Inquilab Logo

آہ تباہ کن ہے چاہے بڑے بوڑھوں کی ہو یا بچوں کی

Updated: February 16, 2024, 1:22 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

قدرت جب انتقام لیتی ہے تو ظلم کرنے والوں کو بھاگنے کی راہ نہیں ملتی اور قدرت ہر اس ظلم کا انتقام لیتی ہے جو کسی مظلوم کی آہ بن جائے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ایک معاصر اخبار نے بچوں  کے بارے میں  کچھ اعداد و شمار شائع کئے ہیں  ان کی تصدیق دوسرے ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔ راقم الحروف ہر طرح سے مطمئن ہوجانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ نئی صدی جو بڑی اُمیدیں  لے کر آئی تھی بچوں  سے ان کی زندگی اور زندہ رہ جانے والے بچوں  سے ان کا بچپن اور چڑیوں  سے ان کا بسیرا چھین رہی ہے۔
٭ دنیا بھر میں  جو جنگیں ، حملے اور مزاحمتیں  جاری ہیں  ان میں  ۲۰۱۳ء سے ۲۰۲۲ء کے درمیان ۵؍ تا ۱۷؍ سال کے ۸؍ کروڑ ۷۰؍ لاکھ بچوں  اور لڑکوں  یا لڑکیوں  کی اموات ہوچکی ہیں ۔
٭ ۲۰۱۰ء اور ۲۰۲۲ء کے درمیان ۴؍ کروڑ ۳۳؍ لاکھ بچے پناہ گزیں  خیموں  میں  پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں ۔
٭ ۱۹؍ کروڑ بچوں  کی پیدائش تو پناہ گزیں  خیموں  (یا کیمپوں ) میں  ہی ہوئی ہے۔ ٭ گزشتہ ۱۹؍ برس میں  ۱۲؍ کروڑ بچے کسی نہ کسی شکل میں  اغوا ہو کر یا بہلا پھسلا کر بیچے گئے۔ ۱۶؍ ہزار بچوں  کو جنسی جرائم کا شکار بنایا گیا۔ روہنگیا بچیوں  کی خرید و فروخت بڑھی۔ ٭ فلسطین، یمن، شام، جنوبی سوڈان، صومالیہ، نائیجیریا، میانمار، افغانستان، یوکرین، لبنان اور مالی میں  ۴۲؍ کروڑ بچے پھنسے ہوئے ہیں ۔
٭ موت کی وجہ جہاں  بمباری اور بیماری ہے وہیں  خوراک کا نہ ملنا اور غذائیت کی کمی بھی ہے۔
٭ دنیا بھر میں  ۱۶؍ ہزار حملے تعلیمی اداروں  پر کئے گئے ہیں  جن سے غزہ میں  ۳۷۰؍ اسکول پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں ۔ یوکرین کے ۱۰؍ اسکولوں  میں  ایک کی تباہی کی خبر ہے۔ سوڈان میں  ایک کروڑ ۹؍ لاکھ، شام اور پڑوسی علاقوں  کے اسکولوں  سے ۲۸؍ کروڑ بچے غیر حاضر ہیں  یعنی ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔
٭ ۲۰۲۲ء تک آدھے جسم سے محروم کر دیئے جانے والے بچوں  کی تعداد ۱۰؍ لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ فلسطین میں  ایک ہزار سے زائد بچے ایک یا دونوں  پیروں  سے محروم ہوگئے ہیں ۔ کتنے بچے تو ایسے ہیں  جنہیں  بے ہوش کئے بنا ٹانگوں  سے محروم کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ بے ہوش کرنے کی دوا تھی نہیں  اور ٹانگ یا پیر کاٹے جانے میں  تاخیر ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوسکتی تھی۔ ٭ یوکرین جنگ میں  ۱۵؍ لاکھ بچے کسی نہ کسی قسم کی ذہنی بیماری میں  مبتلا ہوگئے ہیں ۔ بعض جنگ زدہ علاقوں  سے تو خبریں  آرہی ہیں  کہ اسکول کے بچے کلاس میں  کاغذ پر پھول پتی بنانے کے بجائے کلاشنکوف، ٹینک، فائٹر طیارہ اور بم دھماکوں  کے بعد کا منظر بنانے لگے ہیں ۔
 یہ اعداد و شمار اس حقیقت کا احساس دلانے بلکہ ہوش اڑانے کے لئے کافی ہیں  کہ انسان کے بچے انسان کے مظالم اور ہوس کے سبب اپنی زندگی اور بچپن سے محروم ہورہے ہیں  بمباری اور تبدیلی موسم یا آب و ہوا کی خرابی سے جو پیڑ پودے تباہ ہورہے ہیں  یا ان پر بسیرا کرنے والی چڑیاں  جان گنوا رہی ہیں  وہ ان علاقوں  کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی ہیں  جن علاقوں  کو سر سبز اور نسبتاً محفوظ اور صحت کے لئے بہتر سمجھا جاتا ہے۔
 مقام شکر ہے کہ ہندوستان کے بعض علاقوں  میں  شورش اور اس کی پیدا کردہ دقتوں  اور پریشانیوں  کے باوجود اتنے برے حالات کہیں  نہیں  ہیں  جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد کے فسادات یا بعد کے فرقہ وارانہ تصادم میں  دردناک واقعات سامنے آتے رہے۔ دہشت گردانہ سرگرمیوں  کی زد میں  بچے بھی آئے مگر شاعر، ادیب اورہندوستانیت کی روح سے آشنا سیاست داں  اور صحافی اس کی مذمت کرتے رہے۔ کسی شاعر نے ان لفظوں  میں  ایسے واقعات کی مذمت کی ہے۔
ایک بچہ بھی نہیں  ہے یہاں  رونے والا
کس لئے شور مچاتا ہے کھلونے والا
 کچھ اچھی مثالیں  بھی ہیں ۔ ۱۹۴۷ء میں  جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ذمہ داروں  نے ایک ہندو بچے کو ریفیوجی کیمپ سے لاکر جامعہ کے ایک ذمہ دار کے گھر رکھا۔ تعلیم دلوائی، ان کے بچوں  کو تعلیم دلوائی اور اب وہ خاندان کنیڈا میں  ہے۔ نام شاید جتندر کمار آنند ہے۔ خود میں  اگرچہ کسی جنگ زدہ اور فساد زدہ علاقے سے تعلق نہیں  رکھتا لیکن چونکہ رعونت، لگائی بجھائی اور استحصال و بد خواہی کو شفقت میں  چھپانے والوں  کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس حال میں  جی رہا تھا کہ اوپر آسمان نیچے زمین کے سوا کچھ نہیں  تھا تو مخلصین نے جن میں  میرے دوست انیل کیدارے، بعد میں  ضیاءالدین بخاری اور ان کے توسط سے حاجی اسمٰعیل انصاری کے صاحبزادگان تھے وہ اخلاقی تعاون دیا کہ اپنے پاؤں  پر کھڑا ہوگیا۔ مَیں  یہ اُمید کرنے میں  حق بجانب ہوں  کہ وہ بچے جو ریفیوجی کیمپس میں  ہیں  ان کی زندگیوں  میں  بھی ’فرشتۂ رحمت‘ بن کر ایسے لوگ آئیں  گے کہ وہ آباد ہو جائیں  گے، ہاں  پریشاں  حال لوگوں  کو طعنہ دینے اورکچھ کئے بغیر احساس جتانے والوں  کو یہ یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں  کہ انسان کی خوشحالی ہمیشہ برقرار رہتی ہے نہ زمین کی ہریالی، اس لئے کسی مصیبت زدہ کا مذاق اڑانے سے بہتر ہے کہ برے حشر سے پناہ مانگی جائے۔
 بیشتر بنجامن یاہو اور جَو بائیڈن اس جنگ و تباہی کے لئے ذمہ دار ہیں ، باقی جو ہیں  ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں ۔ انہیں  یہ یاد دلاتے رہنا ضروری ہے کہ جو بچے آج ذہنی امراض میں  مبتلا ہوگئے ہیں  یا راحت کیمپوں  میں  جنم لے رہے ہیں  یا اسکول اور گھر میں  کاغذ پر پھول پتی بنانے کے بجائے بمبار طیارے، ٹینک اور بم دھماکوں  کے بعد کے مناظر بنا رہے ہیں  کل جب طاقت حاصل کریں  گے تو کیا ہوگا؟ انتقام جائز نہیں  ہے، ہر حال میں  عفو درگزر ہی بہتر ہے اس کے باوجود ہر دور میں  ظلم و ستم کے کوہ گراں  روئی کی طرح گرتے رہے ہیں  تو آئندہ کیسے بچیں  گے؟ قدرت کے عتاب سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ یہی نہیں  کہ ظلم و ناانصافی سے بچا جائے بلکہ جو مظالم ڈھائے جا چکے ہیں  ان کی تلافی کی جائے ورنہ قدرت جب انتقام لیتی ہے تو ظلم کرنے والوں  کو بھاگنے کی راہ نہیں  ملتی اور قدرت ہر اس ظلم کا انتقام لیتی ہے جو کسی مظلوم کی آہ بن جائے۔ آہ تباہ کن ہے چاہے وہ بڑے بوڑھوں  کی ہو یا بچوں  کی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK