Inquilab Logo

گوا: ایک رنگارنگ طلسمی سنگم

Updated: December 19, 2022, 2:32 PM IST | Fauziya Rabab | Mumbai

دسمبر ۱۹کو گوا کے یوم آزادی کی مناسبت سے جنوب مغربی ہند کے سواحل میں آباد اس ریاست کی تہذیبی ، ثقافتی ، تایخی اور سیاحتی اہمیت پر ایک معلوماتی تحریر

photo;INN
تصویر :آئی این این

میری پیدائش احمدآباد میں ہوئی۔میری  والدہ اصلاً سیوہارہ  سے تھیں لیکن بعد میں دیوبند آگئی تھیں جبکہ باپ دادا بجنور کے رہنے والے تھے۔ میں بھی بجنور ہی بیاہی گئی لیکن تبدیلیوں کا طوفان اس قدر شدید ہے کہ اب خاک اپنے خمیر میں کہاں رچتی بستی ہے، بلکہ خاک کے پاؤں تو ہجرتوں کے غبار میں اٹے ہوئے ہیں ،سو ہمارا اگلا ٹھکانہ ۲۰۱۰ء میں گوا ٹھہرا۔گوا جنوب مغربی ہند کے سواحل میں ایک جادوئی جزیرہ ہے، جس نے مجھے موہ لیا۔ 
 تاریخ کے الگ الگ ادوار میں گوا کے الگ الگ نام رہے۔کبھی گومنچلہ تو کبھی گوپاکا پٹّنا، گوپاکا پٹّم، گوپا کاپوری، گوبھاپوری، گوبھم، گومنتک، سندا پور اور مہسّا پٹم وغیرہ۔ یہ کوئی حیرت کی بات بھی نہیں۔اس  لئے کہ نام اور سکہ اسی کا چلتا ہے، جس کے ہاتھ میں اقتدار ہو۔ گوا میں ہمیں ’راک آرٹ‘ کی شکل میں پتھر کے دور کے آثار بھی ملتے ہیں۔تیسری صدی قبل مسیح میں گوا موریہ سلطنت میں شامل تھا۔پہلی صدی عیسوی میں کولہا پوری ستواہانا خاندان کی حکمرانی رہی۔پھر  چالوکیہ سلاطین کے زیر نگیں آگیا۔پھر  ۱۴؍ویںاور۱۵؍ویں صدی میں کبھی دلی سلطنت، کبھی بہمنی سلطنت اور کبھی بیجاپوری بادشاہ عادل شاہ نے گوا کو فتح کیا۔ ۱۵۱۰ء میں گوا کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کا  انقلاب آفریں موڑآیاجب  یہ پرتگالیوں کے زیر تسلط چلاگیا۔ دیگر نوآبادیاتی طاقتوں کی طرح  انہوں نے بھی منظم حملہ کرکے مغلوں کو شکست دی اور گوا کو باقاعدہ اپنی کالونی بنالیا۔ چنانچہ گوا کے مقامی باشندوں پرپرتگالی استعماری اثرات بہت گہر طور پر مرتب ہوئے۔اس کے نقوش اتنے اندر تک مرتسم ہوگئے کہ آج بھی پرتگالی تہذیب و ثقافت گوا پر غالب محسوس ہوتی ہے۔ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں گوا کا معاملہ اس  لئے  مختلف ہے کہ پورا ہندوستان برطانوی استعمار  سے ۱۹۴۷ء میں آزاد ہوا لیکن گوا  ۱۹ دسمبر ۱۹۶۱ء کو پرتگالیوں سے آزاد ہوکر ہندوستان میں شامل  ہوا جبکہ اسے باقاعدہ ریاست کا درجہ مئی ۱۹۸۷ء میں ملا ۔گوا کی تاریخ نظر میں رکھیے اور پھر اس کا نقشہ دیکھیے تو اس مٹی کی بو باس سمجھ میں آتی ہے۔
 یہ علاقہ جغرافیائی طور پر کوکن سے وابستہ ہے۔اس کی سرحدیں مہاراشٹر، کرناٹک اور بحر ہند سے متصل ہیں۔دکن کے پٹھار اور سمندری سواحل نے گوا کو ایک الگ شکل عطا کی ہے۔ گوا کا سب سے زیادہ روشن امتیاز یہ ہے کہ یہ علاقہ کثرتوں اور رنگارنگیوں کا ایک طلسمی سنگم ہے۔ جزیرے، پہاڑیاں، سمندر، میدانی علاقے، حد نگاہ تک ناریل کے پیڑوں کا سلسلہ، رم جھم بارش اور نمی آلود ہوا، پھر اس پہ کوکنی، مراٹھی،انگریزی، تلگو،گجراتی، ہندی زبانیں بولنے والی قومیں۔عیسائی، ہندو،پارسی، مسلم، جین، بودھ اور سکھ مذاہب کے لوگ اور پھر اسی سنگم سے پھوٹنے والی تہذیب گوا کو ہندوستان کے دیگر مقامات سے ممیز کرتی ہے۔مولیم اور انموڈ نامی قدیم ترین پٹھاروں نے گوا کو اور زیادہ خوب صورت بنادیا ہے۔دور تک تاحد نگاہ سفید ریت کے سواحلِ سمندر کا نظارہ  الگ رومانوی دنیا میں لے جاتا ہے۔
  گوا، سمندر، سیاحت اور رومان، میرے تصور کی لغت میں یہ چاروں الفاظ ہم معنی ہیں۔ان میں سے کوئی ایک لفظ بھی سنتی ہوں تو بے ساختہ بقیہ تینوں تخیل کے پردے پر رقص کناں ہوجاتے ہیں۔ گوا کے درجنوں سمندری سواحل بین الاقوامی سیاحوں کو اپنی طرف بہا لاتے ہیں۔کولوا، پولولیم، کالنگوٹ، میرامار،باگا، انجنا اور ڈونا پول ایسے طلسماتی ساحل ہیں، جہاں کا صاف شفاف پانی آئینۂ آب دار کو شرماتا ہے۔ان سمندری کناروں پر سیاحوں کے عجیب و غریب دلکش و دلفریب آبی کھیلوں کا منظر کتنا من موہنا اور لبھاؤنا ہوتا ہے۔کہیں ونڈ سرفنگ تو کہیں واٹر اسکیئنگ، کہیں اسکوبا ڈائیونگ تو کہیں پیرا سیلنگ  جیسے دلچسپ کھیلوں سے ان ساحلوں کا ماحول بے حد رومانی ہوجاتا ہے بلکہ ڈونا پول بیچ کو تو عاشقوں کی جنت بھی کہا جاتا ہے۔ ڈونا پول بیچ کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ گوا کی دو مشہور ندیوں زواری اور مانڈوی کا سنگم بحر عرب کے اسی ساحل پر ہوتا ہے۔ گوا کے ان سواحل کی بے پناہ رومان انگیز فضا کے سبب بہت سی بالی وڈ فلموں کی شوٹنگ بھی یہیں ہوا کرتی ہے۔سیاحوں کے لئے ڈونا پول بیچ سے قریب کچھ اور اہم سیاحتی مقامات ہیں،مثلاً نیشنل اوشینوگرافی انسٹی ٹیوٹ، کابو راج نواس، سالم علی برڈ سینکچویری اور ریس ماگوس چرچ وغیرہ۔
 گوا کی سیر کیلئے لطف انگیز موسم نومبر تا فروری ہے۔اس کے علاوہ ایام میں شدید رطوبت زدہ گرمی پڑتی ہے یا موسلا دھار بارش ہوتی رہتی ہے۔ یہاں کا موسم واقعی معشوق صفت ہےیعنی محبوب کی طرح اس کا بھی کچھ بھروسہ نہیں کہ کب اچانک تیز بارش ہونے لگے اور کب شدید گرمی پڑنے لگے۔یہاں کا موسم ہندوستان کے دیگر مقامات سے مختلف بھی ہے۔ماکولات و مشروبات میں ناریل، کاجو، کاجو مصالحہ، کاجو فینی، چاول، گنا، انناس، آم اور کیلا یہاں کی خاص پیداوار ہے۔ یہاں کے لوگ چاول اور مچھلی بہت پسند کرتے ہیں جبکہ جھینگے اور مچھلی کا سالن یہاں کی مقبول ڈش ہے۔یہاں کا آرٹ، تیوہار، فنِ تعمیر اور ثقافتی مظاہرے دیکھیے تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مشرق و مغرب کا ایسا سنگم ہندوستان میں کہیں اور نظر نہیں آتا۔ آرٹ میں دکنی، فگدی، کوری ڈنہو اور مانڈو بہت مشہور ہیں۔تیوہاروں میں کرسمس، ایسٹر، کارنیول، دیوالی، شیگمو، چاوتھ اور دسہرہ دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ان مواقع پر پورا گوا جاگ اٹھتا ہے۔تمام رنگ، روشنی، خوشبواور ذائقے بیدار ہوجاتے ہیں۔طرزِ تعمیر میں عثمانیوں اور پرتگالیوں کا عجیب لیکن خوش آہنگ امتزاج نظر آتا ہے۔یہاں کے قدیم چرچ اور مندر اپنے فنِ تعمیر کے نہایت اعلیٰ نمونے ہیںلیکن سچ تو یہ ہے کہ گلوبلائزیشن نے ساری دنیا کو تقریباً ایک ہی رنگ میں رنگ دیا ہے۔گوا چونکہ بنیادی طور پر ایک خوب صورت سیاحتی ریاست ہے، لہٰذا یہاں گلوبلائزیشن کا تسلط بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔اس نے یہاں کی مقامیت کو تاراج کردیا ہے۔
 گوا کی ایک امتیازی حیثیت یہ بھی ہے کہ شاید ہندوستان میں جدید عصری اور مغربی علوم وفنون کے ادارے سب سے پہلے یہیں قائم کئے گئے۔مثلاً۱۵۴۲ء میں پرتگالیوں نے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالی جہاں ہندوستان کے پہلے پرنٹنگ پریس کی داغ بیل پڑی اور وہیں سے ۱۵۵۶ء  میں ہندوستان کی پہلی کتاب بھی شائع ہوئی۔یہاں کا بیکری نظام بہت مستحکم ہے۔یہاں کا پاؤ مشہور ہے۔اگر گلی میں پرانے دور کے انداز کا بھونپو بجنے لگے تو سمجھ جائیں کہ پاؤ بیچنے والا آیا ہے۔لوگوں میں سادگی  ہے تصنع نہیں ہے۔لوگ  پڑھے لکھے ہیں لیکن کاروباری ذہن بالکل نہیں ہے۔مقامی لوگوں کے پاس جائیدادیں بہت ہیں۔مقامی لوگ کاشتکاری کرنا اور سرکاری نوکری پسند کرتے ہیں۔ نتیجتاً یہاں کے کاروبار میں زیادہ تر گجرات، مہارشٹر اور کرناٹک کے لوگ حاوی نظر آتے ہیں۔لوگ یا تو اعلیٰ طبقے سے ہیں یا اعلیٰ متوسط ہیں۔ یہاں غربت برائے نام ہے۔لوگوں کا مزاج اپنے کام سے کام رکھنے والا ہے۔ وہ کسی کے معاملے میں بیجا دخل نہیں دیتے۔ عیسائیوں کی اکثریت ہے۔  یہاں مشنری اسکول  کافی تعداد میں ہے اور معیاری بھی ہیں۔یہاں کے لوگ طبعاً ایمان دار، دیانت دار اور مذہب پسند  ہیں۔ ساتھ ہی ان میں شائستگی کا عنصر بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کیوں کہ گوا کا کوئی بھی مقامی باشندہ چیختا، چلاتا اور غصے میں نظر نہیں آئے گا۔یہاں اگر کسی کے پاس ذاتی سواری نہ ہو تو پریشانی ہوتی ہے کیوں کہ  ہرجگہ رکشہ، یا ٹیکسی نہیں ملتی بلکہ مخصوص اسٹینڈ پر ہی اس کی سہولت ہوتی ہے۔ یہاں ٹیکسی کی طرح بائیک بھی کرائے پہ ملتی ہے جسے پائلٹ کہتے ہیں۔
 گوا میں اردوداں طبقہ فی الحال محدود ہے۔فقط مدرسوں میں یا مقامی مسلم  آبادی میں اردو بولی جاتی ہے اوران کی تعداد بھی کم ہے۔یہاں میرے علاوہ شاعر صرف ایک  ہیں اور وہ بھی گمنام ہیں۔ویسے  یہ حقیقت ہے کہ گوا میںاردو زبان و ادب کے حوالے سے امکانات بہت روشن ہیں ۔یہاں اس کی فضا سازی پر توجہ دی جارہی ہے ۔ اسکولوں میں پانچویں تک تو  اردو تعلیم کی سہولت ہے لیکن اس کے بعد اردو پڑھانے کا انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی یہاں اردو نصاب کی کتابیں بھی مہیا کروانے کی ضرورت ہے۔ اس جانب قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان اور اہلِ اردو اگرتوجہ دیں تو گوا میں اردو کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔

goa Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK