جب تک یہ دنیا قائم ہے رمضان کو تو آنا ہے، رمضان ہر سال آئے گا اور بڑی آن بان سے آئے گا، بڑی شان سے آئے گا اور روزہ رکھنے والے روزہ رکھیں گے، تراویح ہوگی، مسجدیں آباد ہوں گی ، مگر مسئلہ یہ ہے اور سوال یہ ہے کہ ہم بھی ہونگے یا نہ ہونگے؟ اور ہوں گے تو کس حال میں ہونگے؟
روزہ اور افطار سب آئندہ بھی ہوگا مگر کیا ہم ہوں گے؟
ساری دُنیا میں اور جس جگہ بھی آج مسلمان بھائی ہوں گے جو پہلے جمعہ کو بھی تھے، تو اس پر ہم لوگوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی تھی، مبارک ہو کہ اللہ نے رمضان پھر نصیب فرمایا ، اگر ہم کو اس سے پہلے اٹھالیا ہوتا ، دُنیا سے یا کسی اور طریقہ سے مفلوج کردیا ہوتا یا معذور کردیا ہوتا تو جیتے جی بھی ہمیں رمضان میں کوئی مزہ نہ آتا، کوئی فائدہ اس سے ہم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حالت میں، عقل و شعور کی حالت میں، صحت و تندرستی کی حالت میں، امن و امان کی حالت میں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمان و توفیق کی حالت میں رمضان نصیب فرمایا۔ ایک دن وہ تھا کہ ہم نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی تھی، بھئی ! مبارک ہو ، اللہ نے رمضان پھر نصیب فرمایا، اور آج وہ دن ہے کہ ہم ایک دوسرے سے تعزیت کرتے ہیں، ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور رمضان کو آج ہم گویا الوداع کہہ رہے ہیں، گو اب وہ دنیاسے جا رہا ہے، اب کس کو معلوم ، خود کی خبر نہیں، ایک دوسرے کی خبر نہیں، آج کل کیا، پل کی بھی خبر نہیں۔ رمضان تو آئے گا جب تک اللہ کو منظور ہے ، جب تک یہ دنیا قائم ہے رمضان کو تو آنا ہے، رمضان ہر سال آئے گا اور بڑی آن بان سے آئے گا، بڑی شان سے آئے گا اور روزہ رکھنے والے روزہ رکھیں گے، تراویح ہوگی، مسجدیں آباد ہوں گی، لیکن مسئلہ یہ ہے، سوال یہ ہے کہ ہم بھی ہوں گے یا نہیں ہوں گے؟ اور ہوں گے تو کس حال میں ہوں گے؟ اس لئے بھائی! یہ رمضان جو اس سال اللہ نے ہمیں عطا فرمایا، یہ بہت بڑی نعمت تھی ، اس کے آنے پر خوشی، اس کے جانے پر رنج قدرتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جشن منائیں۔ لوگوں نے رمضان کے رخصت کرنے کو بھی جشن بنالیا ہے، اس کو بھی بڑی رونق کے ساتھ، بڑی دھوم دھام کے ساتھ رخصت کرتے ہیں، یعنی جمعۃ الوداع کی نماز بڑے بڑے شہروں میں اس طرح ہوتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت بڑا میلہ ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک بہت بڑا تہوار ہے، حالانکہ رمضان کا تو حق یہ تھا کہ جتنا وقت ملے وہ تنہائی میں مسجد کے کونے میں گزارے اور اللہ اللہ کرے ، اور رمضان کا تھوڑا سا وقت جو رہ گیا ہے اس کو تلاوت میں گزارے، آنسو بہانے میں گزارے۔ آنسو اس طرح تھوڑی بہائے جاتے ہیں کہ پوری دنیا کو بلایا جائے کہ آؤ دیکھو! ہمارے آنسو دیکھو! کس طرح ہم اپنے دوست کو ، اپنے عزیز کو رخصت کرتے ہیں اس کا منظر دیکھو۔
کھانے پینے کا وقت تو نہیں ہوتا مگر بہت سے لوگ کسی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے، مثلاً دہلی جانا ہے، وہاں بھیڑ بھاڑ بہت ہوگی اور بڑی مشکل سے جگہ ملے گی، اور دھکے کھانا پڑیں گے ، اس لئے روزہ تو بہت مشکل ہے، روزہ نہیں رکھتے ، یہ بھی شیطان نے ایک پٹی پڑھائی ہے۔
کوتاہیوں پر ندامت
عزیز بھائیو! اب اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ جیسے سوگ منایا جاتا ہے ہم سوگ منائیں اور الوداع، الوداع ایک ہزار بار بھی کہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ تو عزیز مہمان اب رخصت ہورہا ہے، جو کچھ ہوا اس پر اللہ کا شکر کریں، جو کچھ باقی ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور جو کوتاہیاں ہوئی ہیں اس پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور ندامت کا اظہار کریں۔
اللہ تعالیٰ کے یہاں جو چیز کسی چیز کو سب سے زیادہ قیمتی بناتی ہے اور جو کچھ خامی اور کور کسر کو پورا کرتی ہے، وہ ندامت ہے۔ بچوں کو دیکھئے کہ وہ شرارت کر بیٹھتے ہیں، شوخی کر بیٹھتے ہیں، غلط کام کر بیٹھتے ہیں، لیکن مارنے کے لئے ہاتھ اٹھائیے اور وہ ایک دم سے بلبلا کر رونے لگتے ہیں تو محبت آجاتی ہے۔
تو یہ روزے ہی کیا رکھے تھے ہم نے، جیسے ہم ویسے ہمارے روزے، اس کو ہم اس طرح رخصت کریں کہ ہمارا دل گواہی دے، زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں، کہ ہم سے کچھ نہیں ہوسکا اور ہم نہ اس رمضان کے قابل تھے اور نہ ان روزوں کے قابل تھے اور نہ ہمارا منہ تھا، اللہ نے ہمیں نصیب فرمایا ۔ ہم اقرار کرتے ہیں کہ ہم سے کوئی قدر نہیں ہوسکی۔
اگر آپ کے یہاں بادشاہ آجائے تو آپ سب کچھ اس کی خاطر کریں اور چلتے وقت یہ کہہ دیں کہ دیکھئے حضور! کیسی آپ کی خاطر ہوئی؟ ایسی خاطر آپ کی کہیں ہوئی تھی؟ آج آپ کو مزہ آیا ہوگا! بادشاہ طمانچہ دے مارے گا اور بڑی توہین سمجھے گا، اور جو کچھ اس کے ساتھ ہوں گے فوج پیادے اور سپاہی وہ شاید آپ کی گردن ہی ناپ لیں۔ لیکن اگر آپ سے کچھ نہ ہوسکے ، دال روٹی بھی بمشکل ہوسکے لیکن چلتے وقت آپ ہاتھ جوڑ کر کہیں کہ حضور! کہاں ہمارا غریب خانہ اور کہاں سرکار کے قدم! حضور کی ذرہ نوازی، قصر معلی سے آپ اس خستہ مکان میں آئے، یہ تو حضور نے ہمارا اعزاز بڑھانے کے لئے اور ہمیں عزت بخشنے کے لئے سب کچھ کیا، حضور! ہم کر ہی کیا سکتے تھے۔ ایسا کہیں گے تب وہ جا کر آپ کی تعریف کریگا اور خوش خوش ہو گا ۔ کہے گا: وہ کھلا دیتا ہے تو کیا ہیرے جواہرات کھلاتا؟ ہمارے یہاں کیا کمی تھی؟ واقعی اس نے ہمارا دل خوش کردیا اور پھر ممکن ہے وہ آپ کو اپنے محل میں بلائے اور ممکن ہے کوئی بڑا عہدہ آپ کو دے ۔ بس یہ آدمی ہے ، یہ اپنی حیثیت سمجھتا ہے، یہ اتراتا نہیں، اس کو غرور نہیں۔
تو بھئی! اب تو یہی ہے کہ بادشاہ ہمارے گھر آیا تھا، بادشاہ اب جارہا ہے اور اس شہنشاہ اعظم کا فرستادہ، اس کا بڑا عزیز، اللہ تو اس کو بڑا عزیز کہتا ہے، الصوم لی وانا اجزی بہ کہ تمام عبادتیں اپنے اپنے لئے بڑے فائدے کی ہیں لیکن روزہ تو خاص میرا ہے۔ جس کو وہ اپنا کہے وہ ہمارے گھر آیا تھا۔ ہمارے گھر آکر اس نے کیا پایا؟ گھر آکر اس کی کیا خاطر ہوئی؟ نہ ہم سے اس کے روزے رکھے گئے، نہ ٹھیک سے نمازیں پڑھیں؟ کیا بغیر اِدھر اُدھر کے خیالات کے قرآن مجید کی تلاوت کی؟ کیا ہم نے واقعی چھپا کر اللہ کے کسی بندہ کو اس طرح کچھ دیا کہ کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہوئی؟ کیا ہم نے کسی ایسے آدمی کا پیٹ بھرا کہ جو روٹی کے ایک ٹکڑے کو ترستا تھا اورہماری وجہ سے اس کا پورا رمضان آرام کے ساتھ گزرا؟ کون سا کام ہے جو ہم نے کیا؟ کیا رات ہم نے تڑپتے، بلکتے اور بلبلاتے ہوئے گزاری؟ کون سی چیز ہم پیش کرسکتے ہیں؟ پیش کرنے کو ہمارے پاس کچھ نہیں! ہاں یہی آنسو ہیں اور یہی ندامت ہے۔ آنسو اختیاری نہیں ہیں، آنسو جو کبھی نکلتے ہیں اور کبھی نہیں نکلتے، وہ تو ایک دلیل ہے، اصل چیز نہیں۔ اصل چیز کیا ہے؟ اصل چیز دل کی کیفیت ہے۔ اگر آپ کے دل کی گہرائی میں یہ بات ہے کہ ہم سے کچھ نہیں ہوسکا تو اللہ تعالیٰ کو آپ کی یہ ادا بہت پسند آئے گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ میں ٹوٹے ہوئے دل والوں کے پاس ہوں۔
ہم تجھے کہاں تلاش کریں؟
کسی نے کہا: پروردگار! ہم تجھے کہاں تلاش کریں، ہم غریب، ہم مٹی کے بنے ہوئے، ہم گندے انسان اور تو ایسا عالیشان، ہم تجھے کہاں تلاش کریں؟ تو فرمایا: اگر مجھے تلاش کرنا ہو تو ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس ، شکستہ دلوں کے پاس تلاش کرو، تو اگر ہم شکستہ دل ہیں، ہم سے کچھ نہیں ہوسکا اور ایک آنسو بھی آجائے ہماری آنکھ میں، اور آنکھ ذرا تر ہوجائے، ہمارے اوپر واقعی عجز اور اعتراف کی کیفیت طاری ہوجائے تو سبحان اللہ!
بات یہ ہے کہ جو اَب تھوڑا سا وقت ہے یہ استغفار اور ندامت میں گزاریں اور اپنی کوتاہیاں یاد کریں کہ کوتاہیاں ہماری سب کھلی ہوئی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا، کون سی نماز ہم نے ایسی پڑھی کہ خدا کے حضور میں پیش کرنے کے قابل ہو؟ تراویح ہم نے سنی، کوئی کہتا ہے کہ ہم نے پانچ پارے سنے اور کوئی کہتا ہے کہ سات پارے پڑھے، ذرا دل سے پوچھئے ان پاروں میں ہم تھے کہاں؟ کیا ہم نے اس طرح سنا کہ ہمارے کان میں کوئی اور آواز نہیں آرہی تھی اور ہمیں لطف آرہا تھا اور دل یہ چاہ رہا تھا کہ اور پڑھیں؟
اصل روزہ
سب سے پہلے تو ہم اپنا نام پیش کرتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم تو کبھی بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے کوئی تراویح بھی ایسی پڑھی کہ جس میں یہ خیال ہوا ہو کہ ابھی اور پڑھتا، ابھی اور پڑھتا اور دنیا و مافیہا کی بالکل خبر نہ رہی ہو، تو اب جو کچھ وقت ہے وہ اس میں گزاریں ۔ ایک بات اور آپ سے کہنا ہے ، یہ کہ دو رمضان ہیں ، یا یوں کہہ لیجئے کہ دو روزے ہیں۔ ایک روزہ تو وہ ہے جو اَب ختم ہوگیا اور اب اللہ نصیب کرے گا تو اگلے سال آئے گا، وہ روزہ چاند نکلنے سے شروع ہوتا ہے اور چاند نکلنے پر ختم ہوتا ہے، رمضان کا چاند نکلا روزے شروع ہوگئے اور شوال کا چاند نکلا اور روزے ختم ہوگئے۔
دوسرا روزہ جو ہے وہ اصل روزہ ہے اور اسی روزہ کی دین ہے۔ وہ روزہ وہ ہے جو بلوغ سے شروع ہوتا ہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ کلمہ پڑھنے سے شروع ہوتا ہے، اس کا افطار ہے جاں کنی کا وقت۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے دیدار کا شربت پلائے اور جب ’’اے اطمینان پا جانے والے نفس، تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی‘‘ (الفجر: ۲۷۔۲۸) کی صدا کانوں میں آئے کہ ہاں! تم روزہ پورا کر آئے، تم نے اپنا روزہ بالکل صحیح طریقہ پر رکھا، آؤ اب افطار کا سامان ہے، افطاری تیار ہے اور بہت دیر سے منتظر ہے اور اب عید ہی عید ہے ، ہمیشہ کی عید ہے۔
یہ اسلام کا روزہ ہے۔ اس روزہ میں سارے گناہ منع ہیں ۔ اس میں کھانا پینا منع نہیں ، خدا کی نافرمانی منع ہے، شراب، جوا، سود اور جھوٹ، گالی دینا اور دل دکھانا وغیرہ اس کے ممنوعات ہیں ۔اگر اس میں کھانا پینا چھوڑ دے مگر یہ سب کچھ کرلے تو بے کار ہے۔ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس روزہ کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا کرے ۔(آمین)۔
برادران محترم، آج گویا رمضان کا آخری روزہ ہی سمجھ لو۔ جو آج کا وقت ہے اور پھر جمعہ کا مبارک وقت، اس میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں دعا ضرور قبول ہوتی ہے، تو یہ پورا دن ہی ایسا برکت والا ہے۔ رمضان اور پھر رمضان کا جمعہ اور پھر (رمضان کا) آخری جمعہ۔ توبہ کے لئے آج سے بہتر دن نہیں ہوسکتا ۔