Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں: ٹکورے کا ’سراب‘، اسٹیٹس، بچپن کے دو دوستوں کی ملاقات اور بور کی خوشبو کا وہ احساس

Updated: April 28, 2024, 4:40 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

اس سے پہلے ان کالموں میں ٹکورایعنی کچے آم کا بارہا ذکر ہوچکا ہے۔ اس موضوع پر لکھنے کی تحریک ایک وہاٹس ایپ اسٹیٹس سے ملی۔ دراصل یہ اسٹیٹس بعد میں سراب ثابت ہوا۔

The raw mango, called `Takura` in the village, is peeled and sprinkled with salt and pepper. Photo: INN
کچا آم جسے گاؤں میں ’ٹکورا‘ کہا جاتا ہے، اس کا چھلکا اُتار کر اس پر نمک اور مرچ کا چھڑکاؤ کیا گیا ہے۔ تصویر : آئی این این

اس سے پہلے ان کالموں میں ٹکورایعنی کچے آم کا بارہا ذکر ہوچکا ہے۔ اس موضوع پر لکھنے کی تحریک ایک وہاٹس ایپ اسٹیٹس سے ملی۔ دراصل یہ اسٹیٹس بعد میں سراب ثابت ہوا۔ دیکھ کر لگا کہ ہرے ہرے کیلے کے پتے پر ٹکورا رکھا ہوا ہے، ایک کٹوری میں لال مرچ پاؤڈر والا نمک بہت سلیقے سے رکھا ہوا ہے اور اس پر ٹکورے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی نفاست سے کاٹ کر رکھے ہوئے ہیں، چھلکا بھی اترا ہوا ہے۔ اسے دیکھ کر اس کالم نگار نے ایک تصویر منگوائی اور اسے غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ کیلے کا پتہ نہیں بلکہ پلاسٹک کا پلیٹ ہے جو پتہ نما ہے۔ ہوا نہ سراب ...چلئے اسی بہانے گاؤں والوں سے اس موضوع پر بات چیت ہوگئی۔ پھر اپریل کی دوپہری میں ٹکورا سے لدرے ہوئے درختوں کے قصے ہی قصے تھے۔ باتیں ہی باتیں تھیں۔ ان باتوں میں الگ طرح کی تاثیر تھی۔ یادوں کا ایک خزانہ تھا، ماضی کا حال سے موازنہ تھا۔ ایک قصہ ملاحظہ کیجئے۔ 
 بچپن کے ایک دوست نے اپنے دوست کو باغ میں  ملنے کیلئے کس طرح بلایا ؟دیکھئے۔ اسےاتفاق ہی کہاجاسکتا ہےکہ دونوں دوستوں کے باغ اور کھیت قریب قریب ہیں۔ ایک دوست اپنے کھیت میں گیہوں کی دوائیں  کررہا تھا۔ یعنی ڈنٹھل سے دانے اور بھوسے الگ کررہا تھا۔ ایک دوست دوپہر کی نیند مکمل کرکے ظہرکی نماز پڑھ کر گھر آیا ہی تھا کہ کھیت میں موجود دوست نے فون کردیا، ’’ارے یا ر! تری بگیا میں بہت ٹکورا گرا ہے، جلد آئے جو جھولا لے کےاور ہاں  ساتھ میں مٹھا اور پانی ضرور لا نا، بھولائے مت، میں اپنے کھیتوا میں داواں تھوں ..‘‘ ( ارے یار !تمہارے باغ میں ٹکورا بہت گرا ہے جلد ی آجاؤ جھولالے کر اور ہاں ساتھ میں میٹھا اور پانی ضرور لانا، بھولنا مت، میں اپنے کھیت میں مڑائی کررہاہوں۔ ‘‘
اس فون کے بعد ایک دوست دوسرے دوست کیلئے گھرسے میٹھا پانی لے کرباغ پہنچا۔ اسی بہانے بچپن کے دو دوستوں نے اپنے ماضی کو یاد کیا۔ بچپن کی طرح باغ کے ایک ایک پیڑ کا جائزہ لیا۔ کچھ ہی دیر میں  جھولا بھر گیا، کچھ ٹکورے یوں  ہی پڑے رہ گئے۔ ادھر ایک ہفتے سے پوروانچل میں لو چل رہی ہے جس کی وجہ سے درختوں کے نیچے ٹکوراہی ٹکورا نظر آرہا ہے۔ ایسے میں کچھ لوگ باغبانوں کو درختوں کی سنچائی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اُن کہنا ہے کہ سنچائی سے ٹکورے نہیں گریں گے۔ 
ایک زمانہ تھا جب ایسے ہی کتنے دوست گھر والوں سے نظر بچا کر ’بھری دوپہر یا‘ میں نکلتے تھے اور جھولا بھرکے ٹکورا لاتے تھے، خالی ہاتھ نہیں لوٹتے تھے۔ ا س دور کے بچے دوپہر یا میں کم کم گھر سے نکلتے ہیں۔ والدین کو بھی زیادہ دقت نہیں ہورہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: اپریل کی ایک دوپہریا، کٹیا لگنے کا وہ زمانہ اور لگن لگنے کا قصہ

گاؤں کے ایک بزرگ یہ نکتہ بیان کرتےہیں، وہ کہتے ہیں کہ’’  اس دورمیں  بچے گرمی، سردی، بہار اور برسات سب دیکھتے تھے، موسم کی مار جھیلتے تھے، مئی اور جون کی گرمیوں میں  کھیلتے تھے، پسینہ بہاتے تھے، ہر کھیل میں  خود کو جھونک دیتے تھے، محنت سے جان نہیں  چراتے تھے،  ا س طرح وہ مضبوط ہوتے تھے، بیمار کم ہوتے تھے، بات بہانے ڈاکٹر کے ہاں نہیں  جاتے تھے۔ بڑے ہونے کے بعدجفاکش ہوتے تھے، اکھاڑوں میں  اُترتے تھے، اچھے اچھوں  کود ھول چٹادیتے تھے، کبڈی کھیلتے تھے۔ اب بچے’ لو...و و‘کا سامنا کرتے نہیں، باغ جاتے نہیں  ، ندی کا رخ کرتے نہیں، اسی لئے ذرا سی دھو پ اوربارش سے پریشان ہو جاتے ہیں، موسم کی مار جھیل نہیں  پاتےہیں، ہلکی سی ہوا سےبیمار ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے اس دور میں بھی بچوں کو سب کچھ کرنا چاہئے، اس طرح حالات سے لڑنے کا ہنر آئے گا، جینے کا سلیقہ آئے گا۔ کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔ ‘‘
  گزشتہ برس اس کا لم نگار کو اپنے آبائی علاقے کے ایک معروف سفارتکار اور دانشور کے فیس بک وال پر ان کے آم کے گھنے باغ کی تصاویر دیکھنے اتفاق ہوا  ۔ اسی دوران ان سے فون پر بات چیت ہوئی۔ جیسے ہی ان پیڑوں کا ذکر ہوا، وہ فرط جذبات سے مغلوب ہوگئے، پیڑ تو ان کے والد نے لگا ئے تھےمگر وہ انہیں بے حد عزیز رکھتے ہیں۔ کہنے لگے، ’’حمزہ! باغ میں  جس وقت داخل ہوا، بور کی سوندھی سوندھی خوشبو مجھے ماضی میں  لے گئی، کیا بتاؤں  ؟اس میں میرے والد کے پسینے اور محنت کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ جس وقت میرے والد نے آم کے باغ لگائے تو گا ؤں والوں نے کہا کہ آپ باغ لگارہےہیں، کھیتی کہاں  ہوگی ؟ اس پر ان کا جواب تھا کہ میرے بچے پڑھے لکھے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ انہیں کھیتی باڑی کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس باغ میں  جب بھی جاتا ہوں، الگ طرح کا سکون ملتا ہے، میں  دنیا گھوم چکا ہوں  مگر اپنے باغ میں میری الگ طرح کی کیفیت ہوتی ہے، اسے میں  لفظوں میں بیان نہیں  کرسکتا، اس باغ کی ایک ایک چیزاپنی لگتی ہے، کوئل کی کوک میں  بھی اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ ‘‘
ایسے ہی کتنے لوگ ہیں جو اپنے والد کے لگائے ہوئے درختوں سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں اور اب ان کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں، سال بھر ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان کے جڑوں میں پانی بھی دیتے ہیں اور وراثت پر فخرکرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK