ملائی برف کے اقسام کی بات کریں تو پہلے نمبر پر شکر اور پانی کو جمع کر کے زرد رنگ کا برف کا ٹکڑا تیار کیا جاتا تھا۔ دوسرے نمبر پر برف کو لمبی سی پلاسٹک میں بھر کر فروخت کیا جاتا تھا جو مہنگی ہوتی تھی،
EPAPER
Updated: May 18, 2025, 1:57 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
ملائی برف کے اقسام کی بات کریں تو پہلے نمبر پر شکر اور پانی کو جمع کر کے زرد رنگ کا برف کا ٹکڑا تیار کیا جاتا تھا۔ دوسرے نمبر پر برف کو لمبی سی پلاسٹک میں بھر کر فروخت کیا جاتا تھا جو مہنگی ہوتی تھی،
مئی کا مہینہ ہے، دوپہر کو گرمی ایسی ہے کہ جیسے آگ برس رہی ہو۔ لوگ گھروں کے اندر دُبکے ہیں یا درختوں کے سائے میں بیٹھے ہیں۔ گائوں میں یہ فرصت کے دن ہیں۔ اس وقت کسان کو دھان کی نرسری کیلئے اچھے بیج کی تلاش ہے، جہاں چار کسان جمع ہو جاتےہیں ان کا موضوع گفتگو یہی ہوتا ہے کہ بیج کہاں سے لایا جائے جس کی قیمت بھی مناسب ہو اور پیداوار بھی اچھی ہو۔
یہ تو رہی کسانوں اور بزرگوں کی محفل اب ذرا گائوں کے بچوں اور نوجوانوں کی محفل کا رُخ کرتے ہیں۔ دوپہر کا وقت ہے گائوں کے بچے ایک جگہ جمع ہیں ۔ وہ آئس کریم بیچنے والے کی بھونپو کی آواز کی طرف اپنا کان لگائے ہیں کہ ’پوں پوں ‘کی آواز آئے اور وہ آئس کریم بیچنے والے کی طرف دوڑ لگا دیں ۔ اب تو گائوں میں بھی آئس کریم ملنے لگی ہے، پہلے ملائی برف کھائی جاتی تھی۔ ۹۰ء کے عشرے میں ۱۰ ؍ سے ۲۰؍ پیسے اور ۲۵؍ پیسے میں یہ ملائی برف مل جایا کرتی تھی، کہنے کو یہ ملائی برف تھی لیکن حقیقت میں یہ صرف برف ہی تھی، یہ شکر اور رنگ کے گھول سے تیار کی جاتی تھی۔ اُس وقت دس بیس پیسے بھی گھر سے ملنا مشکل ہوتا تھا۔ چنانچہ آم، گیہوں اور مکئی دے کر اِ سے خریدا جاتا تھا۔ مٹھی میں چند سکے لئے بچے دور تک ملائی برف بیچنے والے کا پیچھا کرتے تھے۔
ملائی برف کے اقسام کی بات کریں تو پہلے نمبر پر شکر اور پانی کو جمع کر کے زرد رنگ کا برف کا ٹکڑا تیار کیا جاتا تھا۔ دوسرے نمبر پر برف کو لمبی سی پلاسٹک میں بھر کر فروخت کیا جاتا تھا جو مہنگی ہوتی تھی، اسے گائوں کے بچے ’پیپسی‘ بھی کہتے تھے۔ تیسرے نمبر پر دودھ ملائی والی برف آتی تھی جسے خریدنے کیلئے بچوں کو سوچنا پڑتا تھاکیونکہ اُس وقت کہاں اتنے پیسےملتے تھے۔ چنانچہ اکثر بچے اُس کیلئے گھروں سے اناج لاتے اور اُس کے عوض میں دودھ والی ملائی برف خریدتے تھے۔ حالانکہ وہ بھی اصلی دودھ نہیں ہوتا تھا لیکن نام اُس کا دودھ والی ملائی ہی تھا۔ گیہوں کٹنے کے بعد جب اناج گھر آتا تھا تو اُس میں پتلے اور چھوٹے قسم کے ٹکڑوں کو الگ کر کے رکھ دیا جاتاتھا، یہی اناج بچوں کے ملائی برف کھانے کے کام آتا تھا۔ عام طور پر ہر گھر میں اِس طرح کے گیہوں کی ایک دو بوری الگ کرکے رکھ دی جاتی تھی۔ پھر کیا تھا بچوں کی تو لاٹری نکل آتی تھی۔ ـبھونپوکی آواز سنتے ہی جھولے میں گیہوں لے کر بھاگتے تھے اور جتنے کا گیہوں نکلتا تھا، اُسی بجٹ میں پانی یا دودھ والی برف خریدلیتے تھے۔
تپتی دوپہر میں ملائی برف کے انتظام کیلئے بچوں کا ایک گروپ کھیتوں میں جاتا تھا اور کھیت میں کٹائی کے بعد گیہوں کی بالیوں کے باقیات جو کھیتوں میں بکھرے پڑے رہتے تھے، اسے اکٹھا کرکے بورے میں بھر کر گھر لاتا تھا پھر اس کو مونگری (لکڑی کا ہتھوڑا )سے پیٹ پیٹا جاتا تھا۔ بعد ازاں صفائی کرکے گیہوں کو الگ کرلیا جاتا تھا۔ پھر جب دوپہر کو ملائی برف والے کی آواز آتی تو یہ بچے سر پٹ دوڑ لگادیتے تھے اور ’اپنے گیہوں ‘ سے برف خریدتے تھے۔ یہ گیہوں ان کی ملکیت ہوتی تھی، اسلئے ’اپنی کمائی‘ سے برف کھانے کا اپنا ایک الگ مزہ ہوتا تھا۔ اُس وقت بہت مشکل سے بچوں کو پیسے ملتے تھے۔ ہاں اگر دادا دادی سے ملنے والے دس بیس پیسے کوجمع کر تے کرتے جب وہ دو تین روپے ہو جاتے تو اپنے دوستوں کے ساتھ ملائی برف والے کی تلاش میں نکل جاتے تھے۔ اُس روز دودھ والی ملائی سے کم پر بات نہیں کرتے تھے، ورنہ وہی بیس پیسے کی زرد رنگ والی برف ہی نصیب ہوتی تھی۔ کچھ بچے ایسے بھی تھے جو ملائی برف والے کی بھونپو کی آواز سنتے ہی دوپہر کے سنّاٹے میں چپکے سے گھر سے اناج لے کر نکلتےاور گائوں کے باہر باغ میں کسی پیڑ کے پاس چھپ کر آئس کریم خریدتے تھے تاکہ گھر والوں کو پتہ نہ چل سکے۔
ہمارے یہاں بازار میں ’راجہ آئس کریم فیکٹری‘ پر صبح تڑکے بڑی تعداد میں ملائی برف بیچنے والےپہنچ جاتے تھے۔ صبح سے لائن لگانےپر گھنٹوں بعد اُن کا نمبر آتا اور وہ سائیکل میں لگے باکس میں ملائی برف بھر کر مختلف گائوں میں فروخت کرنے کیلئے نکل پڑتے تھے۔ سب کا اپنا اپنا علاقہ تھا۔ بعض گائوں میں لوگ دور ہی سے اِ ن کو دوڑا لیتے تھے، اپنے گھر کے پاس سے گزرنے نہیں دیتے تھے، وہ کہتے تھے کہ بچے اِسے کھاکر بیمار پڑجائیں گے۔ ایسے گھروں کے بچے اپنے والدین کو بہت کوستے تھے۔ لاکھ نگرانی اور منع کرنے کے باوجود وہ موقع دیکھ کر دوسرے گائوں پہنچ کر ملائی برف خریدتے تھے۔
اب گائوں میں سائیکل سے آئس کریم بیچنے والے بہت کم نظر آتے ہیں ، چنانچہ بھونپو کی آواز بھی کم سنائی دیتی ہے۔ اب موٹر سائیکل اور الیکٹرک بائیک سے آئس کریم بیچی جارہی ہے اور خریدنے والے اپنے ساتھ اناج لے کر نہیں آتے بلکہ ان کے پاس نقدی کے ساتھ ہی آن لائن پیمنٹ کا متبادل بھی رہتاہے۔ اب گائوں کے بچے پہلے والی ملائی برف نہیں کھا تے ہیں بلکہ شہروں میں ملنے والی آئس کریم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔