Inquilab Logo Happiest Places to Work

غریب نوازؒ کی کرامات مثلاً تالاب کا پانی سمٹ کر پیالے میں آگیا

Updated: December 27, 2024, 3:37 PM IST | Dr M. Hussain Mushahid Rizvi | Mumbai

لوگوں نے یہ حیرت ناک منظر دیکھا کہ ابھی تو یہاں پانی موجیں مار رہا تھا اب تو یہ بالکل سوکھ گیا ہے اور یہاں خاک اُڑ رہی ہے۔ ’شادی دیو‘ پانی سے بھرا ہوا پیالہ لے کر حضرت خواجہ کی خدمت میں پہنچاآپ کے ساتھیوں نے اپنی تمام ضروریات پوری کر لی لیکن پیالے کا پانی ذرا بھی کم نہ ہوا۔ اس کے بعدجیسے ہی پیالہ انڈیلا گیا، دوبارہ اناساگر میں لہریں اٹھنے لگیں۔

Khwaja Gharib Nawaz`s abode, in this picture taken from a distance, the neighboring township can also be seen. Photo: INN.
خواجہ غریب نوازؒ کا آستانہ، دور سے لی گئی اس تصویر میں اطراف کی بستی بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔ تصویر: آئی این این۔

حضر ت خواجہ کی اجمیر میں آمد
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کس سن میں اجمیر تشریف لائے، اس سلسلے میں آپ کے تذکرہ نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ویسے زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۵۸۷ھ / ۱۱۹۱ء کو اجمیر شہر پہنچے۔ اجمیر میں پہلے ہی دن سے آپ نے اپنی مؤثر تبلیغ، حُسنِ اَخلاق، اعلیٰ سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اہلِ اجمیر نے جب اس بوریہ نشین فقیر کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اجمیر جو کبھی کفر و شرک اور بت پرستی کا مرکز تھا، اسلام و ایمان کا گہوارہ بن گیا۔ 
راجا کے اونٹ بیٹھے ہی رہ گئے 
جب حضرت خواجہ اور آپ کے مریدین اجمیر پہنچے تو آپ نے شہر کے باہر ایک سایا دار جگہ پر رکنا چاہا تو راجا کے سپاہیوں نے آپ کو منع کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں نہیں ٹھہر سکتے کیوں کہ یہاں راجا کے اونٹ بیٹھتے ہیں۔ حضرت خواجہ نے اتنا سن کر کہا کہ’’ اچھی بات ہے میں یہاں سے جاتا ہوں تمہارے راجا کے اونٹ بیٹھتے ہیں تو بیٹھے ہی رہیں۔ ‘‘ اور وہاں سے حضرت خواجہ اناساگر کے پاس تشریف لائے جہاں اس وقت بہت زیادہ تعداد میں بت خانے تھے۔ آپ نے ایک بلند مقام پر قیام فرمایا، جو کہ اس وقت آپ کی چلہ گاہ سے منسوب ہے۔ 
جب شام ہوئی تو روزانہ کی طرح راجا کے اونٹ آئے اور اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور ایسا بیٹھے کہ بیٹھے ہی رہ گئے۔ صبح جب سپاہیوں نے اونٹوں کو اٹھانا چاہا تو وہ نہ اٹھ سکے۔ یوں لگتا تھا جیسے کہ ان کے سینے زمین سے چپک گئے ہوں۔ سپاہی بہت حیران ہوئے سب نے مل کر مشورہ کیا کہ کل ہم نے جس فقیر کو یہاں بیٹھنے نہ دیا تھا شاید اسی کی بددعا لگ گئی ہے۔ وہ سب کے سب حضرت خواجہ کے پاس آئے اور معافی طلب کی۔ آپ نے فرمایا: ’’جاؤ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے تمہارے اونٹوں کے اٹھنے کا حکم ہو چکا ہے۔ ‘‘ جب وہ لوگ اس جگہ پہنچے جہاں اونٹ بیٹھے تھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ تمام اونٹ کھڑے ہو چکے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئے۔ 
رام دیو کا قبولِ اسلام
جب اجمیر شہر میں حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی کرامتوں اور بزرگی کا چرچا ہر طرف ہونے لگا تو لوگ مسلمان ہوتے گئے۔ آپ کی خاموش اور پُر اثر تبلیغ کا اثر ایسا ہوا کہ یہاں کے متعصب ہندو پریشان ہو کر آپ کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرنے لگے، لیکن ان کا ہر وار ناکام ہی رہا۔ اناساگر جس کے گرد ہزاروں بت نصب تھے اور جن پر روزانہ صبح سے شام تک سیکڑوں من تیل اور پھول لوگ آ کر چڑھاتے تھے۔ کثیر تعداد میں لوگوں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔ جب برہمنوں اور پجاریوں نے دیکھا کہ حضرت خواجہ اسی مقام پر قیام پذیر ہیں تو وہ آگ بگولہ ہو گئے۔ ایک روز پنڈتوں کا سردار رام دیو کئی پنڈتوں اور پجاریوں کے ساتھ آپ کے پاس آیا تاکہ آپ کو یہاں سے کسی دوسری جگہ مسکن بنانے کیلئے کہیں، لیکن جوں ہی ا ن کی نظر حضرت خواجہ کے پُر جلال اور با رونق چہرے پر پڑی سب کانپنے لگے۔ حضرت خواجہ کی ایک نظر نےبڑے پنڈت رام دیو کے دل کی کیفیت بدل دی، وہ قریب آیا اور حضرت کے ہاتھ پر خلوصِ دل کے ساتھ اسلام کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ 
پجاریوں کا سردار رام دیو جو کہ ایک بڑی جماعت کے ساتھ حضرت خواجہ کو پریشان کرنے کے لیے آیا تھا وہ فضلِ الٰہی اور حضرت خواجہ کی روحانی کرامت سے نہ صرف یہ کہ مسلمان ہو گیا بل کہ حضرت خواجہ کا ایسا جاں نثار غلام اور ساتھی بن گیا کہ شر پسندوں کے پتھر مار مار کر بھگا دیا۔ حضرت خواجہ نے جب رام دیوکی یہ وفاداری دیکھی تو اسے ایک پیالہ پانی عطا فرمایا اور پینے کا حکم دیا۔ پانی پیتے ہیں اس کا دل بالکل صاف و شفاف آئینے کی طرح ہو گیا۔ اس کے قلب و روح میں ایک نئی توانائی عود کر آئی وہ حضرت خواجہ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر مرید بن گیا۔ آپ نے اس کا نام ’شادی دیو‘ رکھا۔ 
جادوگروں کی شکستِ فاش
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی پُر اثر تبلیغ اور کرامتوں سے اجمیر شہر کے باطل مذہب کے پیروکار بتوں کی پوجا چھوڑ کر مسلمان ہونے لگے تو اجمیر کے سرکردہ غیر مسلم ہی نہیں بل کہ خود راجا پرتھوی راج چوہان کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگا۔ چناں چہ اس نے حق و صداقت کی پاکیزہ فضا کو مکدر کرنے اور اور اسلام و ایمان کی آواز کو دبانے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈوں کا استعمال کرنا شروع کیا۔ پرتھوی راج چوہان کے درباریوں کا کہنا تھا کہ یہ بوریہ نشین فقیر شاید کوئی بہت بڑا جادوگر ہے اسلئے اس کے مقابلے کیلئے سلطنت کے تمام جادوگروں کو اکٹھا کرنا بے حد ضروری ہے کہ انہیں کی مدد سے یہ فقیر اس شہر سے بھاگ سکتا ہے۔ راجا نے حکم دیا کہ پوری سلطنت کے سب سے بڑے جادوگر جوگی جَے پال کو اس کے تمام چیلوں اور شاگردوں کے ساتھ اجمیر طلب کیا جائے۔ چناں چہ جوگی جَے پال اپنے ڈیڑھ ہزار شاگردوں کے ساتھ جو کہ جادوگری اور شعبدہ بازی میں بہت زیادہ کمال رکھتے تھے اجمیر میں وارد ہوا۔ اس کی آمد سے راجا پرتھوی راج چوہان اور اس کے درباریوں اور سپاہیوں کے حوصلے بلند ہو گئے۔ جَے پال اپنے ڈیڑھ ہزار شاگردوں اور سلطنت کے ذمہ داروں کے ہمراہ حضرت خواجہ کی قیام گاہ کی طرف بڑے جوش و خروش کے ساتھ بڑھا۔ جب حضر ت خواجہ معین الدین چشتی کو جوگی جَے پال اور اس کے چیلوں کے آنے کی خبر ہوئی تو آپ نے وضو کر کے اپنی مجلس کے گرد اپنے عصا سے ایک حصار بنا دیا اور فرمایا کہ ان شاء اللہ کوئی بھی دشمن اس دائرہ کے اندر داخل نہیں ہوسکے گا۔ 
جے پال اپنے باطل علم پر گھمنڈ کرتے اور اتراتے ہوئے جب قریب پہنچا۔ اس کے شاگردوں میں سے جو بھی دائرۂ حصار میں آیا وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ حضرت خواجہ کی یہ کرامت دیکھ کر وہ سب کے سب وہاں سے بھاگ کر دربار میں واپس چلے گئے۔ 
انا ساگر کا پانی پیالے میں سما گیا
جب حضرت خواجہ کی روحانی قوتوں کے آگے جادوگروں کی ایک نہ چلی تو ان لوگوں نے دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا کہ اناساگر جس سے اجمیر کے لوگ پانی پیتے تھے اس کا پانی حضرت خواجہ اور آپ کے ساتھیوں کیلئے بند کر دیا اور اس کیلئے اناساگر پر سخت پہرہ بٹھا دیا تاکہ حضرت خواجہ کا کوئی بھی ساتھی ایک قطرہ پانی نہ لے سکے۔ جب حضرت خواجہ کو راجا پرتھوی راج چوہان کی اس انتہائی غیر اَخلاقی حرکت کا علم ہوا تو آپ نے بزرگانہ جلال میں آ کر شادی دیو سے کہا کہ جس طرح بھی ممکن ہواناساگر سے ایک پیالہ پانی لاؤ، شادی نے پیالہ لیا اور ہمت و جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سخت پہرے کے درمیان تالاب پر پہنچ کر جوں ہی پیالہ پانی میں ڈالا اناساگر تالاب کا سارا پانی سمٹ کر پیالے میں آ گیا۔ لوگوں نے یہ حیرت ناک منظر دیکھا کہ ابھی تو یہاں پانی موجیں مار رہا تھا اب تو یہ بالکل سوکھ گیا ہے اور یہاں خاک اُڑ رہی ہے۔ شادی دیو پانی سے بھرا ہوا پیالہ لے کر حضرت خواجہ کی خدمت میں پہنچا آپ کے ساتھیوں نے اپنی تمام ضروریات پوری کر لی لیکن پیالے کا پانی ذرا بھی کم نہ ہوا۔ چوں کہ اجمیر کے تمام تر باشندے اسی انا ساگر سے پانی لیا کرتے تھے اسلئے جب انا ساگر سوکھ گیا تو لوگ بے حد پریشان ہو گئے۔ جَے پال نے جب یہ دیکھا تو دائرۂ حصار کے قریب آیا اور کہا کہ اے فقیر لوگ پیاس کی شدت سے مرنے پر آ چکے ہیں، تم خود کو فقیر کہتے ہو فقیر کو رحم دل ہونا چاہئے نہ کہ ظالم دریا دلی کا تقاضا یہی ہے کہ لوگوں کو پانی دے دو۔ حضرت خواجہ نے جَے پال کی عرض سن کر شادی دیو کو حکم دیا کہ جاؤ اور انا ساگر کے جس مقام سے پانی لائے ہو وہیں پانی ڈال دو۔ شادی نے جیسے ہی پیالہ انڈیلا دوبارہ اناساگر میں لہریں اٹھنے لگیں۔ 
جوگی جَے پال کی جادوگری
جوگی جَے پال اور اس کے ساتھیوں نے کچھ دن آرام سے بیٹھنے کے بعد دوبارہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف ان کی دانست میں پہلے سے بھی سخت جادوگری کے کرشمے دکھانا شروع کیا۔ 
پہاڑوں کی طرف سے جادو کے زور سے ہزاروں کالے سانپ نکال کر حضرت خواجہ کی طرف بڑھایا لیکن جب سانپوں کا یہ لشکر آپ کے قریب پہنچا تو حصار کی لکیر پر سر رکھ کر ایک ایک سانپ بے دم ہو گئے۔ جب یہ جادو بری طرح ناکام ہو گیا تو جوگی جَے پال نے خود پنجہ آزمائی کا آغاز کیا اور اپنے فنِ جادوگری کے زور سے آگ کی بارش برسانے لگا۔ ہر طرف انگاروں کے ڈھیر لگ گئے، ہزاروں درخت جل کر راکھ ہو گئے مگر دائرۂ حصار اور اس کی فضا کا آگ کچھ بھی نہ بگاڑ سکی۔ 
جب جادو کی آگ سے بھی حضرت خواجہ اور ان کے ماننے والوں کا کچھ بھی نقصان نہیں ہوا تو جَے پال نے حضرت خواجہ سے کہا کہ’’ اب میرا اور تمہارا مقابلہ باقی ہے بہتر ہے کہ تم فوراً اجمیر چھوڑ دو ورنہ میں آسمان پر جا کر تمہارے سروں پر اس قدر بلائیں برساؤں گا کہ تمہاراسنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔ ‘‘ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ’’ تو زمین پر رہ کر ہمارا مقابلہ نہیں کرسکا اور زمین پر تیرا وار ناکام ہی رہا تو آسمان پر اُڑ کر بھی تو کیا کرسکے گا؟‘‘
جوگی جَے پال نے ہرن کی کھال ہوا میں پھینکی اور اچھل کر اس پر سوار ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ فضا میں اڑنے لگا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ لوگ حیران تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے ؟ حضرت خواجہ نے جَے پال کی یہ جادوگری اور لوگوں کا حیرت و استعجاب دیکھا تو اپنی کھڑاؤں کو حکم دیا کہ جاؤ اور مغرور جَے پال کو سزا دیتے ہوئے نیچے لے آؤ۔ یہ فرمان سنتے ہی کھڑاؤں ہوا میں اڑتے ہوئے نگاہوں سے غائب ہو گئی۔ چند لمحوں بعد لوگوں نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ حضرت کی نعلین جَے پال کے سر پر بُری طرح مارتے ہوئے اسے حضرت خواجہ کے قدموں کے پاس لے آئی۔ 
جوگی جَے پال کا قبولِ اسلام
حضرت خواجہ ؒ کی کھڑاؤں کی مار سے جوگی جَے پال کا غرور و گھمنڈ اور تکبر و خود سری سب ایک ہی لمحے کے اندر خاک میں مل گیا۔ روحانی صداقت و طاقت کے سامنے جادوگری کے تمام حربے بُری طرح ناکام ہو گئے۔ جوگی جَے پال کو معلوم ہو گیا کہ یہ بوریہ نشین فقیر کوئی جادوگر نہیں، بلکہ روحانیت و عرفانیت کی لازوال قوت و طاقت کا مالک اللہ کا نیک بندہ ہے کہ اس کے حکم سے اس کے پیروں کی کھڑاؤں جب ہوا میں اڑ کر مجھ جیسے بڑے جادوگر کو سزا دیتے ہوئے نیچے لاسکتی ہے۔ جوگی جَے پال کے دماغ میں سوار جادوگری کا تمام نشہ ہرن ہو گیا۔ اس کے دل سے بھی کفر و شرک کے پردے اٹھنے لگے، اس نے اپنا سر حضرت خواجہ کے قدموں میں رکھ دیا اور خلوص کے ساتھ اسلام قبول کر کے حضرت خواجہ کی غلامی میں داخل ہو گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے عرض کی کہ حضور دعا فرمائیے کہ میں اَمر ہو جاؤں یعنی تا قیامت زندہ رہوں، حضرت نے دعا فرمائی، الٰہی! اس بندے کی دعا قبول فرما، جب حضرت پر دعا کی قبولیت کے آثار نمایاں ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا تو نے ہمیشہ کی زندگی پالی مگر لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ یہ روایت بے حد مشہور و معروف ہے کہ جوگی جَے پال اب تک اجمیر کے پہاڑوں میں رہتا ہے جومسافر راستہ بھٹک جاتا ہے اس کی رہبری کرتا ہے ہر شبِ جمعہ کو روضۂ خواجہ کی زیارت کا شرَف حاصل کرتا ہے۔ حضرت خواجہ نے اس کا نام ’عبداللہ ‘رکھا تھا۔ ( خزینۃ الاصفیاء ج ۲ ص ۲۶۲)
جب پرتھوی راج نے جوگی جَے پال اور اس کے چیلوں کی شکستِ فاش دیکھی تو بہت گھبرا گیا۔ اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ محل میں واپس آیا۔ جب رائے پتھورا کی ماں کو حضرت خواجہ کی اجمیر میں آمد، اونٹوں کے بیٹھے رہ جانے، انا ساگر کے سوکھ جانے، جوگی جَے پال کے جادو کی ناکامی اور اس کے اسلام لے آنے جیسے واقعات کا علم ہوا تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس کی خبر میں نے علمِ نجوم سے تجھے بارہ سال پہلے ہی دے دی تھی۔ اب تم اس سے کوئی مقابلہ نہ کرنا کہ اس سے جنگ و جدال نقصان سے خالی نہ ہو گی، بلکہ اس کی تعظیم و توقیر کرنا۔ 
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے حُسنِ اَخلاق، مؤثر کرامات اور باطنی تصرفات نے اجمیر شہر کے لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا دیا۔ عوا م و خواص کی ایک بڑی تعداد بت پرستی اور کفر و شرک سے توبہ کر کے مشرف بہ اسلام ہو گئی۔ حضرت خواجہ کے مریدوں اور عقیدت مندوں کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی تو اناساگر کے پاس کی جگہ ناکافی ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے اجمیر شہر میں قیام کرنے کا ارادہ کیا۔ اور اپنے تمام ساتھیوں کے ہمراہ شہر اجمیر میں اس مقام پر مستقل سکونت اختیار فرمائی جہاں اس وقت درگاہ شریف ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK