• Tue, 21 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بھُٹہ تیار ہوجاتا تو بچے مچان پر بیٹھ کر دن بھرکھیت کی رکھوالی کرتے تھے

Updated: August 24, 2025, 12:54 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

مکئی میں جب بھٹہ نکلنے لگتا تو اس کی رکھوالی شروع ہو جاتی تھی۔ موٹی لکڑیوں کا اونچا سا ڈھانچہ بناکر اس کے اوپر ایک جھوپڑی بنا دی جاتی تھی۔

An adult member of the family would sleep on a scaffold built to guard the fields at night to protect them from thieves and wild animals. Photo: INN.
کھیتوں کی رکھوالی کیلئے بنائے گئے مچان پر رات میں گھر کا کوئی بڑا فرد سوتا تھا تاکہ چور اور جنگلی جانور نقصان نہ پہنچائیں۔ تصویر: آئی این این۔

پہلے موسمی فصلوں کے ساتھ دیگر فصلوں کی بھی بوائی ہوتی تھی۔ اس میں تِل، باجرا، مکئی، پٹسن، پھوٹ ککڑی، اُرد اور سنئی وغیرہ کھیتوں کے ایک کونے میں بو دی جاتی تھی۔ اسے ’ سہ فصلی ‘ کہتے تھے۔ مکئی میں جب بھٹہ نکلنے لگتا تو اس کی رکھوالی شروع ہو جاتی تھی۔ موٹی لکڑیوں کا اونچا سا ڈھانچہ بناکر اس کے اوپر ایک جھوپڑی بنا دی جاتی تھی۔ اس ڈھانچے پر کھٹیا یا کھٹولہ رکھ کر مچان بنایا جاتا تھا۔ دن بھر بچے اس پر بیٹھ کر کھیت کی رکھوالی کرتے تھے اور رات میں گھر کا کوئی فرد یہاں سوتا تھا۔ بھٹے کے ساتھ ساتھ جب ’پھوٹ ککڑی‘ تیار ہو جاتی تو اس کی خاص طور سے رکھوالی کرنی پڑتی تھی کیونکہ جنگلی جانوروں کی طرح گائوں کےبچے چپکے سے باغوں میں چھپتے ہوئے آتے اور کھیت سے توڑ لے جاتے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ بچوں کا یہ غول رکھوالی کرنے والے کے پاس بیٹھ جاتا اور انہیں باتوں میں  الجھا دیتا اور کوئی بچہ اس میں سے چپکے سے اُٹھتا اور کھیت سے ککڑی توڑ کر اپنے مقررہ مقام پر پہنچ جاتا اور پھر ایک ایک کرکے دوسرے بچے بھی وہاں پہنچ جاتے تھے۔ بعد میں ایک دوسرے کے حصے کی ککڑی آپس میں تقسیم ہوتی تھی۔ ایسا نہیں کہ ان بچوں کے اپنے کھیت میں یہ ککڑی نہیں ہوتی تھی لیکن انہیں اس طرح ’چوری‘ کرکے کھانے میں مزہ آتا تھا۔ ’پھوٹ ککڑی‘ کے بارے بتاتا چلوں کہ یہ ککڑی عام ککڑیوں سے موٹی خربوزہ جیسی ہوتی ہے۔ یہ پک کر جگہ جگہ سے پھٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے پھوٹ ککڑی کہتےہیں ۔ اس کا ذائقہ خربوزے جیسا ہوتا ہے۔ یہ ککڑی گرمیاں ختم ہونے اور بارش شروع ہونے کے ساتھ کھیتوں میں پائی جاتی تھی۔ یہ ککڑی جب پک کر پھٹ جاتی تھی تو کھیتوں کے پاس سے گزرنے پر اس کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔ 
مکئی کی کھیتی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اچھی پیداوار کیلئے کسان بہار سے مکئی کا بیج منگا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہونے والی دوسری کھیتی سے یہ زیادہ نفع بخش ہے۔ ایک وقت تھا جب کھیتوں میں مکئی کا بھٹہ تیار ہوتا اسےآگ میں سینکا جاتا تھا اور تیکھے نمک کے ساتھ سب بیٹھ کر کھاتے تھے۔ کچھ بچے اس قدر کھاتے کہ بھٹے میں لگی راکھ سےان کے مونچھیں بن جاتی تھی، لیکن خوش ذائقہ اورسوندھا سوندھا بھٹہ کھانے کے دوران وہ اس کی پروا نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح مکئی کے دانے نکال کر اُسے کڑاہی میں بالو ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا جاتا تھا اور تھوڑی دیر میں ’لاوا‘ پاپ کارن تیار ہو جاتا۔ مکئی کے آٹے کی روٹی بھی بنائی جاتی ہے جو سردیوں میں سرسوں کے ساگ کے ساتھ کھائی جاتی تھی۔ 
سنئی پٹسن کو ہمارے یہاں اسے ڈھینچا بھی کہتے ہیں۔ یہ رسی بنانے کیلئے خاص طور سے بوئی جاتی تھی۔ سنئی کے تنے سے نکلنے والے ریشے رسی بنانے کے کام آتے تھے۔ سنئی کا ایک کام اور تھا۔ اُس وقت کسان کیمیائی کھادوں سے بچتے تھے۔ چنانچہ کھیتوں کو زر خیز بنانے کیلئے سنئی ڈھینچا کو ہری کھاد کے طورپر استعمال کرتے تھے۔ ابھی بھی پرانے کسان دھان کی روپائی سے کچھ مہینے پہلے کھیتوں میں سنئی بو دیتے ہیں اور دھان کی روپائی سے پہلے ہی اس کی جوتائی کرا دیتے ہیں جس سے ہری کھاد بن جاتی ہے اور اس سے دھان کی پیداوار کیمیائی کھاد کا استعمال کئے بغیر بھی بڑھ جاتی ہے۔ پہلے ارہر کی فصل کے ساتھ کھیتوں میں کچھ بیج سنئی کے بکھیر دیئے جاتے تھے اور ارہر کے ساتھ سنئی بھی اُگ آتی تھی۔ جب سنئی کے پودوں میں ڈھیر ساری کلیاں اور پھول آجاتے تھے تو اسے توڑ کر اچھی طرح سے صاف کرکے کچے مسالے میں سبزئی بنائی جاتی تھی۔ سبزی فروش سنئی کے پھول کو شہر لے جا کربیچتے تھے۔ ہمارے یہاں لہسن، مرچ، دھنیا، سرسوں ، ہلدی پیس کر جو مسالہ تیار ہو تا ہے اسے کچہ مسالہ یا ڈھنڈا مسالہ کہتے ہیں ۔ 
سنئ سے رسی بنانے میں بڑی محنت لگتی تھی۔ سنئی کو کھیتوں سے کاٹ کر کسان صبح صبح کمر تک پانی میں کھڑے ہو کر اسے پیٹتے تھے۔ اس طرح گھنٹوں گڑھےمیں کھڑے ہوکر سنئی کی پٹائی سے ہرے ہرے ریشے نکل کر الگ ہو جاتے پھر اسے دھوپ میں سکھایا جاتا تھا اور اُسی سے رسی تیار ہوتی تھی۔ کسان رسی تیار کرنے کیلئے ایک چرخی جسے ہمارے یہاں ’اوئنا‘ کہتے ہیں، مویشی چرانے جاتے وقت اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ چرخی اُن کے ساتھ ہوتی اور جسم میں  سنئی کا سَن لپیٹ لیتے۔ چرخی کو ہاتھ سے نچا کر اُس سے پتلی پتلی رسی ’بادھ‘ تیار کرتے تھے، جس سے چارپائی بُنی جاتی تھی۔ کئی بار جب وہ چرخی رکھ کر مویشی ہانکنے جاتے تو بچے چرخی سے ’بادھ‘ بنانے کی کوشش کرتے لیکن اُن سے بادھ تو نہیں بنتا، وہ اسے بگاڑ ضرور دیتے تھے۔ اب تو چارپائی بُننے کیلئے بازاروں میں تیار شدہ رسی ملنے لگی ہے۔ یہاں پر تاپ گڑھ میں سنئی پر تحقیق کیلئےحکومت نے باقاعدہ ایک ادارہ ’سنئی انوسندھان کیندر‘ قائم کیا ہے لیکن اب سنئی میں لوگوں کی دلچسپی کم ہونے کےسبب اس ادارے کی افادیت ختم ہو تی جارہی ہے۔ ملک کے اس اکلوتے ادارے میں کئی سال سے کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK