عزیز طلبہ! نئے تعلیمی سال کی ابتدا ہوچکی ہے۔پڑھنے اور آگے بڑھنے کا سلسلہ خود اعتمادی کے ساتھ جاری رہنا چاہئے۔اس کیلئے آپ کے درس، نصاب اور امتحان وغیرہ کے نظام سے آپ رو شناس ہوجائیں اسلئے ہم اس سے وابستہ عوامل پر گفتگو کریں گے:
اگر ہم کسی بات کو مناسب طور پر سمجھنے کے بعد ذہن نشین کرتے ہیں، تبھی وہ ہماری ’یادداشت‘ کا حصہ بن پاتی ہے۔ تصویر:آئی این این
عزیز طلبہ! نئے تعلیمی سال کی ابتدا ہوچکی ہے۔پڑھنے اور آگے بڑھنے کا سلسلہ خود اعتمادی کے ساتھ جاری رہنا چاہئے۔اس کیلئے آپ کے درس، نصاب اور امتحان وغیرہ کے نظام سے آپ رو شناس ہوجائیں اسلئے ہم اس سے وابستہ عوامل پر گفتگو کریں گے:
بچّےکی ذہنی نشوونما میں جن تین اہم عنصر کا کلیدی کردار ہوتا ہے وہ ہیں: ابلاغ (یا پیغام پہنچانے کا عمل) تجزیہ اور حافظہ یا یادداشت گویا یہ تینوں مل کرعلم کی ترسیل کا ایک مثلّث بنتے ہیں۔ ابلاغ یا کمیونی کیشن سے بچّہ اُس وقت آشنا ہوتا ہے جب وہ بات کرنا بھی نہیں جانتا۔ جملے در کنار الفاظ سے بھی وہ واقف نہیں ہوتا، اُس وقت بھی وہ اپنا پیغام پہنچا تا ہے۔ آگے چل کر وہ اپنی بات کو مؤثر طریقے سے بیان کرے، اس کیلئے کوشش اوّل تو گھر میں ہوتی ہے اور پھر درس گاہ میں۔ ٹیکنالوجی کے اس دَور میں زباندانی کی اہمیت نہ سمجھنے والے دراصل بڑی نادانی کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ بچّے کی ذہنی نشوو نما میں زباندانی کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
اس علمی مثلّث کا دوسرا پہلو ’تجزیہ‘ ہے۔ ہم چاہے اپنی روز مرّہ زندگی میں کوئی چھوٹاموٹا فیصلہ کریں یاپھر اجتماعی اہمیت اور وسیع تر مفادکا حامل کوئی نتیجہ اخذ کریں، ہر صورت میں ’تجزیہ‘ ہماری اشد ضرورت ہوتا ہے۔ اس کا تعلق بھی دماغ ہی سے ہے۔ آخر سوچ بچار اور تفکّر و تدبّر کا سارا عمل بھی تو ہمارے دماغ ہی میں انجام پاتا ہے، یعنی ابتدائی عمر ہی سے تجزئیے کی صلاحیت پروان چڑھانا، ابلاغ جتنا ہی اہم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ تجزئیے کی استعداد کیونکر بہتر بنائی جائے اور اسے پختگی تک کیسے لے جایا جائے۔ اس مقصد کیلئے ریاضی ہمارے پاس ایک مفید ترین اوزار ہے۔ ابتداء میں یہ صرف حساب تک محدود ہوتی ہے جس میں بچّوں کو اعداد سے متعارف کروانے کے علاوہ جمع،نفی، ضرب اور تقسیم جیسے بنیادی حسابی عوامل کی مشق بھی کروائی جاتی ہے۔ بغور دیکھا جائے تو تجزیئے کا عمل (اپنی بنیادی صورت میں ) یہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارا دماغ پہلے مختلف اعداد کو پہنچاننے اور ان کے درمیان فرق کرنے کے قابل ہوتا ہے؟ اور پھر مذکور ہ حسابی عوامل کی مشق کرتے دوران، تجزئیے کی اسی صلاحیت کو مزید وسعت دیتا جاتا ہے۔ جیسے جیسے حصولِ تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے، ویسے ویسے تجزیئے کایہ عمل بھی اپنی مختلف صورتوں میں مختلف مضامین کے تحت، بار بار ہمارے سامنے آتا ہے۔ تاہم، جب تک ریاضی کو صرف اعداد کے گورکھ دھندے کے طور پر ہی پڑھایا جاتا رہے گاتب تک طلبہ میں بھی تجزئیے کی صلاحیت درست سمت میں پروان نہیں چڑھ پائے گی اور اس مقصدکیلئے ہمیں بہت زیادہ انقلابی اقدامات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب سے پہلے تو دسویں جماعت تک طلبہ کیلئے اسمارٹ فون کا استعمال بالکل ممنوع قراردے دیا جائے یعنی طلبہ کو پابند بنایا جائے کہ وہ ریاضی یا کسی بھی دوسرے مضمون میںحسابی عمل انجام دینے کیلئے اپنے دماغ ہی کا استعمال کریں گے۔اسمارٹ فون کے محتاج نہیں بنیں گے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ریاضی اور حساب کی تدریس میں روز مرّہ کی مثالیں استعمال کی جائیں تاکہ طلبہ کو احساس ہو کہ جو کچھ بھی وہ پڑ ھ رہے ہیں، وہ عملی زندگی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہماری درسی کتاب میں آج بھی یہی سب کچھ ہے لیکن معذرت کے ساتھ، ہم زید اور بکر والی مثالوںسے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔حساب میں نسبت /تناسب کے نام پر زیادہ تر کے اور وراثت پر مبنی مثالو ں ہی پر طبع آزمائی کی جاتی ہے۔ دنیا میں اور بھی بہت سے معاملات ہیں جہاں ہمیں حساب/ریاضی کی شدید ضرورت پڑتی ہے۔ کیا زندگی کے ان پہلوئوں سے مثالیں لی جاسکتی ہیں؟ اے آئی کے زمانے میںتوکئی مثالیں تخلیق کی جاسکتی ہیں۔ مختلف النواع،مقامی اور روز مرّہ مثالوں سے جہاں طالب علموں میں ریاضی پر گرفت مضبوط ہوگی،وہیں وہ مختلف معاملات میں ریاضی کا اطلاق کرنا بھی سیکھیں گے۔
اب آتے ہیں علمی مثلّث کے تیسرے پہلو، یعنی یادداشت (میموری ) کی طرف۔ عام طورپر ہم ’اچھی یاد داشت‘ اور’رٹنے ‘ میں فرق نہیں کر پاتے۔ کمپیوٹر اور اب اسمارٹ فون کی بڑھتی ہوئی یادداشت نے ویسے ہی انسانی یادداشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ اس پر ہمارے ماہرین تعلیم جدید انداز تدریس کے نام پر، یادداشت بہتر بنانے کی حوصلہ شکنی ہی کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے رٹا فکیشن سمجھتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رکھئے کہ اگر کوئی بھی چیز بغیر سمجھے یاد کر لی جائے تو وہ ’رٹنے‘ میں آتی ہے۔ اس کے بر عکس، اگر ہم کسی بات کو مناسب طور پر سمجھنے کے بعد ذہن نشین کرتے ہیں، تب ہی وہ صحیح معنوں میں ہماری ’یادداشت‘ کا حصہ بن پاتی ہے۔
یادداشت ایک بیش بہا نعمت ہے جسے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔ یادداشت کے بغیر انسان کے تمام تجربات بیکار ہیں، یاد داشت نہ علمی اعتبار سیکھنے کے عمل کو تین حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: اوّل: پہچان یا ادراک، دوم: اندراج یا نوٹ کرنا ، سوم: یادکرنا یا بازآفرینی۔ کسی گزری ہوئی بات کو ذہن میں دُہرانے کے عمل ہی کو یادداشت کہا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص میں پہچان یا اندراج کے ذہنی عمل میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو یہ بطور مجموعی یادداشت کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ذہن میں یادوں کا خزانہ کس طرح پیدا ہوتا ہے، اور کیونکر اکٹھا ہوتا ہے؟ یہ بھی ایک پیچیدہ عمل ہے جسے سمجھنے کیلئے مختلف نظریات وضع کئے گئے۔ ان تمام نظریات میں قدر مشترک یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں باریک اعصابی ریشوں اور خلیات سے بنے ہوئے لا تعداد سرکٹس ہیں۔ ہرنئی یاد ایک نئے سرکٹ کو’ متحرک‘ یا سرگرم کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ، ایک اعصابی سرکٹ جتنی بار سرگرم ہوگا، اسے دوبارہ متحرک کرتے رہنا اتنا ہی آسان ہوگا۔ مثلاً اگر ایک چیز کو بار بار پڑھا، یا لکھا جائے تو اس کا مخصوص اعصابی سرکٹ متعدد بار استعمال ہوگا جس کے سبب اس سرکٹ کے قائم ہونے میں اتنی روانی پیدا ہو جائے گی کہ اسے کسی بھی لمحے سے سر گرم کرنا انتہائی آسان ہوگا۔
اب آئیے اس کا جائزہ لیںکہ ہماری یادداشت یا حافظہ کمزور کیسے ہوتا ہے، اُس کی علامتیں اور مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
(۱) کہاوت ہے کہ کوئی خط پوسٹ کرنے کیلئے ارسطو پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ یعنی بڑے لوگ اپنی سوچ کی سطح سے نیچے کے کام کرنے کیلئے موزوں نہیں ہیں۔
(۲) کئی طلبہ گھر میں، اسکول میں بھی پورے پورے اسباق یاد رکھتے ہیں، امتحان گاہ کسی ناموس علاقے میں ہے، سب بھول جاتے ہیں یعنی محض جگہ بدلنے پر اُن کا حافظہ متاثرہوتاہے۔
(۳) اکثر بڑے بزرگ اپنے پوتے پوتیوں کے نام بھول جاتے ہیں اور پھر اُنھیں چھوٹا، منجھلا، بڑا، مستی خور اور چُلبُلا وغیرہ ناموں سے مخاطب کرتے ہیں۔
(۴)اپنی چیزیں رکھ کر بھول جانے والوںسے ہمارے گھر بھرے رہتے ہیں ،کچھ اس حد تک کہ کئی اپنا آدھا وقت چیزوںکو ڈھونڈنے میں ضائع کرتے رہتے ہیں۔
(۵)اکثر افراد جو دِن میں بار بار تاریخ لکھتے ہیں لیکن پھر بھی ہر بار آس پاس کے لوگوں سے پوچھتے رہتے ہیں ’’آج کیا تاریخ ہے؟‘‘
(۶) ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو بات کرتے وقت مخاطب سے پوچھتے ہیں’’میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘
(۷)(صرف سیاستداں نہیں) بلکہ اکثرافراد کئے گئے وعدے بھول جاتے ہیں بلکہ یہ بھی کہا جانے لگا کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔
نوجوانو! ابھی تک البتہ ہم نے یہ تحقیق نہیں کی ہے کہ لوگ اپنے محسنوںکو کیسے بھول جاتے ہیں؟ دانستہ بھول جاتے ہیں یا نادانستہ ؟ فورجی، فائیوجی جنریشن اس پر ریسرچ ضرور کر لے کہ اپنے محسن کو بھولنے کے پیچھے کیا نفسیات کارفرما ہیں؟