Inquilab Logo Happiest Places to Work

پیٹریاک تھیوفیلس سوم کا دورۂ طَیبہ، غیر قانونی آبادکاروں کے حملے پر شدید تشویش

Updated: July 15, 2025, 4:06 PM IST | Jerusalem

مقبوضہ مغربی کنارے کے مسیحی قصبے طَیبہ میں اسرائیلی آبادکاروں کے حالیہ حملوں نے مذہبی و تاریخی ورثے اور مقامی اقلیت کی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ یروشلم کے یونانی آرتھوڈوکس پیٹریاک تھیوفیلس سوم نے ایک پریس کانفرنس میں ان واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

Patriarch Theophilos III looks at the site where Israeli settlers set fire to a cemetery and an ancient church near it last week. Photo: INN.
پیٹریاک تھیوفیلس سوم اس جگہ کو دیکھ رہے ہیں جہاں پچھلے ہفتے اسرائیلی آباد کاروں نے ایک قبرستان اور وہاں موجود ایک قدیم چرچ کے قریب آگ لگائی تھی۔ تصویر: آئی این این۔

یروشلم کے یونانی آرتھوڈوکس پیٹریاک، تھیوفیلس سوم جو یروشلم میں مقیم دیگر کلیسائی سربراہان کے ساتھ مسیحی قصبے طَیبہ کا دورہ کر رہے تھے،  نے کہا کہ آبادکاروں نے پچھلے ہفتے ایک قبرستان اور وہاں موجود پانچویں صدی کے ایک قدیم چرچ کے قریب آگ لگائی۔ پیٹریاک نے طَیبہ میں سفارتکاروں اور صحافیوں سے ایک پریس کانفرنس میں کہا:’’یہ اقدامات نہ صرف ہماری مقامی کمیونٹی کیلئے براہ راست اور جان بوجھ کر خطرہ ہیں بلکہ ہمارے تاریخی اور مذہبی ورثے کیلئے بھی۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا کہ آبادکاروں نے علاقے میں گھروں پر بھی حملے کئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم فوری اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیلی پولیس نے مقامی کمیونٹی کی ایمرجنسی کالز کا جواب کیوں نہیں دیا اور یہ گھناؤنے اقدامات اب تک کیوں بے سزا چلے آ رہے ہیں۔ ‘‘
اسرائیلی حکومت کے ترجمان نے رائٹرز کی جانب سے تبصرہ کیلئے کی گئی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

یہ بھی پڑھئے: حماس کیساتھ جنگ بندی معاہدہ سے پہلے ہی اسرائیل کی دوبارہ حملے کی تیاری

اسرائیلی حکومت پہلے یہ کہہ چکی ہے کہ عام شہریوں کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی پرتشدد عمل ناقابل قبول ہے اور کسی کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق نہیں۔ دورے کے دوران، چرچ کے سربراہان نے مقامی لوگوں کے ساتھ دعا میں شرکت کی، جبکہ پانچویں صدی کے سینٹ جارج چرچ کے کھنڈرات میں موم بتیاں جل رہی تھیں۔ انہوں نے رہائشیوں سے بات چیت کی جنہوں نے اپنے خوف بیان کئے۔ حقوق کی تنظیمیں جیسے کہ ’’بی-تسلیم‘‘ کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۳ءکے اواخر میں اسرائیل کی فلسطین کے علاقے غزہ کے خلاف جنگ کے آغاز کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں آبادکاروں کا تشدد بڑھ گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’ایرانی سائنسدانوں نے سیکڑوں قابل شاگرد تیار کئے تھے‘‘

فلسطینی محکمہ صحت اور عینی شاہدین کے مطابق، جمعہ کی رات ایک جھڑپ کے دوران آبادکاروں نے دو افراد کو ہلاک کر دیا، جن میں ایک امریکی شہری بھی شامل تھا۔ یروشلم کے رومن کیتھولک پیٹریاک، کارڈینل پیرباتیستا پزّابالّا، جو ۲۰۲۰ءسے اس منصب پر فائز ہیں، نے کہا کہ تشدد کے خدشات مسیحیوں کو مقبوضہ مغربی کنارہ چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا’’اس بار یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ یہ سب کب اور کیسے ختم ہوگا، خاص طور پر نوجوانوں کیلئے اُمید اور مستقبل پر اعتماد کی بات کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ‘‘بتا دیں کہ یروشلم اور مقبوضہ مغربی کنارے میں تقریباً ۵۰؍ ہزار فلسطینی عیسائی رہائش پذیر ہیں وہ علاقہ جس میں بہت سے مقدس مقامات واقع ہیں، بشمول بیت لحم، جہاں عیسائیوں کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی تھی۔ تقریباً ۷؍ لاکھ اسرائیلی آبادکار، مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں ۷ء۲؍ ملین فلسطینیوں کے درمیان رہتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جن پر اسرائیل نے ۱۹۶۷ءکی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK