Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں: آنگن کو سجانے میں ننھے مالیوں کی جفاکشی اورماں کے جہیز کے پرانے ٹیبل کا قصہ

Updated: April 02, 2024, 2:24 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

گزشتہ کالم میں جس آنگن کا ذکر ہوا تھا، آج اسی کا ایک اور روپ دیکھئے۔ اس آنگن میں گھر کی چہادیواری کے قریب مٹی کے ۴؍ گملے سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔

If the ground was raw, flowers would grow on the ground, but now that the ground is ripe, they are confined to pots. Photo: INN
زمین کچی ہوتی تو پھول زمین پر اُگتے تھے لیکن اب جبکہ زمین پکی ہوگئی ہے توا نہیں گملوں میں محدود کر دیا گیا ہے۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ کالم میں جس آنگن کا ذکر ہوا تھا، آج اسی کا ایک اور روپ دیکھئے۔ اس آنگن میں گھر کی چہادیواری کے قریب مٹی کے ۴؍ گملے سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔ سب ایک سائز کے تھے، ان میں نمی تھی، شاید ننھے مالیوں نے صبح صبح ان میں پانی دیا تھا، سنچائی کی تھی۔ دو گملوں کے ننھے ننھے گلابی پھول کھلے ہوئے تھے۔ قریب میں پانی کے پرانے کولر کا ایک گملا رکھا ہوا تھا جس میں گلاب کا پودا تیار ہوچکا تھا، حالانکہ اس میں کوئی پھول نہیں تھا لیکن کھلنے کے قریب تھا۔ اس کے تھوڑا آگے لکڑی کا پرانے طرز کا ایک ٹیبل پڑا ہوا تھا۔ 
  پوچھنے پر پتہ چلاکہ کئی دہائی پہلے ماں کے جہیز میں یہ ٹیبل ملا تھا، آج گھر کے اجلے اور شفاف حصے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہیں  پڑا رہتا ہے۔ جہیز کایہ ٹیبل یوں ہی موسم کی مار جھیلتا ہے۔ سردی، گرمی، بہار اور برسات سب کچھ دیکھتا ہے، کسی کا اس پر کچھ اثر نہیں ہو تا ہے۔ شیشم کی لکڑی کا بنا ہے، بہت مضبوط ہے، پائیدار ہے، ’اولڈ اِز گولڈ‘ کا ثبوت ہے۔ بس اس کے اوپر کا رنگ اڑ گیا ہے لیکن اس کی لکڑی جیسی کی تیسی ہے۔ یہ اکثر خالی ہی رہتا ہے۔ اس پرکبھی کبھار گھر کے بچے کھلونے بکھیردیتےہیں۔ کبھی کھیتی کسانی کا کوئی اوزاررکھا رہتا ہے۔ پھاوڑا اور کدال تو زمین ہی میں رہتے ہیں۔ کھرپی اور ہنسوا( ہنسیا)ہی کو اس ٹیبل کی زینت بنتے ہیں۔ اکثر اس پر بچی کھچی روٹیاں سوکھنے کیلئے رکھی جاتی ہیں۔ دوپہر کے سناٹے میں اس پر چڑیاں پھدکتی رہتی ہیں۔ سب سے زیادہ چہچہانے والی ’چرخیاں ‘ بھی بھٹک کر آجاتی ہیں، ناک میں دم کردیتی ہیں، وہ اتنا شور مچاتی ہیں کہ کان پک جاتےہیں اور کوئی کمرے سے نکلتا ہے تو پھر سے اڑ جاتی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: مدتوں کے بعد یہ آنگن کتنابھلا لگتا ہے، گلاب کھل گیا ہے، پھولوں کی یہ کیسی بہار آئی ہے؟

 اس آنگن کے ننھے مالیوں کاعزم جوان ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ابھی آنگن کو مزیدپھولوں اور پھلوں سے سجاناہے، سنوارنا ہے، اس کا نقشہ بدلنا ہے، اس کی ہر یالی بڑھانی ہے۔ ابھی ایک ماہ پہلے ہی اس کشادہ آنگن کے ایک حصے میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ ایک اینٹ نکالا گیا تھا اور اس میں پپیتے کا ایک پودا لگا دیا گیا تھا جو اب ’ لگ ‘گیا ہے۔ یعنی اس کی جڑیں زمین میں پھیل چکی ہیں۔ ننھے مالیوں نے اس کی بھی پابندی سے سنچائی کی تو نئی پتیاں بھی نکل آئی ہیں، اس کا قد بھی بڑھ گیا ہے۔ اس پھلتے پھولتے پودے میں وہ گھر ہی کی سب سے عبادت گزار خاتون کا دم کیا ہوا پانی بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ یہ پودا نظر بد سے بچا رہے اور کسی کی بھی نظر نہ لگے۔ 
  پپیتے کا پودا زیادہ دن میں تیار نہیں ہوتا ہے، مشکل سے ایک سال میں پھل دینے لگتا ہے لیکن تیار ہونے کے بعدکبھی کبھی ’بنجھا‘ بھی ہوجا تا ہے جو غالباً ’بانجھ‘ سے بنا ہوا ہے۔ یعنی اس پودے پر پھول تو آجاتےہیں لیکن یہ پھل میں بدل نہیں پاتےہیں۔ اس وقت اس کی خدمت کرنے والوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ عام طور پر پپیتے میں ایک ہی شاخ ہوتی ہے لیکن شاذو نادر کچھ ایسے پپیتے کے پودے بھی اگ آتے ہیں جن میں کئی کئی شاخیں ہوتی ہیں اور ان میں اتنے پھل آتےہیں کہ آنگن والے تو ڈال کے پکے ہوئے پپیتےخوب کھاتےہیں۔ ان کے پڑوس والے بھی نہال ہوجاتےہیں۔ اب یہ دیکھئے اس آنگن کا ننھا پپیتا بھی پھل ہی دے گا، کیونکہ اس کے تنے کو ننھی ہتھیلیوں نے بار بار چھوا ہے، اس میں پانی دیا ہے، قدرت کو ان پرترس تو آئے گاہی، وہ اس کی ہر پتی نکلنے پر جشن مناتے ہیں۔ یہ کالم نگار تو یہی چاہتا ہے کہ یہ پپیتا خوب پھولے پھلے۔ 
  اس کالم نگار کو یاد ہے کہ ہمارے گاؤں کے ثاقب بھائی آنگن کے پپیتےکی بڑی شہرت تھی، اس میں شاخیں ہی شاخیں تھیں اور ہر شاخ میں پھل بھی کثرت سے تھے۔ ان کا گھر سر راہ ہے، جو بھی وہاں سے گزرتا تھا، ان کی نظر اس پر چلی ہی جاتی تھی۔ پکے ہوئے لال لال خوشنما پپیتے باہر ہی سے نظر آتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ پپیتے کو نظر بد سے بچانے کیلئے ا س پر سیمنٹ کی سفید بوری باندھ دی گئی تھی۔ اس کی جڑ میں  دم کیا ہوا پانی بھی ڈالا گیا تھا۔ یہ پپیتا کئی سال تک پھلتا رہا ہے۔ ثاقب بھائی کا آنگن تو ختم ہوگیا ہے لیکن اب بھی اس کی یاد باقی ہے۔ 
 جس آنگن کا اوپر ذکر ہوا، کل تک یہ آنگن نہیں تھا، یہاں   ایک اچھا خاصا کچا گھرتھا۔ اس د ور کے شاہی اندا ز سے تعمیر کیا گیاتھا، اس میں  طاق تھے، مغلیہ دور کو یاددلانے والے پیتل اور لوہے کی کنڈی والے دروازے تھے۔ اس میں شان سی گوریاں رہتی تھیں، اڑتی پھرتی تھیں، بلبل اپنے گیت سناتی تھی، کھپریل پر کوابھی کائیں کائیں کرتا تھا، چیل بھی جھپ سے اترتی تھی اور اپنا شکار لے کر یہ جا وہ جا ہوجاتی تھی۔ اس کے موٹی لکڑیوں کے شگاف میں پھدکیا بھی گھونسلے بناتی تھیں، چمگادڑ کا بھی بسیرا یہیں تھا۔ اب اسی کچےمکان کے ملبہ پر یہ آنگن ہے جسے ننھے مالی دل و جان سے سجا سنوارہے ہیں   اور اسے روایتی آنگن بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہےہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی اسی جگہ چارپائیوں پر سرسوں پھیلائی گئی تھی۔ اس میں فرق صرف اتنا ہےکہ کل تک یہ سب کچی زمین پر ہوتا ہے اور اب پکی...

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK