خصوصی گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد تیار کی جائے گی۔ 
۲۴؍ جون کو جاری ہونے والے حکم نامے کے مطابق یہ کام ۲۵؍ جون سے شروع ہو گا اور۳۰؍ ستمبر تک کام مکمل کر کے نئی ووٹر لسٹ تیار کر لی جائے گی۔ یعنی الیکشن کمیشن نے اپنی جانب سے کام شروع کر دیا ہے اور تقریباً ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سرکاری ملازمین گھر گھر جا کر ڈیٹا اکٹھا کریں گے اور۲۵؍ جولائی تک اپنا کام مکمل کر لیں گے۔ بہار میں تقریباً ۸؍ کروڑ رائے دہندگان ہیں۔ موٹے طور پر ان ووٹرز کو ۳؍ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک وہ لوگ جن کی عمر۳۸؍ سال سے زیادہ ہے یعنی وہ لوگ جو۱۹۸۷ء سے قبل پیدا ہوئے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو۱۹۸۷ء سے۲۰۰۳ء کے درمیان پیدا ہوئے ہیں، یعنی وہ لوگ جن کی عمریں ۲۲۔ ۲۰؍ سال سے۳۷؍ سال کے درمیان ہیں۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو ۲۰۰۴ء کے بعد پیدا ہوئے ہیں اور جن کی عمریں ۱۸؍ سے۲۱؍ سال کے درمیان ہیں۔ خیال رہے کہ ہندوستان میں ۱۸؍ سال سے زیادہ عمر کے ہر فرد کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ جن کی عمر۳۸؍ سال سے زیادہ ہے ان کیلئے اس اعلان میں کم پریشانی ہے۔ انتخابی فہرست میں اپنا نام درج کرانے کیلئے انہیں ایک سادہ سا فارم بھرنا ہوگا، اپنی تصویر چسپاں کرنا ہوگی اور اسے سرکاری ملازم کے حوالے کردینا ہوگا۔ جو لوگ ۱۹۸۷ء سے۲۰۰۳ء کے درمیان پیدا ہوئے ہیں انہیں اپنا پیدائشی سرٹیفکیٹ اور اپنے والدین میں سے کسی ایک کا رہائشی سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوگا لیکن جو لوگ۲۰۰۳ء کے بعد پیدا ہوئے ہیں ، انہیں زیادہ مسئلہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکمنامے کے مطابق انہیں اپنے پیدائشی اور رہائشی سرٹیفکیٹ کے ساتھ ہی اپنے والدین کے سرٹیفکیٹ بھی جمع کرانا ہوں گے۔ 
اگر سرسری طور پر دیکھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ سننے میں اچھا بھی لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ووٹر لسٹ میں غلطیوں کی شکایات ہمارے یہاں مسلسل آتی رہی ہیں۔ اب اگر الیکشن کمیشن خصوصی مہم چلا کر اسے درست کرنا چاہتا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ سب اچھا ہی کہیں گے، لیکن جیسے ہی ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں اور غوروفکر کرتے ہیں تو اس کی سنگینی اور اس کےمسائل واضح طور پر نظر آنے لگتے ہیں۔ بہار کے تقریباً ۸؍ کروڑ ووٹروں میں سے سوا تین سے ساڑھے ۳؍ کروڑ ووٹروں کی عمر۳۸؍ سال سے زیادہ ہے۔ ان کیلئے شرط یہ ہے کہ ان میں سے جس کا بھی۲۰۰۳ء کی ووٹر لسٹ میں نام ہے، انہیں صرف ایک فارم پُر کرنا ہوگا اور اس پر اپنی تصویر چسپاں کرکے ’بی ایل او‘ کو دےدینا ہوگا، لیکن اگر اس کا نام ۲۰۰۳ء کی فہرست میں نہیں ہے یا اس کا نام ووٹر لسٹ میں تو ہے لیکن غلط اور نامکمل ہے تو اس آدمی کو اپنا پیدائشی سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا۔ فرض کریں کہ سوا تین کروڑ ووٹروں میں سے تین کروڑ کا نام ووٹر لسٹ میں ہے اور تقریباً ۲۵؍ لاکھ کا نام شامل نہیں ہے تو ان۲۵؍ لاکھ کو اپنا پیدائشی سرٹیفکیٹ دینا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ وہ برتھ سرٹیفکیٹ کہاں سے دیں گے؟ بنوایا ہوگا تو دیں گے نا؟ یہاں تو بہت ہی کم لوگ برتھ سرٹیفکیٹ بنوا تے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بہار میں صرف ۲ء۸؍ فیصدافراد کے پاس ہی برتھ سرٹیفکیٹ ہے۔ پھر باقی لوگوں کا کیا ہوگا؟ ایک ماہ میں کتنے لوگ برتھ سرٹیفکیٹ بنوا سکیں گے؟
الیکشن کمیشن کے ذریعہ بنائے گئے دوسرے زمرے میں ۱۹۸۷ء کے بعد اور۲۰۰۳ء سے پہلے پیدا ہونے والے لوگ شامل ہیں۔ انہیں اپنے پیدائشی سرٹیفکیٹ کے ساتھ ہی اپنے والدین میں سے کسی ایک کا برتھ سرٹیفکیٹ دینا ہوگا۔ آپ نے بہار میں برتھ سرٹیفکیٹ کے اعداد وشمار دیکھ لئے ہیں، کہ صرف ۲ء۸؍ فیصد لوگوں کے پاس ہی ہے۔ پیدائش کے سرٹیفکیٹ کیلئے دوسرا متبادل ہائی اسکول کا سرٹیفکیٹ ہے۔ بہار میں صرف ۱۳۔ ۱۲؍ فیصد لوگوں کے پاس ہی ہائی اسکول کا سرٹیفکیٹ ہے۔ تیسرا متبادل ذات کا سرٹیفکیٹ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بہار میں یہ سرٹیفکیٹ بھی صرف۲۵۔ ۲۰؍ فیصد لوگوں کے پاس ہے۔ باقی درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ ذات کے لوگوں میں سے صرف سرکاری فوائد حاصل کرنے والے اپنے ذات کے سرٹیفکیٹ بنواتے ہیں، جو کہ بمشکل ۲۰؍ سے ۳۰؍ فیصد ہوں گے۔ بہار میں اس زمرے میں سب سے زیادہ ووٹروں کی تعداد تقریباً ۴؍ سے ساڑھے ۴؍ کروڑ ہے۔ یہ تمام لوگ نئی ووٹر لسٹ کے جائزے میں متاثر ہونے والے ہیں۔ اگر ہم ۲ء۸؍ فیصد ایسے لوگوں کو شامل کریں جو پیدائشی سرٹیفکیٹ بنواتے ہیں، ۱۳۔ ۱۲؍ فیصد وہ لوگ جنہوں نے ہائی اسکول سرٹیفکیٹ جمع کروائے اور ۲۵؍ سے۳۰؍ فیصد ایسے لوگ جو ذات کا سرٹیفکیٹ بنواتے ہیں۔ ان تمام کو ملا لیں تب بھی یہ تعداد۵۰؍ فیصد تک نہیں پہنچتی۔ اس طرح اس گروپ میں آنے والے دو سے ڈھائی کروڑ لوگ بھی ووٹر لسٹ میں نام ڈالنے سے محروم رہ جائیں گے۔ جن لوگوں کی عمریں ۱۸؍ سے۲۱؍ سال کے درمیان ہیں ان کو اس سے بھی بڑا مسئلہ درپیش ہے۔ انہیں اپنے پیدائشی سرٹیفکیٹ کے ساتھ ہی اپنی ماں اور باپ دونوں کے سرٹیفکیٹ بھی جمع کرانا ہوں گے۔ اگر اس طرح دیکھیں تو ۸؍ کروڑ ووٹروں میں سے تقریباً ۵؍ کروڑ ووٹروں کے باہر رہ جانے کا خطرہ ہے۔ 
اس میں خاص بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے شہریت کی شناخت کیلئے تین اہم ترین دستاویزات میں سے کسی کو بھی قبول نہیں کیا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے پاس آدھار کارڈ ہے۔ بہار میں ۸۸؍ فیصد لوگوں کے پاس آدھار کارڈ ہے۔ اگر الیکشن کمیشن چاہتا تو آدھار کارڈ کو تاریخ پیدائش اور رہائش کے دستاویز کے طور پر تسلیم کر سکتا تھا۔ اس طرح۸۸؍ فیصد لوگوں کو ایک ہی بار میں ووٹ کا حق مل سکتا تھا۔ باقی رہ جانے والےآدھار کارڈ بنوا سکتے تھے۔ دوسری سب سے زیادہ قابل رسائی دستاویز الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ ووٹر شناختی کارڈ ہے۔ یہ بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے اسے بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ تیسرا دستاویز جو تھوڑا مشکل ہے لیکن پھر بھی مل سکتا ہے یعنی راشن کارڈ، لیکن کمیشن کو اس پر بھی بھروسہ نہیں ہے۔ 
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر اپوزیشن لیڈروں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ الیکشن کمیشن غریبوں، مزدوروں اور محروم طبقات سے ووٹ کا حق چھیننا چاہتا ہے، اسلئے اس نے یہ حکم جاری کیا ہے۔ بہار میں آئندہ چار ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ یہ عمل ایک ماہ میں مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس سے پہلے بہار حکومت نے ذات پات کی مردم شماری کرائی تھی۔ اس میں کسی بھی شہری کو کوئی دستاویز جمع نہیں کرانی تھی، تو بھی۵؍ ماہ لگ گئےتھے۔ یہاں شہریوں کو دستاویزات جمع کروانے، فارم بھرنے اور تصویریں چسپاں کرنے ہیں، پھر یہ کام ایک ماہ میں کیسے ہو سکتا ہے۔ اس کے اوپر، یہ برسات کا موسم ہے. بہار کا۷۳؍ فیصد حصہ سیلاب یا پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایسے میں کیا لوگ اپنی جان بچائیں گے یا الیکشن کمیشن کو دستاویزات دیں گے؟
خیال رہے کہ پہلے ملک میں بہت کم لوگوں کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔ برطانوی دور حکومت میں ہندوستانیوں کو حق رائے دہی کیلئے ایک طویل جنگ لڑنی پڑی تھی۔ ۱۹۱۹ء میں چیمس فورڈ ریفارمز کے ذریعے ووٹ دینےکے حق کا دائرہ بڑھایا گیا۔ ۱۹۳۵ء میں اسے مزید وسعت دی گئی۔ اس وقت بھی بہت کم ہندوستانی ووٹ دینے کا حق حاصل کر پائے تھے۔ اس میں صرف ایک خاص طبقہ شامل تھا۔ صرف وہی لوگ ووٹ ڈال سکتے تھے جو ٹیکس ادا کرتے تھےاور شہروں میں رہتے تھے یا پڑھے لکھے تھے۔ آزادی کے بعد۲۱؍ سال سے زیادہ عمر کے تمام لوگوں کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ خواہ ان کی ذات، مذہب یا جنس سے ہو۔ بعد ازاں ووٹ ڈالنے کی عمر۲۱؍ سے کم کر کے۱۸؍ سال کر دی گئی لیکن اب ایسالگتا ہے کہ حکومت کے زیر اثر کام کرنےوالے الیکشن کمیشن نے پچھلے دروازے سے لوگوں کے ووٹ دینے کا حق چھیننے کی مہم شروع کر دی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK