Inquilab Logo Happiest Places to Work

نانی کا گھر دیکھ کر بچے سڑکوں کو چھوڑ کر کھیتوں سے ہوتے ہوئے دوڑ لگا دیتے

Updated: July 20, 2025, 5:40 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

اِدھر گھر میں دادا کی اجازت ملنے کے ساتھ ہی بچوں کی مائیں مائیکے کی تیاری شروع کر دیتی تھیں۔ بیگ میں کپڑے رکھنے کے ساتھ ہی کچھ دوائیاں اور نورانی تیل ضرور ساتھ رکھتی تھیں۔

Village buses have their own unique charm, combining the pleasures of both a motor vehicle and an oxcart. Photo: INN.
گاؤں کی بسوں کااپنا ایک الگ ہی لطف ہے، اس میں بیک وقت موٹر گاڑی اور بیل گاڑی دونوں کا مزہ ملتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

چہرےپر جگہ جگہ گھموریاں اور جسم پر بارش کے موسم میں نکلنے والے پھوڑے پھنسی، گرمی کی چھٹیوں میں ننہال سے لوٹنے پر بچوں کی کچھ ایسی ہی حالت ہوا کرتی تھی۔ ساتھ ہی دن بھر دھوپ میں دوڑنے سے چہرے کا رنگ بھی بدل جاتا تھا، جسم کی حالت جو بھی ہو لیکن وہ اپنے ساتھ حسین یادوں کا ذخیرہ لے کر آتے تھے۔ سالانہ امتحان ختم ہوتے ہی اس سفر کی تیاری شروع ہو جاتی تھی۔ مئی جون کے مہینے میں لو چلنے لگتی تھی۔ بچوں کی طبیعت نہ خراب ہو جائے، وہ دوپہر کی دھوپ میں باغوں میں نہ جائیں ، گھر کی دادیاں ایسے بچوں کی خوب نگرانی کرتی تھیں۔ دھوپ میں اِدھر اُدھر بھاگنے والے بچوں سے کہتیں، تمہیں نانی کے یہاں جانا ہے نا، بے وجہ لو میں نکلے تو بیمار پڑ جائوگے اور پھر یہیں گھر پر پڑے رہنا، کوئی ساتھ نہیں لے جائےگا۔ 
اِدھر گھر میں دادا کی اجازت ملنے کے ساتھ ہی بچوں کی مائیں مائیکے کی تیاری شروع کر دیتی تھیں۔ بیگ میں کپڑے رکھنے کے ساتھ ہی کچھ دوائیاں اور نورانی تیل ضرور ساتھ رکھتی تھیں۔ اُس وقت بچے کہیں گر پڑتے اور چوٹ لگتی تو فوراً نورانی تیل لگا دیا جاتا تھا۔ چنانچہ نورانی تیل گھر اور سفر میں بھی ساتھ رکھا جاتا تھا۔ اِن تیاریوں کے ساتھ بچوں کےننہال جانے کا دن بھی آجاتا۔ اُس وقت دور کا سفر اِتنا آسان نہیں ہوتا تھا۔ بس پکڑنے کیلئے وقت پر رکشے نہیں ملتے تھے۔ گائوں کے باہر پُلیا پر آم یا مہوے کے پیڑ کے نیچے گھنٹوں سواری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ خدا خدا کرکے جب کسی طرح بس اسٹینڈ پہنچتے تو معلوم ہوتا کہ اُس روٹ پر جانے کیلئے دو گھنٹے تک کوئی بس ہی نہیں ہے۔ اِتنی مشکل سے بس اسٹینڈ پہنچنے کےبعد کون گھر لوٹتا۔ پھر کیاتھا دیگر مسافروں کے ہم عمر بچوں کے ساتھ دھما چوکڑی شروع ہو جاتی۔ خیر اسی طرح کھیل کود میں دو گھنٹے گزر جاتے، پھر بس اسٹینڈ پر لگتی۔ باری باری بس میں سامان بیچنے والے آتے ایک سانس میں جنرل نالج کی باتیں، ایک مہینے میں انگلش سیکھنے کا دعویٰ کر کے نیچے اُتر جاتے۔ پھر کوئی بریلی کا سُرمہ بیچنے کیلئے بس میں آتا، پوچھے بغیر کچھ سواریوں کی آنکھوں میں سُرمہ لگا جاتا اور وہ لوگ پھر دیر تک رومال سے آنسو پوچھتے رہ جاتے۔ اِسی درمیان ڈرائیور صاحب اپنی سیٹ سنبھالتے، ایک بار بس اسٹارٹ ہوکر انجن بند ہو جاتا، کچھ سواریاں بس سے اُترتیں اور دھکا دیتیں تب جاکر بس دوبار ہ اسٹارٹ ہوتی۔ کنڈکٹر کے بس میں چڑھنے کے بعد کا الگ ہی منظر ہوتاتھا۔ لوگ ۱۰؍ سال کے بچے کو ۷؍ سال اور۷؍ سال والے کو۵؍ کا بتا کر ٹکٹ کیلئے لڑتے جھگڑتے۔ 
بس دھیرے دھیرے آگے بڑھتی اور شہر پیچھے چھوٹتا۔ سڑک کے دونوں کناروں پردرختوں کے سائے میں دور سے انتظار کرتیں سواریاں ، اپنوں سے جداہونے کے غم میں روتی ہوئیں آنکھیں ۔ ہاتھوں میں خاص قسم کی ڈولچی لئے بس میں سوار ہو جاتیں۔ سسکیوں کے درمیان ساتھ میں بیٹھی ہوئی خاتون دلاسہ دیتیں ، بیٹیاں تو پرایا دھن ہیں، ایک نہ ایک دن انہیں اپنوں سے بچھڑکر دوسرے کےگھر جانا ہی پڑتا ہے۔ ایسے جملے کہہ کر ان کے آنسو روکنے کی کوشش کرتیں۔ 
گرمی کے دوپہر سے بس کی چھت تپ رہی ہے، اوپر سے لو کے تھپیڑے جو حالت اندر بیٹھے انسانوں کی تھی وہی حال کم و بیش بس کے انجن کی بھی تھی۔ گویا وہ بھی ایسی گرمی میں سڑک پر دوڑتے دوڑتے ہانپ گیا ہو۔ آگے کسی ہوٹل یا ڈھابے پر بس کو روک کر اس کے ریڈیٹرمیں پانی ڈالا جاتا، گویا سخت گرمی میں اس کا سوکھا گلا تر ہو جاتا اور ایک با پھر بس تازہ دم ہو کر اپنے سفر کیلئے تیار ہو جاتی۔ ڈرائیور بس کا ہارن بجاتا اور نیچے اُترنے والی سواریاں ایک ایک کرکے پھر سے بس میں اپنی نشستوں پر بیٹھنے لگتیں۔ اس دوران بس آگے بڑھتی اورکسی بچے کے والدین یا اس کے ساتھ سفر کرنے والے بس میں بیٹھنے سے رہ گئے ہوں توبچے کے رونے کے ساتھ ایک شور اُٹھتا اور آگےجاکر بس پھررُکتی اور چھوٹے ہوئے مسافروں کو ساتھ لے کر اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو جاتی تھی۔ آدھا سفر مکمل ہونے پر جب بس رُکتی تو یہاں باقاعدہ سواریاں بس سے اُترتیں اور اپنےساتھ لایا ہوادوپہر کاکھانا کھاتیں ۔ دوران سفرکچھ دیگر سواریوں سےگھل مل جاتے تو ان کے درمیان کھانے پینے کی اشیاء کا تبادلہ بھی ہوتا تھا۔ کھانے سے فارغ ہوکرتازہ اور ٹھنڈہ پانی پینے کیلئے سواریاں ہینڈ پمپ کے پاس جمع ہو جاتیں اور پھر نل کا ہتھا جس مسافر کے ہاتھ لگتا تو جلدی اس کے پانی پینے کا نمبر نہیں آتا تھا۔ 
ایک بار پھر بس اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتی۔ اب دوپہر ڈھل رہی تھی، دھوپ کی شدّت میں کمی آچکی تھی۔ لو کے تھپیڑے بھی نرم پڑ گئے تھے۔ دھیرے دھیرے سورج درختوں کے پیچھے دورکہیں چھپنے لگا تھا۔ اپنی اپنی منزل پر پہنچ کر سواریاں اُترنے لگی تھیں۔ دور سے اپنی نانی کا گھر دیکھ کر بچے خوش ہو جاتے اور جلدی پہنچنے کیلئے سڑکوں کو چھوڑ کر کھیتوں سے ہوتے ہوئے دوڑ لگا دیتے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK