Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں: الوداع جمعہ میں چند تصاویر اور سیلفیوں پر قناعت اور اُس زمانے کی روایتیں

Updated: April 07, 2024, 1:19 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

الوداع جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلا۔ وہاٹس ایپ چیک کیا، تصویر و ں کا سیلاب آیا ہواتھا۔ بھانجوں نے الوداع کے جوڑے والی تصاویر وہاٹس ایپ کی تھیں۔

This is how children take pictures on Goodbye Friday. Photo: INN
اب الوداع جمعہ پر بچے اس طرح تصویریں کھنچواتےہیں۔ تصویر : آئی این این

الوداع جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلا۔ وہاٹس ایپ چیک کیا، تصویر و ں کا سیلاب آیا ہواتھا۔ بھانجوں نے الوداع کے جوڑے والی تصاویر وہاٹس ایپ کی تھیں۔ اب گاؤں میں یہی ہوتا ہے، اس دن بچوں   کو سب سے زیادہ تصویر اور سیلفی لینے کی فکر ہوتی ہے۔ غنیمت یہ تھی کہ ان بچوں نے اپنے گملوں کے ساتھ یہ تصاویر کھنچوائی تھیں، ایک بھانجے کی تصویر دلچسپ تھی۔ وہ اپنی بالکنی میں ایک ایسے گملے کے پاس بیٹھا ہوا تھا جس میں  لیموکا پودا تھا اور اس پر پھل بھی آگئے تھے۔ کالم نگار نے اپنی دلچسپی کے مطابق تصاویر سے زیادہ ان گملوں پر دھیان دیا۔ ایک دور وہ بھی تھا جب الوداع جمعہ سے ایک دن پہلے ہی بچے تیاری کرتے تھے۔ رمضان کو الوداع کہنے والے اشعار پڑھتے تھے۔ انہیں  بار بار دہراتے تھے۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے کہ آخراس الوداع کو انہیں کیا پہننا ہے ؟ عام طور پر اس دن گھر کے چھوٹے بچے بھی روزہ رکھتے تھے، اس لئے’سحری‘ میں ہنگامہ ہوتا تھا، سردیوں کے رمضان میں بھی بچوں کی فوج جاگ جاتی ا ور خوب شور مچاتی تھی۔ سحری جگانے والے بھی رقت آمیز آواز میں ’’الوداع الوداع ماہ رمضان الوداع... ‘‘پڑھتے تھے۔ اس پر اکثر لوگ آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ بچے بھی ان کی نقل کرتے تھے۔ اس دن افطار میں بھی خاص پکوان بنتے تھے، دسترخوان بھرا رہتا تھا۔ کتنے بچوں  نے اپنی زندگی کا پہلا روزہ الوداع جمعہ ہی کورکھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: آنگن کو سجانے میں ننھے مالیوں کی جفاکشی اورماں کے جہیز کے پرانے ٹیبل کا قصہ

اس کالم نگار کو الوداع جمعہ کی ایک شام یاد ہے، زندگی کاپہلا روزہ تھا، افطار کے وقت کا انتظار کرتے کرتے بے حال ہوگیا تھا۔ وقت کاٹنے کیلئے ’بیٹھکے‘ (بیٹھک) کے کونے کی چارپائی پر سویا ہوا تھا، نیند تو آنہیں رہی تھی، بے چینی سے کروٹ بدل رہا تھا، ’دیوار گھڑی‘ کی سوئیاں دیکھ کر وقت سمجھنے کا شعور تھا نہیں ... جو بھی چارپائی کے پاس بھٹک کر آجاتا تھا، اس کی جانب پہلا سوال یہی داغتا تھا کہ ’’کَے بجت ہے؟ روزہ کب کھولا جائی۔ ‘‘ ( کتنے بجے ہیں ؟ روزہ کب کھولا جائے گا ؟‘‘)
 ایسے ہی وقت گزار رہا تھا۔ اتنے میں گھر کے ایک بزرگ نے ننھے روزے دار کو ستانے کا فیصلہ کرلیا۔ روزے کا امتحان لے لیا۔ گرم گرم رس گُلے لائے اور مسکراتے ہوئے حکم صادر کردیا کہ لےجاؤ، گھر میں دے کر آؤ۔ یہ بھی تاکید کردی کہ کھول کر دیکھنا مت.. رس گلہ دیکھا بھی نہیں تھا ، اس کی خوشبو ہی سے سوکھے منہ میں پانی آگیا، اس کا ڈبہ لے کر کچن پہنچا، پکوان بن رہے تھے، نظریں بچاکر ڈبہ کھولا، ایک رس گلہ اٹھا لیا، منہ کی طرف لے جار ہاتھا کہ بہنوں کی ’پہریداری‘ نے رس گلے دوبارہ ڈبے میں رکھنے پر مجبور کردیا۔ بہنوں نے ایک ساتھ شور مچایا :’’ بابو یہ کیا کررہے ہو، بیس ہی منٹ تو بچا ہے۔ تھوڑا اور رک جاؤ.. .‘‘حالانکہ اس وقت روزہ افطار کرنے میں ایک گھنٹہ باقی رہا ہوگا۔ اس طرح بڑی مشکل سے زندگی کا پہلا روزہ رکھا، اس میں ’پہریدار بہنوں ‘ کا اہم رول اور محنت تھی، ان کی نگاہ نہ پڑتی تو یہ پہلا روزہ آخری لمحے میں ’شہید ‘ہوجاتا اور پھر پورا گھر پچھتاتا اور اس کالم نگار کو بھی اس کا احساس شاید بعد میں  ہوتا۔ 
 الوداع جمعہ سے ایک دن پہلے ایک سوال گاؤں کی چوپالوں اور بچوں کی بیٹھکوں میں ضرور پوچھاجاتا تھا اور وہ سوال یہ تھا کہ اس بار الوادع جمعہ کس دن ہے؟ یا اس بار سعودی عرب میں الوداع جمعہ کس دن ہے؟ اس کا جواب دینے میں ’اچھے اچھوں ‘ سے چوک ہوجاتی تھی، غلط جواب پر چاروں طرف قہقہے گونجتے، اس پر غلطی کا احساس ہوتاتھا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی تھی، پچھتانے اور گردن جھکانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوتاتھا، چڑانے والے جی بھر کے اور سو سو طریقے سے چڑاتے تھے۔ اہل محفل کو ہنسنے اور مذاق بنانے کا موضوع مل جاتاتھا۔ پھر جو بھی اس محفل میں آتا تھا، اسی سوال سے استقبال کیا جاتا تھا اور غلط جواب پر سب کا وہی حشر ہوتاتھا، بے چارہ قہقہوں کے طوفان کا سامنا کرتا تھا۔ ہنستے ہنستے بے تکلف دوستوں کے مزاحیہ اور طنزیہ تبصرے سنتاتھا۔ دن بھر اس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ایسا شہروں میں بھی ہوتا رہا ہوگا لیکن یہاں کوئی گنوانے کیلئے اتنا وقت کہاں سے لاتا؟کسے اتنی فرصت تھی کہ دو چار گھنٹے یوں ہی گزار دیتا۔ گاؤں والے تو گاؤں والے تھے، ان کے پاس وقت ہی وقت تھا، حالانکہ وہ کھیتی کسانی اور مویشی پالن کے بہت سے کام کرتے تھے، پھر بھی ہنسنے کیلئے باقاعدہ وقت نکالتے تھے۔ چوپالوں اور بیٹھکوں میں اس طرح کا مذاق فرصت سے ہوتا تھا، اس لئے پورے دن اس کا سلسلہ جاری رہتا تھا، ان چوپالوں کا حال مت پوچھئے، یہاں وہ ہنسی اور ایسا ایسا مذاق ہوتا تھا کہ اداسی اور مایوسی قریب نہیں پھٹکتی تھی۔ دل کھول ہنسنے والے ہی اس محفل کا حصہ ہوتے تھے۔ کسی کسی کو ہنسی کے دورے پڑجاتے تھے، یہ ہنسی دیکھ کر کچھ لوگ کہہ دیتے، ’’ چپ ہو جو بے، پاگل ہو گئے ہا کا؟‘‘(’’چپ ہوجاؤ بے، پاگل ہوگئے ہو کیا؟‘‘) مگر اس زندہ دل پر کسی بھی ’جملے وملے ‘کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہنسی کے آگے کسی کی نہیں سنتا تھا۔ اس قہقہے کے شور میں یہ آوازیں ٹھیک اسی طرح گم ہوجاتی تھیں، جیسے تصاویر اور سیلفیوں کے سیلاب میں الوداع جمعہ کی بہت سی روایتیں بہہ گئی ہیں، لاپتہ ہوگئی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK