• Sun, 13 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

گھاٹکوپر ہورڈنگ حادثہ غیر قانونی ہورڈنگز پرمعاملہ صرف نوٹس بھیجنےاورخط وکتابت تک محدودکیوں؟

Updated: May 20, 2024, 4:37 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

گزشتہ پیر کوممبئی میں شام ۴؍ بجے کےقریب تیز  ہواؤں کے ساتھ ہوئی بارش میں گھاٹکوپر کے ایک پیٹرول پمپ پر آویزاں جو قدآدم ہورڈنگ گرا، اس نے ہلاکت خیز ی کے کئی نشانات چھوڑے۔

At least 16 people have died in this hoarding accident. Photo: INN
اس ہورڈنگ حادثے میں کم ا ز کم ۱۶؍ افراد کی موت ہوگئی ہے۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ پیر کوممبئی میں شام ۴؍ بجے کےقریب تیز  ہواؤں کے ساتھ ہوئی بارش میں گھاٹکوپر کے ایک پیٹرول پمپ پر آویزاں جو قدآدم ہورڈنگ گرا، اس نے ہلاکت خیز ی کے کئی نشانات چھوڑے۔ بی ایم سی کمشنر بھوشن گگرانی کے مطابق راحتی آپریشن جمعرات کو مکمل کرلیا گیا لیکن اس حادثے میں پورا پیٹرول پمپ تباہ ہوچکا ہے۔ حادثہ میں پہلے ۱۴ ؍ افرادکی موت ہوئی تھی، دوتین دن بعدایک گاڑی سے مزید دوافرادکی لاشیں برآمد ہوئیں۔ اچانک آن پڑی اس قدرتی آفت کیلئے کسی کو ذمہ دار نہیں قراردیاجاسکتا لیکن ۱۶؍ افراد کی اموات پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ یہ زمانہ اشتہارات کا زمانہ ہے۔ ہر معاملے میں تشہیراو ر اعلانات لازمی جزبن گئے ہیں۔ اپنے پروڈکٹ کی نامور ی اور شہرت کی خاطرآج اشتہار کیلئے جو جدید طریقے رائج ہوچکے ہیں ان میں ہورڈنگزکی اپنی اہمیت ہےلیکن ہر چیزمیں قانونی اور غیر قانونی کا جوپیمانہ ہےاس کا اطلاق یہاں پر بھی ہوتا ہے۔ کسی بھی چیز کے اپنی حدسے باہرجانے پر مسئلہ پیدا ہوتا ہی ہے۔ ممبئی میں ہورڈنگز کی لمبائی اور چوڑائی اور بلندی کی حد مقرر ہے۔ بی ایم سی کی پالیسی اور گائیڈ لائن کے مطابق ساحلی شہر ہونے کے سبب عروس البلاد میں ۴۰؍ بائے ۴۰؍ فٹ کی جسامت کے ہورڈنگز لگائے جا سکتے ہیں۔ ہورڈنگ کی لمبائی ممبئی میں ہواکی رفتار کی بنیاد پر طے کی گئی ہے جبکہ حادثہ کا شکار ہونے والی ہوڈرنگ کا سائز۱۲۰؍ بائے ۱۲۰؍ فٹ تھایعنی ضابطہ کے تحت مقررہ سائز سے تین گنا زیادہ۔ 

یہ بھی پڑھئے:وزیراعظم مودی ہندو مسلم کیوں کررہے ہیں؟

کسی قانون میں اتنی باریکی سے چیزوں کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے، حدود متعین کی جاتی ہیں، ضابطےنافذ کئے جاتے ہیں لیکن جہاں مفاد پرستی اور اشتہاری ذہنیت حاوی ہوتی ہےوہاں قانون کو بالائے طاق رکھنے کے راستے بھی تلاش کرلئے جاتے ہیں اور یہی موجود معاشرہ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اس میں پھرجس کا جتنا اثر ورسوخ ہوگا، اس کیلئےاتنے ہی راستےکھولے جائیں گےیاوہ اتنے ہی راستے اپنے کیلئےکھلوانے میں کامیاب ہوگا۔ یہاں پھر انسانی جانوں کی قیمت نہیں رہ جاتی۔ قیمت بس مفاد کی لگائی جاتی ہے، تشہیر کی لگائی جاتی ہے، امکانا ت کی لگائی جاتی ہے۔ 
 اس حادثہ کے بعدحکومتی سطح پر جو اقدامات دیکھنے میں آرہے ہیں، ان میں کسی اقدام کی اس وقت تک آہٹ بھی نہیں سنائی دے رہی تھی جب یہ ہورڈنگ آویزاں کیاجارہا تھا، کیا جا چکا تھا اورپیٹرول پمپ پر۱۰؍ سال کی لیز پر مکمل نمائش بن کر کھڑا تھا۔ ۱۲۰؍ بائے ۱۲۰؍ فٹ کا یہ ہورڈنگ کیا انتظامیہ کی نظر وں سے اوجھل تھا؟بی ایم سی کمشنر نے کہا ہےکہ ( اس حادثہ کے بعد)وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے شہرومضافات میں اس طرح کے تمام ہوڈرنگ کی جانچ کی ہدایت دی ہے۔ بی ایم سی کمشنربھوشن گگرانی کےمطابق ’’ایسے سبھی ہورڈنگز کیلئے یہ سرٹیفکیٹ درکار ہوتا ہے کہ وہ کتنے مستحکم ہیں۔ جسامت کی جو حدمقرر کی گئی ہے، اس کی پیروی کرنی ہوتی ہےتاکہ ہوا کی رفتار کا سامنا کر سکیں۔ ایسےمزید۳؍ ہورڈنگ ہٹائے جارہے ہیں۔ ‘‘
 ہورڈنگ لگانے والی کمپنی ایگومیڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کے مالک بھاویش بھڑے کے خلاف ممبئی پولیس نے۴؍ دفعات کے تحت کیس درج کیا ہے۔ بھاویش بھڑے حادثے کے بعد فرار ہوگیا تھا، لیکن بعد اسے گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے خلاف ۲۳؍ مجرمانہ معاملات درج ہیں جن میں آبرو ریزی کابھی معاملہ شامل ہے۔ ایسا بھی بتایاجاتا ہےکہ بی ایم سی کی جانب سے ہورڈنگ لگانے والی کمپنی کو کچھ ۲۰؍سےزائدمرتبہ نوٹس بھی دیاگیا اورہر مرتبہ کمپنی نے جرمانہ کی رقم ادا کرکے اپنے بچنے کا راستہ نکال لیا۔ کمپنی کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھاکہ وہ جرمانہ ادا کرکے بچتی لیکن بی ایم سی کے پاس کیا کمائی کا صرف یہی طریقہ بچا ہےکہ وہ کسی غیر قانونی کام پرجرمانہ وصول کرکےخاموش بیٹھ جائےاوراگلی بار جرمانے کیلئے پھر نوٹس جاری کردے!قانون کے خلاف کام پر صرف جرمانہ کی وصولی کا یہ رجحان بھی اسی حقیقت کا اظہار ہےکہ انتظامیہ خودمفاد پرستی کو فروغ دے رہا ہےاور ایسے راستے کھول رہا ہے جہاں قانون کی خلاف ورزی بھی کی جاسکتی ہے اورگرفت سے بھی بچابھی سکتا ہے!
 اس پورے معاملے میں بی ایم سی اورجی آرپی ایف کے درمیان بھی تنازع سامنے آیا ہےکہ کس کی زمین پرہورڈنگ لگائی گئی تھی اور کسے ٹیکس وصول کرنے کا اختیار تھا۔ اس معاملے میں جو رپورٹ جی آرپی نے نائب وزیر اعلیٰ اوروزیرداخلہ دیویندر فرنویس کو سونپی ہے اس کے مطابق اب تک یہی واضح نہیں ہےکہ ہورڈنگ کی اجازت بی ایم سی نے دی تھی یا جی آر پی نے، پھراس بنیاد پرٹیکس کسے وصول کرنا تھا، بی ایم سی کو جی آر پی کو۔ یہ صرف حادثہ کاشکار ہوئی ہورڈنگ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایسی چار ہورڈنگز ہیں جوجی آرپی اور مہاراشٹر اسٹیٹ پولیس ہاؤسنگ اینڈویلفیئرکارپوریشن (ایم ایس پی ایچ ڈبلیو سی)کی زمین پر نصب کی گئی ہیں۔ اس تعلق سے ۲۰۲۱ء میں ایگو میڈیاکوجی آر پی کی جانب سے ایک مکتوب دیاگیا تھا جب اس کے کمشنر قیصرخالد تھے۔ اس میں لکھاتھا کہ ان ہورڈنگز کا ٹیکس شہری انتظامیہ کو وصول کرنے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ یہ جی آر پی کی زمین پرکھڑی ہیں اورٹیکس وصولی ریلوے کے قوانین کے مطابق ہوگی۔ یہی بات جی آر پی نے بی ایم سی کو بھی بتائی تھی جب بی ایم سی افسروں نے جی آرپی کو ایک مکتوب بھیج کر سوال کیا تھا کہ اس نے ہورڈنگز کیلئے اجازت کیسے دی ؟ اس تعلق سے ۲۰۲۳ء میں بی ایم سی میں جو داخلی خط وکتابت ہوئی اس سےپتہ چلتا ہےکہ انتظامیہ نے جب پراپرٹی کارڈ چیک کیا تب اسے معلوم ہوا کہ جن زمینوں پر ہورڈنگز لگائی گئی تھیں وہ ایم ایس پی ایچ ڈبلیو سی کی ملکیت تھیں نہ کہ ریلوے کی۔ بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ۳؍ ہورڈنگز کی اجازت تھی، چوتھی غیر قانونی طورپر کھڑی کی گئی تھی اوریہ بات بھی جی آر پی کے علم میں تھی کہ ہورڈنگ کا سائز ۱۲۰؍ بائے ۱۲۰؍ فٹ تھا جو بی ایم سی کی گائیڈ لائن کے خلاف تھا۔ ایگو میڈیا نے اسا ہی قدآدم ہورڈنگ دادر میں بھی نصب کیا ہے جس کےخلاف کارروائی کا آغاز کیاگیا ہے۔ 
  سمجھا جا سکتا ہےکہ یہاں معاملہ صرف نوٹس بھیجنے اور باہمی خط وکتابت تک ہی محدود رہا۔ غیرقانونی ہورڈنگز کی تنصیب روکی نہیں جا سکی اور اس پہلو پر کوئی توجہ نہیں دی گئی مقررہ حد سے زیادہ بلندی حادثہ کا سبب بن سکتی ہے۔ اگرمذکورہ ہورڈنگ ۴۰؍ بائے ۴۰؍ تک محدود ہوتی تو اتنا بڑا حادثہ نہ ہوتا۔ اتنی اموات نہ ہوتیں۔ معاملہ اب ہاتھ سے نکل چکا ہےلیکن یہ سوال اب بھی باقی ہےکہ اس طرح کے معاملات میں آخر کب تک ذمہ داری ایکدوسرے کے سرڈالی جائے گی اورکب تک ایسے ہی انسانی جانوں کاسودا کیا جاتا رہے گا ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK