Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں: کھیل کا ایسا جنون طاری ہواکہ گھنٹوں کھانے پینے کی بھی سدھ نہ رہی

Updated: October 01, 2023, 1:15 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

بیس اگست کی صبح تھی، گھڑی میں نو ہی بجے تھے ۔دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ اتنی زیادہ اور ایسی تھی کہ دوپہر بارہ بجے کا گمان ہوتا تھا۔

The competition is fierce and every player has their eyes on the ball. Photo: INN
سخت مقابلہ ہورہا ہےاور ہر کھلاڑی کی نظر بال پر ہے۔ تصویر:آئی این این

بیس اگست کی صبح تھی، گھڑی میں نو ہی بجے تھے ۔دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ اتنی زیادہ اور ایسی تھی کہ دوپہر بارہ بجے کا گمان ہوتا تھا۔ کبھی ہلکی تو کبھی تیز ہوائیں چل رہی تھیں جو گرمی کا اثر بڑی تک کم کررہی تھیں ۔ نیلگوں آسمان دور دور تک پھیلا ہوا تھا، اس پر سفید بادل کے ٹکڑے روئی کے گالے کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ نیلے نیلے آسمان کے کچھ حصوں کو لمبے تڑنگے درخت چھپائے ہوئے تھے۔ان درختوں پر بیل بوٹوں کی کشیدہ کاری کا گمان ہورہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ نیلےنیلے کپڑے پر نفاست کے ساتھ ہرے ہرے بیل بوٹے بنائے گئے ہیں۔ اس کالم نگار نے اس طرح آسمان اور درختوں کو ملا کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا، دیر تک اس کے حسن میں کھویا رہا۔آس پاس سے بے خبر رہا، گھنٹوں آسمان ہی کو تکتا رہا، اس دلفریب منظر کا کوئی جواب نہیں تھا، پوری طرح اس کے سحر میں جکڑ چکاتھا۔نظر ہٹ ہی نہیں رہی تھی۔ اچانک میرے قریب’ دھپ ‘کی آواز کے ساتھ والی بال گرا۔ اس بال نے کالم نگار کو ایک نئی دنیا میں پہنچا دیا،یہ اہل زمین تھے،کھیل کود میں مست تھے۔جم کر والی بال کھیل رہے تھے،کچھ پرانے کھلاڑی تھے اور کچھ نئے۔یوں کہہ سکتے ہیں کہ تجربہ اور جوش مل گئے تھے، کھیل پر اس کا اثر تھا،انتہائی دلچسپ مقابلہ ہورہا تھا۔پرانے کھلاڑیوں کا ہلکا ’ڈراپ‘ ہی پوائنٹ دلا دیتا تھا جسے پوروانچل کے کمنٹیٹر زہریلا ’ڈراپ‘ کہتے ہیں۔ یعنی یہ’ ڈراپ‘ ہی مخالف ٹیم کی نیند حرام کردیتا ہے اوران کیلئے زہر ثابت ہوتا ہے جبکہ نئے کھلاڑی پوائنٹ حاصل کرنے کیلئے اپنی پوری طاقت جھونک رہے تھے،جوش اور جوانی کا بھرپور استعمال کررہےتھے۔ کمنٹیٹرز کے الفاظ میں کہیں تو طاقت اور جوانی کا ملا جلا ’پرہار‘ ( حملہ) کررہے تھے۔ تجربہ اور جوش سے آراستہ دونوں ٹیمیں ایک ایک پوائنٹ کیلئے جوجھ رہی تھیں ، کمنٹیٹرز کے الفاظ میں کہیں تو’ سنگھرس‘ کررہی تھیں ۔ بڑی مشکل سے بال زمین پر گرتا تھا۔ تمام کھلاڑی دھوپ میں پسینہ بہا رہے تھے۔ کھیل صبح۸؍ بجے شروع ہوا تھااور بارہ بجے دوپہر تک جاری رہا۔کسی کو کھانے پینے کی فکر نہیں تھی، بس کھیلنے کی دھن سوار تھی۔ کئی گھنٹے کے کھیل کے بعد بھی کسی کھلاڑی پر تکان کا اثر نہیں تھا۔کھیل ختم ہونے تک ہر کھلاڑی تازہ دم تھا،خوش تھا،مطمئن تھا، اسی لئے ہر مقابلہ نئی امنگ ، جوش و خروش اورپوری آب وتاب کے ساتھ ہورہا تھا۔ ایسا شاندار مقابلہ تھا کہ یہ کالم نگار آگے بڑھ نہیں سکا،قدم رک گئے۔ چاہتے ہوئے بھی کسی اور منظر میں کھو نہ سکا۔آم کے ایک پرانے درخت کی جڑ والے حصے پر بیٹھ گیا اور اچھے کھیل کی داد دینے لگا۔ 
 دیر تک کانٹے کی ٹکر دیکھتا رہا۔ اتفاق سے نیلے آسمان کے نیچے والی بال کی فیلڈ کے کنارے کنارے جو جال تنا ہوا تھا،اس کارنگ بھی نیلا تھا۔یہ جال اس لئے لگایا جاتا ہے تاکہ والی بال باہر نہ نکل سکے۔کھیل روک کر بار بار دوڑنا بھاگنا نہ ہو،حالانکہ اس ’حصار‘ کو توڑنے نہیں بلکہ پھاندنے والے کو نوازا جاتا ہے۔
 جو بھی کھلاڑی والی بال کو اس جال سےباہر بھیجنے میں کامیاب ہوجاتا، اس کے کیا کہنے؟اسے خوب داد ملتی ہے،دل کھول کر تعریف ہوتی ہے۔ دادو تحسین کے ڈونگرے برستے ہیں ، ہر طرف سے واہ واہ ہوتی ہے۔ اس کے اچھے کھلاڑی ہونے کا ہر کوئی اعتراف کرتاہے، اس کی صلاحیتوں لوہامان لیا جاتا ہے۔ پھراس کے والر ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا ہے۔ یہ بہترین پولر ہونے کا ثبوت بھی مانا جاتا ہے۔
اس دن کے مقابلوں میں کم ہی کھلاڑی والی بال جال سے باہر بھیج سکے تھے۔ویسے بھی کھیل کے دوران جال ڈکانا آسان نہیں ہے۔ مشق کے دوران کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے ۔ایسے میں کچھ کھلاڑی بہت آسانی سے گیند جال سے باہر بھیجنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ،کیونکہ اس وقت کوئی بلاک نہیں ہوتا، نیٹ ہونے پر کوئی کچھ نہیں کہتا۔ امپائر بھی نہیں ہوتا، اس لئے دوران مشق جال ڈکانے پر خاموشی ہی چھائی رہتی ہے ۔ کچھ دبی زبان میں کہہ دیتے ہیں ،’’بابو ایسے نا، گموا چلے میں بلیا ڈکاوا تب مان جائی کہ بڑکے کھلاڑی ہا، ایسے تو کو بھی ڈکای سکے تھے۔‘‘ ( بابو ایسے نہیں ، کھیل کے دوران بال باہر بھیجو تو مان جائیں گے کہ آپ بہت بڑے کھلاڑی ہیں ،ایسے تو کوئی بھی بال باہر بھیج سکتا ہے۔) 
اس کالم نگار کو یاد ہے کہ والی بال کے بڑے بڑے مقابلوں میں بال ، جال سے باہر بھیجنے اور مقامی زبان میں کہیں تو جال ڈکانے پر انعام کا اعلان کیا جاتا تھا۔ اس میں کم ہی کھلاڑی کامیاب ہوتے تھےاور جو کامیاب ہوجاتے تھے، ان کی جےجے کار ہوتی، پورا اسٹیڈیم تالیوں سےگونج اٹھتا تھا، شور اتنا ہوتا تھا کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔ نقد کی شکل میں ٹورنامنٹ کے حساب سے چھوٹی بڑی رقم ملتی تھی۔ جال ڈکانے والے کھلاڑی کولوگ بہت دنوں تک یاد رکھتے تھے۔ بعض دفعہ اس کے ساتھی کھلاڑی اسے پیٹھ پر اٹھا لیتے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK