Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں: پوکھری میں سنگھاڑے نہیں تھے،ایسا لگ رہاتھاکہ اس کا زیور نہیں ہے

Updated: November 26, 2023, 2:58 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

گزشتہ ہفتےآپ نے اس کالم میں گاؤں کی پوکھری کے بارے میں پڑھا تھا۔ کیا آپ نے محسوس کیا کہ دور دور تک پھیلی ہوئی پانی کی سطح پر کس چیز کی کمی تھی؟اس میں کیا ایسانہیں تھا؟ جس کے بغیر پوکھری سونی سونی سی تھی، خالی خالی تھی۔

The `bel` of ornaments spread in this way in the pond is called the ornament of the pond. Photo: INN
تالاب میں سنگھاڑوں کے اس طرح پھیلے ہوئے ’بیل‘ کوتالاب کا زیور کہا جاتا ہے۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ ہفتےآپ نے اس کالم میں گاؤں کی پوکھری کے بارے میں پڑھا تھا۔ کیا آپ نے محسوس کیا کہ دور دور تک پھیلی ہوئی پانی کی سطح پر کس چیز کی کمی تھی؟اس میں کیا ایسانہیں تھا؟ جس کے بغیر پوکھری سونی سونی سی تھی، خالی خالی تھی۔ آپ بہت پرانے نہیں ، تھوڑے نئے اور تھوڑے پرانے گاؤں والے ہوں گے تو اس موسم میں یقیناً آپ کی نگاہوں نے کچھ تلاش کیا ہوگا، کچھ ڈھونڈا ہوگا۔ دراصل اس موسم میں گاؤں کے کسی بھی تالاب کی سطح خالی نہیں رہتی تھی،پوکھری کے باہر چہل پہل رہتی تھی۔ خریدو فروخت ہوتی تھی۔ 
 بہت زیادہ نہیں گزرے، یہی کوئی آٹھ دس سال پہلے کا قصہ ہے۔ گاؤں دیہات کے تالابوں میں سنگھاڑے کے جھاڑ جھنکاڑ پھیلے ہوتے تھے ،سطح آب کا کوئی بھی حصہ خالی نہیں رہتا تھا۔ گزشتہ دنوں یہ کالم نگار اپنے گاؤں میں تھا۔ بچوں کی فوج کے ساتھ تھا، پوکھری کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا۔ یوں ہی بیٹھے بیٹھے کھو گیا۔ سطح آب پر نظر ٹھہری تو ٹھہری ہی رہی۔ بہت دیر تک ماضی میں کھو یا رہا ۔ یاد آیا کہ اسی پوکھری میں ہر سال سنگھاڑے ڈالے جاتے تھے۔ ابتداء میں بیج ڈال کر چھوڑ دیا جاتا تھا لیکن جب اس میں پھل آنے لگتے تو اس کی سخت نگرانی کی جاتی تھی۔ پوکھری کے باہرکیا چہل پہل رہتی تھی ؟ سنگھاڑا نکالنے والی کشتی دیسی جگاڑ سے بنی ہوتی تھی۔ خریدار سے زیادہ سنگھاڑا نکالنے اور تماشادیکھنے والے بچے روزانہ جمع ہوتے تھے۔ جیسے جیسے سنگھاڑا نکالنے والا اپنی کشتی سے آگے بڑھتا تھا ، بچوں کی خوشیاں بھی بڑھتی جاتی تھیں ،ان کےچہرے کھل اٹھتے تھے ، کچھ بچے خوشی سے تالی بجاتے تھے۔
 نومبر کےآخری عشرے میں ننگے بدن پانی میں اُترنا اور اس میں کچھ گھنٹے رہ کر سنگھاڑے نکالنا آسان نہیں ہوتا تھا۔خاص طور پر اس دن جب کہرے کی چادر تنی رہتی تھی، اس دن پوکھری سے بھاپ نکلتی تھی۔ اس موسم میں بھی سنگھاڑے والا لنگی یا دھوتی کی ’بھگئی‘ بناتا تھا یعنی اسے اوپر کی طرف خاص انداز سے لپیٹ لیتا تھا، پھر اپنی دیسی کشتی لے کر پوکھری میں کود جاتا تھا اورگھنٹوں بعد باہر آتا تھا۔ فوراً تو نہیں پند رہ بیس منٹ بعد تھر تھر کانپتا تھا۔ اس کے دانت بھی بجتے تھے لیکن دوسرے دن وہ پھر اسی انداز سے اپنی کشتی لے کر آگے بڑھتا تھا۔ تالاب سے نکالنے کے بعد پورا سنگھاڑا پوکھری پر نہیں بکتا تھا۔ اچھا خاصا رہ جاتا تھا ، اسے جال میں رکھا جاتا تھا، پھرسائیکل پر لاد دکر بیچنے نکل جاتا۔ گاؤں گاؤں گھومتا تھا، گلی گلی کی خاک چھانتا تھا۔’’لے لو سنگھاڑا .. تاجا مٹھا( تازہ میٹھا )سنگھاڑا ...‘‘ کی صدا لگاتاتھا۔ اس دور میں کوئی یہ نہیں پوچھتا تھا کہ سنگھاڑا کتنے روپے کلو ہے؟ ہر کوئی یہی کہتاتھا ،’’سنگھڑوا کیسے پیسری ہو؟‘‘( سنگھا ڑا کیسی پنسیری ہے؟) سودا ہونے کے بعد بالٹی میں بھگویا جاتا تھا ، اوپر نیچے کرنے کے بعد اسے مونی ( بانس کی ٹوکری ) میں رکھا جاتا تھا۔اوپر سے پانی ڈالا جاتا تھا۔ اس عمل سے سنگھاڑا دھل جاتاتھا، پھر اچھا خاصا ’کچا چبایا‘ جاتاتھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچ کچ کی آواز کے ساتھ کچرے کا ڈھیر لگ جاتاتھا ۔ دراصل سنگھاڑا چھیلنا بھی ایک ’کلا ‘ہے ۔ اس میں مہارت سے کام نہیں لیا گیا تو مغزضائع ہو جائے گا ، صرف چھلکے ہاتھ آئیں گے ۔ اسی طرح اس کے کانٹوں سے بچنا ہوتا ہے۔اس کے داغ سے کپڑا بھی بچانا ہوتا ہے۔ اسی لئے کچا سنگھاڑا کھانے کی محفل میں بچوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا تھا ۔ بچوں سے محبت کرنے والے بڑے بوڑھے ان سے زیادہ نقصان اٹھاتے تھے۔ وہ لگاتار اپنےجگر گوشوں کو سنگھاڑا چھیل چھیل کر دیتے رہتے تھے۔ خو دکھا نہیں پاتے تھے۔ 
 کچے کے بعد ابلے ہوئے سنگھاڑوں کی خبر لی جاتی تھی۔ بڑی سی پتیلی میں رکھا جاتاتھا ، تیار ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا تھا۔ اکثر ابلا سنگھاڑا رات کے اندھیرے میں تیار ہوتاتھا۔ عام طور پر گاؤں والے سردیوں میں سونے کے وقت کھانے پینے کی چیزیں باہر نہیں کھاتے تھے، رضائی میں لے کر گھس جاتے تھے لیکن سنگھاڑے کے ساتھ ایسا نہیں تھا، اسے رضائی میں لے جاتے تو بسترکی ایسی تیسی ہوجاتی، ابلے ہوئے سنگھاڑے کا داغ اور گہرا ہوتا ہے ، اسے چھڑاناآسان نہیں ہے۔
 یہ کالم نگار یادوں کے تالاب میں ڈوب رہا تھا کہ ایک بچے نے بچا لیا۔ اس نے تالاب میں مخصوص انداز میں پتھرمارا جیسے گاؤں والے چھچھلی مارنا کہتے ہیں ، اس طرح ماضی سے حال میں آگیا ۔ سنگھاڑوں کےبغیر پوکھری کودیکھ کر لگا کہ اس کا زیور نہیں ہے ۔پھر یاد آیا کہ اس موسم میں پوکھری میں اترنے والی بھینسیں پریشان کردیتی تھیں ۔سنگھاڑے میں پھنس جاتیں تو نکالنا مشکل ہوجاتا تھا ، اسی لئے نومبر کے مہینے میں بھینسوں کوسنگھاڑے والے تالاب میں اتارنے کا خطرہ مول نہیں لیا جاتا تھا ۔ وجہ یہ تھی کہ زیادہ اچھلنے کودنے والی بھینسیں خود کو زخمی کرلیتی تھیں ، جگہ جگہ سنگھاڑے کے کانٹے چبھ جاتے تھے۔ ان کے جسم پرزخموں کے نشان نظر آتے تھے ۔ سنگھاڑے کی بیل سے کھجلی بھی ہوجاتی تھی ، نتیجتاً وہ اپنی پونچھ ، سینگ اور پیر سے جسم کھجاتی تھیں ، جب کھجلی کی جگہ پر ان کی رسائی نہیں ہوتی تو وہ بے چین ہوجاتی تھیں ، بار بار پہلوبدلتی تھیں ۔ مویشیوں کے ماہرسمجھ جاتے تھے اور کھجا کر انہیں سکون دیتے تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK