ایک دن کی بات ہے۔ گائوں کے اندر ایک کار داخل ہو رہی تھی، وہ آہستہ آہستہ سر سبز کھیتوں کے درمیان بنی کچی سڑک پر چل رہی تھی، اس کے اندر بیٹھے بچے کار کی وِنڈو سے سر نکالے کھیتوں کو بڑی حیرت و مسر ت سے دیکھ رہے تھے۔
EPAPER
Updated: June 22, 2025, 1:25 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
ایک دن کی بات ہے۔ گائوں کے اندر ایک کار داخل ہو رہی تھی، وہ آہستہ آہستہ سر سبز کھیتوں کے درمیان بنی کچی سڑک پر چل رہی تھی، اس کے اندر بیٹھے بچے کار کی وِنڈو سے سر نکالے کھیتوں کو بڑی حیرت و مسر ت سے دیکھ رہے تھے۔
دوپہر ڈھلنے کے قریب تھی۔ سہ پہر کی مدھم دھوپ اور ہلکی ہوا سے موسم خوشگوار ہو رہا تھا۔ سورج کی کرنیں گھنوں درختوں میں غائب ہو گئی تھیں۔ باغ کے ایک بڑے سے قد آور درخت کے پاس کچھ لوگ بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کسی گائوں کو سمجھنے کیلئے اس کے باغ میں بیٹھنا بہت ضرور ی ہے۔ چاروں طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ آنولے کے درختوں پر لگی ہر ہری پتیاں آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہی تھیں۔ لمبے عرصے کے بعد شہر سے گائوں آئے توحید احمد کہہ رہے تھے کہ... کسی سبزہ زار میں تھوڑی دیر جا کر بیٹھ جانے سے طبیعت میں تازگی آجاتی ہے۔ گائوں کے یہ مناظر دیکھ کر اداسی ختم ہو جاتی ہے اور جسم کے اندر ایک نئی توانائی محسوس ہو تی ہے۔ کورونا وبا کے دوران خوب وقت مل گیا تھا۔ ہم یہاں آکر دیر تک بیٹھا کرتے تھے، اُن ایام میں وقت کی تنگی ختم ہو گئی تھی، فرصت ہی فرصت تھی۔ یہاں کے خوشگوار موسم میں اُس موذی مرض کا دور دور تک کہیں پتہ نہیں تھا۔
ایک دن کی بات ہے۔ گائوں کے اندر ایک کار داخل ہو رہی تھی، وہ آہستہ آہستہ سر سبز کھیتوں کے درمیان بنی کچی سڑک پر چل رہی تھی، اس کے اندر بیٹھے بچے کار کی وِنڈو سے سر نکالے کھیتوں کو بڑی حیرت و مسر ت سے دیکھ رہے تھے۔ دور دورتک پھیلے ہری ہری ’چری‘ کے کھیت اور ایک طرف اُرد کے کھیت سے ان کی کار گزررہی تھی۔ بچے کار کے اندر باہر آنے کو اتنا بے تاب نظر آرہے تھے کہ اُن کا بس چلتا تو وہ باہر جھومتی ہوئی فصلوں سے گلے لگ جاتے۔ گرمیوں میں ’چری‘ جانوروں کے چارے کے طور پر بوئی جاتی ہے، یہ مئی جون میں خوب ہری بھری نظر آتی ہے، یہ ایک ایسی فصل ہوتی ہے جسے روز سینچنا پڑتا ہے۔ یہ بہت تیز بڑھتی ہے۔ اسے صبح کسان کاٹ کر چارہ بنا کر جانوروں کو کھلاتے ہیں۔
شہر سے آنے والی کار اب گائوں کے کافی قریب پہنچ چکی تھی۔ کسان اپنی بکریاں اور مویشیاں لے کر چارہ گاہ سے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ کھیتوں کے درمیان سے نکل کر گائوں کے ایک کنارے پر چھوٹی سی خوبصورت مسجد نظر آرہی تھی جہاں سے نماز عصر کی اذان بلند ہو رہی تھی۔ کار میں بیٹھے بچے اس خوشنما مناظر میں گُم ہو گئے تھے۔ مسجد کے پاس ہاتھ سے پانی نکالنے والا نل لگا ہوا تھا۔ بڑے شہر سے آنے والے بچے اسے حیرت دیکھ رہے تھے۔ وہ ان کیلئے ایک نئی چیز تھی۔ فرط مسرت سے وہ چلا اُٹھے، وہ دیکھو وہ دیکھو، اس نل سے کیسے پانی نکالا جارہا ہے۔ کار میں بیٹھے بچے باتوں میں مگن تھے کہ ایک گھر کے سامنے اُن کی کارُکی۔ وہاں پہنچے تو اندر بڑے سے صحن میں چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں جن پر نانی اماں ، ممانیاں اور گاؤں کے بچے بیٹھے شہری مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے۔ گھر کے بزرگوں نے بچوں سے پیار کیا۔ کئی سال بعد شہر سے گائوں آئے یہ بچے دیر شام تک ایک دوسرے سے ملتے رہے۔ رات ہوتے ہی تھکاوٹ سے جہاں نیند آئی، وہیں سوگئے۔
اگلی صبح فجر کی نماز پڑھ کر آئے تو لسّی تیار تھی۔ ایک طرف باغ سے لائے گئے تازے پکے اور میٹھے آم رکھے تھے۔ لسی پی کر اور میٹھے آم کھا کر بچے پڑوس کے مولوی صاحب کے پاس چلے گئےجہاں وہ روزانہ فجر کے بعد قرآن پاک پڑھتے تھے، گاؤں کا شاید ہی کوئی بچہ یا نوجوان ہوگا جس نے مولوی صاحب سےقرآن پاک نہ پڑھا ہو بلکہ گاؤں والوں کے رشتے داروں کے بھی جو بچّے گاؤں رہنے آتے، وہ بھی اتنے دن مولوی صاحب سے سبق ضرور پڑھتے تھے۔ مٹی کے فرش پر پلاسٹک کی چٹائیاں بچھی ہوتی تھیں جہاں بچّے آکر بیٹھتے جاتے اور اپنی اپنی باری پر سبق سُنا کر چھٹی کرتے جاتے۔ بچے اپنے پیارے مولوی صاحب کیلئے تحفے بھی ساتھ لائے تھے۔ مولوی صاحب بڑی محبت اور اپنائیت سے بچوں سے ملے اور انہوں نے کچھ سورتیں بھی اُن سے سنیں اور اچھا پڑھنے پر شاباشی بھی دی۔ واپسی پر ناشتہ تیار تھا، سارے بچّوں نے کچن میں ہی فرش پر بچھی دری پر بیٹھ کر ناشتہ کیا اور باغ کی سیر کو نکل پڑے۔
یہاں باغ میں آم، جامن اور کٹہل کے درخت قطاروں میں لگے ہوئے تھے اور بیشتر درخت پھلوں سے لدے تھے۔ باغ کے کنارے کنارےکروندے کے درخت لگے تھے، جس کی وجہ سے باغ میں ایک باڑ سی بن گئی تھی۔ کروندے کے پیڑ میں کانٹے ہوتے ہیں جس سے باغ کی حفاظت ہو جاتی ہے۔ کانٹوں کے سبب آوارہ مویشی باغ میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کر پاتے۔ سارے باغ میں پرندے ایک درخت سے دوسرے درخت پر آتے جاتے چہچہا رہے تھے۔ سارا باغ گھومنے کے بعد بچے آخری کونے پر گئے جہاں بڑے اور گھنے سایہ دار درختوں کے نیچے ٹیوب ویل چل رہا تھا۔ بچوں نے آپس میں مشورہ کیا اور پھر ایک ساتھ جست لگائی اور پانی کے ٹینک میں کود گئے اور دیر تک ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے نہاتے رہے۔ یہاں نہانے سے فارغ ہوئے اور ڈھیر سارا کچا، پکا آم اور کٹہل لے کر گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔