Inquilab Logo

غزہ: کیا کبھی لوٹے گی بچوں کی مسکراہٹ

Updated: April 05, 2024, 4:05 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ایسٹر سنڈے کے خطاب میں پوپ فرانسیس نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر اپیل کرتا ہوں کہ غزہ تک انسانی امداد کی رسائی، یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی ہو۔ غزہ میں بچے مسکرانا بھول گئے ہیں ہم ان کی آنکھوں میں مزید کتنی تکلیفیں دیکھیں گے؟

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ہمارے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دورۂ ملائشیا کے دوران کہا کہ ۷؍ اکتوبر کو جو ہوا وہ دہشت گردانہ حملہ تھا مگر جوابی یا دفاعی کارروائی کے نام پر اسرائیل جو کر رہا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ جوابی یا دفاعی کارروائی بین الاقوامی قانون کے مطابق ہی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو ان کے حقوق اور وطن سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس بیان میں بعض جملے مصلحت پسندانہ ہیں مثلاً ’’جاری تنازع میں جو بھی صحیح یا غلط ہو۔‘‘ اسی طرح اس سے یہ وضاحت بھی نہیں ہوتی کہ فلسطینیوں کو ان کا وطن کیوں نہیں ملا مگر عمومی تاثر منصفانہ ہے۔ دیگر خبروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل صرف غزہ کے لوگوں کو تباہ نہیں کر رہا ہے بلکہ ایسے منصوبے پر عمل پیرا ہے جو دنیا کیلئے تباہ کن ہے۔ خبر یہ ہے کہ اسرائیلی ایجنسیاں دنیا کے کئی ملکوں کے انتخابات کو متاثر کرچکی ہیں اور اب ہندوستان کے انتخابات کو بھی متاثر کرنے کے در پے ہیں۔ یہ خبر ’گارجین‘ کے حوالے سے کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت نے دی ہے اور تبصرہ بھی کیا ہے۔ العربیہ کے حوالے سے یہ خبر بھی عام ہوئی ہے کہ اسرائیل غزہ کے ان تمام لوگوں کے چہرے اسکین کرتا ہے جو چوکیوں سے گزرتے ہیں۔ اس کی اس کوشش سے کئی ایسے لوگوں کی شناخت بھی حماس کے کارکن کے طور پر ہوجاتی ہے جو حماس یا کسی دوسرے مسلح گروہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ امن کی قرار داد پاس ہوجانے کے باوجود فلسطین پر اسرائیل کی بمباری بھی تھمی نہیں ہے۔ بھوک سے بلکتے بچوں کی تصویریں عام ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کیلئے امدادی قافلے پر پابندی افسوسناک ہے حالانکہ اسرائیل اجازت دینے کا پابند ہے۔
 ان تمام واقعات و بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنے قیام کے اول دن سے اقوام متحدہ کی قرار داد اور عالمی رائے عامہ کا مذاق اڑانے کی جس راہ پر گامزن تھا اسی پر آج بھی گامزن ہے۔ سلامتی کونسل امن کی قرار داد پاس کر رہی ہے اور اسرائیل ان کی دھجیاں بکھیرنے کے درپے ہے اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہ جاننے کیلئے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء اور اس سے پہلے کے حالات پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ دنیا کی ہر بڑی طاقت اسرائیل کی توسیع پسندی میں معاون ثابت ہورہی تھی۔ روس نے بعض موقعوں پر اہم فیصلے اور اقدامات ضرور کئے مگر اس کی پالیسی بھی اسرائیل کو باقی رکھنے اور دنیائے عرب میں اپنے ہمنواؤں کی تعداد بڑھانے پر تھی۔ لیکن صدر جمال عبدالناصر کی شکست، زوال اور انتقال کے بعد اس کے سیاسی اور فوجی اثرات محدود تر ہوتے گئے۔ عرب شیوخ نے ایک ایک کرکے اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے شروع کئے۔ فلسطینیوں کے سعودی، اردن، مصر اور دوسرے علاقوں سے کھدیڑے جانے کا سلسلہ پہلے ہی سے جاری تھا۔ سعودی مملکت فلسطین کے قیام کی باتیں ضرور کررہا تھا اور فلسطینیوں کی مالی امداد کا اس کا سلسلہ بھی جاری تھامگر اس کی کوئی ایسی حکمت عملی سامنے نہیں تھی جس کا مقصد اسرائیلی جارحیت کو لگام دینا اور اس کی قوت کو کم کرنا ہو۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو دنیا والے مسئلہ فلسطین کو بھول چکے ہوتے اور اسرائیل وسیع تر اسرائیل کے منصوبے پر زیادہ تیزی سے کام کر رہا ہوتا مگر ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کے مصداق یا کسی خاص منصوبے کے تحت حماس نے ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیل پر راکٹ داغنے شروع کئے اور جواب میں اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی شروع کی تو دنیا کو یاد آیا کہ مسئلہ فلسطین کا حل کیا جانا ابھی باقی ہے۔
 کچھ عرصہ قبل تک اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی باتیں ہوا کرتی تھیں اب کوئی طاقت جو براہِ راست اسرائیل، فلسطین یا اس مسئلہ سے تعلق رکھتی ہو اس قسم کی باتیں نہیں کرتی۔ دو مملکتی حل کی بات کئی بار سامنے آئی مگر عملاً اس سمت میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ امریکہ نے ٹرمپ کے زمانے میں یروشلم میں اپنا سفارت خانہ بھی تعمیر کر دیا تھا۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی بستیاں بھی بسائی جا رہی تھیں۔ ۷؍ اکتوبر کے حملے کے بعد ۳۰؍ ہزار سے زائد فلسطینی شہید کئے جاچکے ہیں۔ غزہ کے علاوہ دوسرے علاقے کے فلسطینی بھی بھوک پیاس سے تڑپ رہے ہیں مگر خود اسرائیل بھی خوف میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اس خوف کا ہی اثر ہے کہ وہ جنگ کے نئے محاذ کھولنے کے علاوہ امریکہ سے نئی امداد بھی حاصل کر رہا ہے۔ امریکہ کی دہری پالیسی یہ ہے کہ وہ رفح پر اسرائیل کے حملہ آور ہونے میں ڈھال بننے کا ڈھونگ رچتے ہوئے اسرائیل کو ڈھائی بلین ڈالر کا مزید اسلحہ فراہم کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے جس پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا ہے۔
 لیکن دوسری طرف قدرت کے کھیل بھی نرالے ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ میں غزہ کے باشندوں اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ عالمی رائے عامہ اسرائیلی حکومت کے خلاف ہورہی ہے۔ انفرادی طور پر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کئی اقدامات کئے جانے کی بھی خبر ہے۔ کئی ملکوں کے سربراہوں نے بھی اسرائیل کے خلاف بیانات دیئے ہیں۔ ایسٹر سنڈے کے خطاب میں پوپ فرانسیس نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ پھر اپیل کرتا ہوں کہ غزہ تک انسانی امداد کی رسائی، یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی ہو۔ غزہ میں بچے مسکرانا بھول گئے ہیں ہم ان کی آنکھوں میں مزید کتنی تکلیفیں دیکھیں گے؟ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیان دیا ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی سر زمین پر امتیازی سلوک، ظلم و ستم یا اپنی سر زمین سے اکھاڑ پھینکنے کے بجائے اپنی سر زمین پر رہنے کا حق دیا جائے۔ یہ حق انہیں عالمی قوانین کے تحت حاصل ہے۔ ان تمام بیانات کا استقبال کرنے کے باوجود اس سوال سے پیچھا چھڑانا محال ہے کہ وہ دن کب آئے گا جب فلسطینی بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ بحال ہوگی؟ شاید اس دن جب فلسطینی گھٹ گھٹ کر مرنے کے بجائے سرخروئی کیلئے اقدام کرنے پر آمادہ ہوں گے ان کی آہوں اور آنسوؤں میں وہ طاقت ہے کہ وہ بڑی سے بڑی فوجی طاقت اور خطرناک سے خطرناک اسلحہ کو ناکام کرسکتے ہیں۔ دنیا کی نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں مگر اقدام انہیں خود کرنا ہے۔ ان کے اقدام سے ہی غزہ اور فلسطین میں نئی صبح طلوع ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK