پہلے باغوں کے علاوہ گھروں میں بڑے صحن ہونے کی وجہ سے لوگ پھول پودے اور درخت لگاتے تھے جہاں شریفہ، امرود اور آم کے درخت کے ساتھ کٹہل بھی ضرور ہوتا تھا۔ پُرانے کٹہل کے درخت بڑے، گھنے اور سایہ دار ہوتے تھے۔
EPAPER
Updated: August 17, 2025, 2:25 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
پہلے باغوں کے علاوہ گھروں میں بڑے صحن ہونے کی وجہ سے لوگ پھول پودے اور درخت لگاتے تھے جہاں شریفہ، امرود اور آم کے درخت کے ساتھ کٹہل بھی ضرور ہوتا تھا۔ پُرانے کٹہل کے درخت بڑے، گھنے اور سایہ دار ہوتے تھے۔
باغوں میں آم اب کہیں کہیں نظر آرہے ہیں۔ جن درختوں کی شاخوں پر ہرے ہرے آم لگے ہیں وہ ہمارے یہاں ’ بھدئیں ‘آم کہلاتے ہیں۔ یہ آم ساون کے بعد تک درختوں پر لٹکے رہتے ہیں۔ پہلے جب کسی کے یہاں اچار بنانےمیں تاخیر ہو جاتی تھی تو وہ ’بھدئیں ‘ آم کی تلاش کرتا تھا کیونکہ یہی آم دیر تک کچا رہتا تھا، باقی سب پک کر گِر چکے ہوتے تھے۔ ’بھدئیں ‘ آم کا ذائقہ بہت اچھا نہیں ہوتا ہے، اس میں مٹھاس کم، کھٹا پن زیادہ ہوتا ہے۔ آم جب باغوں سےختم ہونے لگتا ہے تو کھانے والوں کی طلب مزید بڑھ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اونچی شاخ پر اگر کہیں ایک آم نظر آ جائےتو اسے توڑنے کی فکر ستانے لگتی ہے۔ بعض اوقات درختوں پر چڑھنےکے ماہر بچوں کی مدد لی جاتی ہے۔ کئی بار ایسا کرنے سے حادثے بھی پیش آجاتےہیں۔
آموں کے باغ میں ، ایک کنارے پر لگے کٹہل پر بھی بات ہو جائے۔ پہلے باغوں کے علاوہ گھروں میں بڑے صحن ہونے کی وجہ سے لوگ پھول پودے اور درخت لگاتے تھے جہاں شریفہ، امرود اور آم کے درخت کے ساتھ کٹہل بھی ضرور ہوتا تھا۔ پُرانے کٹہل کے درخت بڑے، گھنے اور سایہ دار ہوتے تھے۔ اب جو نئے درخت لگائے جارہے ہیں وہ قلمی آم کی طرح چھوٹے ہوتے ہیں۔ شہر سے آنے والے بچے انتہائی بلندی پرلگے ہوئے کٹہل کے بڑے سے پھل کو حیرت سے دیکھتے تھے۔ اس پھل کی ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہ گولر کی طرح شاخوں پر لگنے کے بجائے براہ راست تنے سے نکلتا ہے۔ یہ ایک پھل دس سے پچیس کلو تک وزنی ہوتا ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ اوپر سے ٹپک جائے تو نیچے بیٹھنے والے کی شامت ہی آجائے۔ وزنی ہونے کے سبب درخت سے پک کر نیچے گرنے پر کٹہل پھٹ جاتا ہے لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کیونکہ دور تک پھیلنے والی اُس کی خوشبو خود ہی بتا دیتی ہے کہ کٹہل پک گیا ہے۔ چنانچہ اُسے گرنے سے پہلے ہی توڑ لیا جاتا ہے۔
کٹہل کے اندر گانٹھوں کی شکل میں گودا پایا جاتا ہے جوپھل پکنے کے ساتھ ساتھ نسبتاً لیس دار ہوتا جاتا ہے اور اسی لیس کی وجہ سے اس کی مٹھاس بڑھ جاتی ہے۔ یہ لیس اتنا زیادہ چپچپا ہوتا ہے کہ کٹہل آسانی سے نہیں کاٹا جاسکتا بلکہ چھری پر تیل لگا کر کاٹا جاتا ہے۔ اس کا سخت کانٹوں دار چھلکا چھیلنا بھی آسان کام نہیں ہوتا۔ نسبتاً تیار شدہ کٹہل کے گودے کا رنگ زردی مائل ہوجاتا ہے اور مکمل پک جانے کے بعد اس کے گودے کا رنگ سُرخی مائل ہوجاتا ہے۔ گودے کے درمیان کچھ بیضوی اور ہلکے بھورے رنگ کے بیج بھی پائے جاتے ہیں ۔ ایک کٹہل میں تقریباً۱۰۰؍ سے۵۰۰؍تک بیج ہوتے ہیں۔ اس کے بیج کو کویا بھی کہا جاتا ہے۔
جب پیڑ سے کٹہل توڑا جاتا تو اُس وقت گائوں کے بچے درخت کے اِرد گرد جمع ہو جاتے۔ جیسے ہی رسی سے بندھا وزنی کٹہل نیچے آتا بچے خوشی سے اُچھل پڑتے اور ایک کے ہاتھ میں اس کا ڈنٹھل ہوتا اور دو بچے پیچھے سے کٹہل کی پشت کو سہارا دے کرگھر لے جاتے۔ یہاں بڑی سی پرات میں کٹہل کے بیج ’کوئے‘ نکالے جاتے۔ باہر نکلے کٹہل کے بیجوں کی خوشبو جب محلے میں پھیلتی تو ایک ایک کر کےلوگ اپنے گھروں سے نکل کر پرات کے پاس جمع ہوجاتے اور پھر شروع ہو جاتی کٹہل کی دعوت۔ کٹہل کھانے کے بعد اُس کے بیج ایک بڑے سے برتن میں جمع کئے جاتے کیونکہ اسے بھون کر کھایا جاتا ہے اور اس کی سبزی بھی بنتی ہے۔ جس وقت کٹہل کے بیج آگ میں بھونے جاتے ہیں اُس کی بھی سوندھی سوندھی خوشبو دورتک پھیل جاتی ہے۔ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام کی کہاوت عام ہے لیکن یہ بات کٹہل پر زیادہ صادق آتی ہے کیونکہ کوئے میں لگے میٹھےمیٹھے گودے کھانے کے بعد اس کے بیج ایک بار پھر آپ کو اپنے ذائقے سے لطف اندوز کرتے ہیں۔ رہی آم کی بات تو اس کی گٹھلیاں کس کام کی ہوتی ہیں یہ تو نہیں معلوم ...ہاں اسے بچے پتھر پر رگڑ کر پپہری ضرور بنا لیتے ہیں اور پھر باغ میں بجاتے پھرتے ہیں۔
کٹہل کی سبزی بھی خوب بنتی ہے اسے سبزی خوروں کا مٹن بھی کہا جاتا ہے۔ برادران وطن کےیہاں شادی بیاہ کے موقع پر اس کا خوب استعمال ہوتا ہے۔ اس کی سبزی پوری، پراٹھے اورچپاتی کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔ بزرگوں سے سُنا ہے کہ ہمارے یہاں ایک شادی کی تقریب میں باراتیوں کو کٹہل کی بریانی کھلائی گئی تھی لیکن اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں سے کسی کو پتہ نہیں چلا۔ باراتی مزے لے لے کر کھاتے رہے اور بار بار تعریف کرتے رہے، واہ کتنا نرم اور ملائم گوشت ہے، اس میں ہڈی بھی نہیں ہے۔ پکا ہوا کٹہل کھانے کے بعد اس کا لیس ہاتھ میں گوند کی طرح چپکنے لگتا ہے۔ پھر وہ صابن سے بھی نہیں صاف ہوتا۔ اس کو ہاتھ سے چھڑانے کی ایک ہی ترکیب ہے سرسوں کا تیل۔ جی ہاں سرسوں کا تیل کٹہل کا لیس لگے ہوئے حصے پر لگا کر صاف کپڑے سے ہاتھ کو پوچھ لیجئے بس آپ کا ہاتھ پہلے کی طرف صاف ہو جائےگا۔