Inquilab Logo

فروری میں ٹھنڈ کا زور کم ہوگیا ہے، گاؤں کی رونق ایک بار پھر لوٹ آئی ہے

Updated: February 11, 2024, 3:08 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

 پوروانچل میں اب تک ٹھنڈ کاراج رہا، زندگی ٹھہری ہوئی تھی لیکن فروری کے پہلے عشرے ہی میں ’شیت لہر‘ تھم گئی۔ درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، سورج کی تپش کا احساس ہو رہا ہے، دوپہر کےوقت کوئی بھی گرم لباس میں نظر نہیں آرہا ہے۔

There is no answer to fresh coriander and spinach from your farm to make bhajiya in Ramadan. Photo: INN
رمضان میں بھجیا بنانے کیلئے اپنے کھیت کے تازہ تازہ دھنیا اور پالک کا کوئی جواب نہیں ہوتا ہے۔ تصویر : آئی این این

 پوروانچل میں اب تک ٹھنڈ کاراج رہا، زندگی ٹھہری ہوئی تھی لیکن فروری کے پہلے عشرے ہی میں ’شیت لہر‘ تھم گئی۔ درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، سورج کی تپش کا احساس ہو رہا ہے، دوپہر کےوقت کوئی بھی گرم لباس میں نظر نہیں آرہا ہے۔ صبح کے وقت بھی شال اوڑھنے والے کم کم ہی نظر آرہے ہیں۔ کھیتی باڑی کرنے والے اب دھوپ نکلنے کا انتظار نہیں کرتے، مطلع ابر آلود ہونے پر بھی اپنے کھیتوں کا رخ کرتے ہیں اور جی جان سے لگ جاتے ہیں، کیونکہ انہیں رمضان کی بھجیا کیلئے پالک اُگانی ہے، اس مہینے میں ہری دھنیا کا استعمال بڑھ جاتا ہے، اس کیلئے زمین ہموار کی جارہی ہے۔ رمضان میں اپنے کھیت کے تازہ تازہ دھنیا اور پالک کا کوئی جواب نہیں ہوتا ہے۔ اب یہ الگ قصہ ہے کہ اس موسم میں روزہ رکھ کر کم ہی لوگ کھیت جاتے ہیں۔ جو ذمہ دار ہوتا ہے، وہ کبھی ٹال مٹول سے کام نہیں لیتالیکن جس گھر میں یہ کام نوجوانوں کے ذمہ ہوتا ہے، اس گھر میں سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتےہیں اور ہرکوئی چاہتا ہے کہ اس کی رمضان کی نیند میں خلل نہ پڑے مگر خاتون خانہ کہاں کسی کو چین لینے دیتی ہیں۔ وقت ہوتے ہی باربار تقاضے کرتی ہیں اور کسی نہ کسی کو کھیت بھیج کر ہی دم لیتی ہیں۔  
 گزشتہ دنوں اپنے بچپن کےایک شناساسے فون پر بات چیت ہوئی۔ وہ کئی سال سے ممبئی میں سپاری کا کاروبار کررہے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ دکان پر رہتے ہیں تو پوری لگن سے تجارت کرتے ہیں، چھوٹے بڑے گاہک میں امتیاز نہیں کرتے ہیں، کسی کو بھی نظر انداز نہیں کرتے ہیں، انہیں کچھ لوگ پورا ’بنیا ‘بھی کہہ دیتےہیں لیکن گاؤں پہنچتے ہی وہ کاروبار واروبار بھو ل جاتےہیں۔ گاؤں والے بن جاتے ہیں۔ دیہاتی تہذیب وثقافت میں رچ بس جاتے ہیں، پوری لگن سے کھیتی باڑی کرتے ہیں، مویشیوں کی خدمت کرتے ہیں، انہیں چارا پانی دیتے ہیں۔ اتفاق سے ان کا گھر گاؤں کے باہر کھیتوں میں بنا ہوا ہے، نتیجتاً انہیں کھیت میں جانے کیلئے ایک قدم بھی چلنا نہیں پڑتا، جب چاہتے ہیں کدال، پھاوڑایا کھرپی اٹھاتے ہیں، کھیت میں اتر جاتے ہیں، اس کی زمین ہموار کرتےہیں، اس کھود کھو د کر قابل کاشت بناتےہیں۔ جب وہ کھیت میں نہیں ہوتے، اس وقت بھی وہ شادابی میں گھرے رہتےہیں۔ ان کے آس پاس ہروقت ہریالی رہتی ہے، تین طرف آم کے باغ ہیں، بیل اور پپیتے کے درخت ہیں۔ جامن، کھجور، املی اور نیم کے درخت بھی لہلہا تے ہیں۔ یہاں کے درختوں اور پودوں سے ان کی گہری دوستی ہوگئی ہے، وہ ممبئی سے گاؤں جانے کے بعد محفلوں سے دور دور رہتے ہیں، اپنے بچپن کے دوستوں سے بھی سلام کلام تک ہی تعلق رکھتے ہیں، ہمیشہ کام سے کام رکھتے ہیں۔ اس کالم نگار نے ان سےموسم کا حال جانااور ان کی سرگرمی کے بارے میں پوچھا۔ وہ ممبئی کی زبان میں کہنے لگے، ’’حمزہ تم کو معلوم ہے، میں ٹائم کھوٹانہیں کرتا۔ ‘‘ پھر اس کی وضاحت کی، ’’ دیکھو تمہار افون آیا تو میں کھیت ہی میں تھا، ابھی دیکھو ننگے پاؤں ہوں، بنیان لنگی پہن کر کام کررہا ہوں، ذرا بھی سردی نہیں لگ رہی ہے۔ پالک اور دھنیا کی بوائی کررہا ہوں، ہمارے کھیت میں ایک بھی گھاس نہیں پاؤ گے، بہترین کھیت بنادیا ہے، کدال سے اچھی طرح گڑائی کی ہے۔ رمضان کی تیاری کررہا ہوں، تازہ سبزی ہوگی، بھجیا بنانے کے کام آئےگی، خود بھی استعمال کروں گا، دوسرے لوگ بھی لے جائیں گے، تم بھی لے جاسکتے ہو، محنت’ تر‘ جائے گی، یعنی وصول ہوجائے گی۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: مویشیوں سے والہانہ لگاؤ، سانپ مارنے کا ہنر اور اپنا حصہ مانگنے والا بکرا

وہ رمضان کیلئے سبزیوں کا انتظام کر رہے ہیں، دوسری طرف بچے پتنگ اڑ ارہےہیں، چھت پرگھنٹوں پڑے رہتے ہیں۔ گاؤں کے ایک بچے کی سردیوں کی چھٹی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اس کالم نگار نے اس سے پوچھا، ’’ کیا کررہےہو؟‘‘ اس نے بتایا، ’’ آج کل پتنگ اڑ اوے میں بہت مجا آوت ہے، لہکائے دے تھوں، بھائیوں اڑاوے تھے۔ ‘‘( آ ج پتنگ اڑانے میں بہت مزہ آرہا ہے، لہکا دیتا ہوں، بھائی بھی اڑاتا ہے۔ ) یہ بچہ ۱۱-۱۲؍ سال کا ہوگا۔ اس کا بھائی اس سے ایک سال کا بڑا ہے۔ دونوں دن بھر چھت پرپتنگ اڑاتے ہیں۔ دونوں باری باری ڈھنکی مارتے ہیں یعنی انگلی سے مانجھا کھینچتے ہیں، ا س طرح پتنگ کوگرنے سے بچاتے ہیں، کم ہوا میں بھی ڈھنکی کی مد د سے پتنگ کو گرنے سے بچایا جاتا ہے، دونوں بھائی مانجھا دو ہتے ہیں، یعنی اس کی ڈور دونوں ہاتھوں سے جلدی جلدی کھینچتے ہیں، دوہنے میں مہارت ضروری ہے، خاص طور پر پتنگ کٹنے کے بعد جلد ی جلدی ڈور کو سمیٹا جاتا ہے۔ اس طرح کوئی ڈور چوری نہیں کرپاتا ہے۔ دونوں بھائی ڈھیل بھی دیتے ہیں، یعنی پریتی ( چرخی) دونوں ہاتھ سے سنبھالتے ہیں، پتنگ جتنا زیادہ تاؤ میں ہوتا ہے، ڈھیل اتنی ہی تیز ہوجاتی ہے، ڈھیل میں کوئی محنت نہیں لگتی، وہ چھوڑیا بھی دیتے ہیں، یعنی کوئی ایک پتنگ لہکانے کیلئے دونوں ہاتھوں کے اشارہ سے پتنگ اوپر کرتا ہے اورایک ٹھنکی مارتا ہے۔ اس طرح سردی کم ہوئی تو سب کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK