Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’الہ آباد فساد کے بعد نعرہ لگا: ’ہریجن مسلم بھائی بھائی، ہندو ذات کہاں سے آئی‘‘

Updated: August 17, 2025, 12:28 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

اندھیری میں قیام پزیر، الہ آباد سے تعلق رکھنے والے عبدل شمیم ۱۹۷۰ء میں تلاش معاش کے سلسلے میں ممبئی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اُس وقت ان کی عمر ۲۰؍ سال تھی۔ یہاں انہوں نے ریڈرڈائجسٹ کے دفتر میں بطور کلرک اپنے کریئر کا آغاز کیا۔

Abdul Shamim Abdul Rahim. Photo: INN.
عبدل شمیم عبدالرحیم۔ تصویر: آئی این این۔

یاری روڈ، اندھیری کے عبدل شمیم عبدالرحیم کی پیدائش ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۵۰ء کو بخشی بازار، الہ آباد میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم نوراللہ روڈ پر واقع دولت حسین انڈین مسلم ہائی اسکول سے ہوئی، یہاں سے آٹھویں پاس کر کے اٹالہ پر واقع مجیدیہ اسلامیہ انٹر کالج میں داخلہ لیا اور انٹر پاس کیا۔ ۲۰؍ سال کی عمرمیں معاش کی تلاش میں ۱۹۷۰ءمیں ممبئی منتقل ہوئے۔ یہاں ان کے ۲؍بڑے بھائی پہلے موجودتھے۔ سب سے پہلے وی ٹی پر ریڈر ڈائجسٹ کے دفتر میں میں بطور کلرک ۶؍مہینے کام کیا، بعدازیں بڑے بھائی، نے انہیں ڈاکیارڈ روڈ پر واقع فرینڈنس بینک میں ملازمت پر لگایا، لیکن یہاں بھی زیادہ دنوں تک کام نہیں کرسکے۔ اس دورمیں روزگار کیلئے خلیجی ممالک جانے کارجحان عام تھا۔ انہوں نے بھی سعودی جانے کا ارادہ کیا۔ ویزاوغیرہ کیلئے کرافورڈ مارکیٹ پر واقع زائرین ٹراویلس کے مالک ذکااللہ صدیقی اور ان کےعزیز عارف بھائی سے مشورہ کیا۔ ان صاحبان نے کہا، یہیں کچھ کرو، کہاں سعودی جارہے ہو؟ ان کےمشورے پر ریکروٹمنٹ ایجنٹ کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور گزشتہ ۴۵؍ سال سے اسی پیشہ سے وابستہ ہیں۔ پیرانہ سالی میں بھی روزانہ اندھیری سےمستان شاپنگ سینٹر (بائیکلہ )آفس جاتےہیں۔ کاروباری مصروفیت کےساتھ سماجی اور سیاسی سرگرمیوں سے بھی شروع سے جڑے رہے۔ الہ آباد کےسینئر لیڈر ہیم وتی نند بہوگنا کو اپنا سیاسی گرومانتے ہیں۔ ملائم سنگھ اور اعظم خان وغیرہ سے بھی قریبی مراسم رہے۔ سماجوادی پارٹی کی ممبئی شاخ میں اعلیٰ عہدے پر بھی کام کر رہ چکےہیں۔ سما جی تنظیم مائناریٹی فورم آف انڈیا سے بھی وابستگی رہی۔ جس دور میں شمیم مجیدیہ اسلامیہ انٹر کالج میں اسٹونٹ یونین کے صدر تھے، اس وقت ’کالج ویک‘ کے عنوان سے ۷؍روزہ فیسٹیول کا انعقاد ہونا تھا۔ ان کا مخالف گروپ اس فیسٹیول کو ناکام بنانے کے درپے تھا۔ ایسے میں شمیم نے پرنسپل ریاض الدین اور پروفیسر اقبال کے سامنے اس سازش کااحوال پیش کیا۔ ان صاحبان نے انہیں مشورہ دیا کہ مخالف گروپ کے اراکین کے ساتھ میٹنگ کریں اور فیسٹیول کی اہم ذمہ داریاں انہیں سونپ دیں۔ شمیم نے ان صاحبان کے مشورے پر ایسا ہی کیا، مخالف گروپ سے گفت وشنید کی اور اہم ذمہ داریاں انہیں سونپنے کے ساتھ تاکید کی کہیں سے کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے ورنہ آپ لوگوں کانام خراب ہوگا۔ یہ فیصلہ کارگر ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے پورا ’کالج ویک‘ خوش اسلوبی سے گزرگیا۔ اساتذہ کی ترکیب کام آئی اور کسی طرح کی بدمزگی نہیں ہوئی۔ 
انہوں نے الہ آباد کمپنی باغ کے کائستھ پاٹھ شالہ انٹر کالج میں بھی ایک سال پڑھائی کی ہے۔ جس کلاس میں وہ پڑھ رہے تھے، وہاں ۵۰؍ میں سے ۴۸؍ طلبہ غیرمسلم تھے لیکن اس وقت قومی یکجہتی، آپسی بھائی چارگی اور مساوات کابول بالاتھا۔ ہندو مسلم کا اتنا زیادہ فرق نہیں تھا بلکہ سب مل جل کر پڑھائی کرتےتھے۔ کالج کے اساتذہ بھی بھیدبھائو سے دور تھے۔ ایک مرتبہ پروفیسر ورما جی نے کلاس کے طلبہ کا تعارفی سیشن رکھا، جس میں طلبہ سے ان کے نام اور سابقہ تعلیمی ادارہ کے بارےمیں جانکاریاں حاصل کی گئیں ۔ ورما جی کے سوال پر شمیم نے اپنا نام بتاکر کہا کہ میں مجیدیہ اسلامیہ انٹرکالج سے آیاہوں، جس پر انہوں نے کہاکہ تمہیں اُس کالج سے یہاں آنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس پر انہوں نے کہاکہ ہواپانی بدلنےکاشوق، یہاں لے آیا، جس پر پوری کلاس قہقہہ زار ہوگئی۔ اس دن سے شمیم اپنی کلاس میں تمام طلبہ کے محبوب ہوگئے۔ کالج کیمپس میں جہاں وہ دکھائی دیتے، طلبہ انہیں پیارسے ہوا پانی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ انہیں چونکہ شعروشاعری کا بھی شوق تھا، اسلئے ان سے مرزا غالب اور علامہ اقبال کے اشعار سنانےکی فرمائش بھی کرتے تھے۔ وہ خوشگوار دن دیکھ چکے شمیم آج کے ماحول سےکافی افسردہ ہیں، فرقہ پرستی کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے، وہ جمہوری ملک کے مستقبل کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ 
۱۶؍مارچ ۱۹۶۸ءکو عین ہولی کےتہوارپر الہ آباد میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فساد کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔ دوپہر کے تقریباً ۱۲؍بجے، وہ روشن باغ پر اپنے دوستوں کے ہمراہ کھیل رہے تھے، اچانک ایک شور اُٹھا۔ اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھ پاتےشرپسندوں نے مسلم علاقوں پر حملہ کردیا۔ مسلمانوں نے بھی جوابی کارروائی کی لیکن کچھ ہی دیر میں پولیس آگئی۔ اس نے آتے ہی اقلیتی علاقوں مثلاً روشن باغ، اٹالہ اور منصور پارک وغیرہ میں گولیاں چلانی شروع کردیں ، جس میں ۲؍نوجوان بری طرح زخمی ہوگئے۔ فساد کے۱۰۔ ۱۵؍دنوں بعد اندراگاندھی نے الہ آباد کا دورہ کیا۔ وہ متاثرہ علاقے سے گزررہی تھیں ، روشن باغ کےقریب مقامی سماجی کارکن برکت اللہ جنہوں نے فساد سے متعلق ایک میمورنڈم تیار کیاتھا، وہ اندراگاندھی کو دینا چاہتے تھے لیکن پولیس نے پورے علاقے کو گھیر رکھاتھا۔ اس کےباوجود جیسے ہی ان کی موٹرگاڑی روشن باغ کےقریب پہنچی، برکت اللہ نےمیمورنڈم کا پلندہ، سڑک پرپھینک کر کہاکہ یہ لیجئے فساد کی روداد.... اور میرا پور، دریاباد کا بھی دورہ ضرورکیجئے جہاں شرپسندوں نے اقلیتوں کوبہت نقصان پہنچایاہے۔ اس کے بعد الہ آباد کے اس وقت کے دانشوروں کی ایک ٹیم جس کی قیادت ڈاکٹر فریدی نے کی تھی، کی سربراہی میں مسلم مجلس کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ ایڈوکیٹ حبیب احمد ایم ایل اے اور دلتوں کے جے پال کشیپ ملاح نے مل کر الیکشن لڑنے کافیصلہ کیا۔ اُس موقع پر ’ہریجن مسلم بھائی بھائی، ہندوذات کہاں سے آئی‘ کے نعرے کے ساتھ دونوں اُمیدوار انتخابی میدان میں اُترے او رکامیاب بھی ہوئے۔ 
شمیم کو کالج کے زمانے ہی سے فلم دیکھنے کاشوق رہا۔ دلیپ کمار ان کے پسندیدہ اداکار تھے۔ ممبئی آنے پر ایک نہیں کئی بار دلیپ کمار سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ایک مرتبہ شمیم کابھتیجا، ناناوتی اسپتال میں زیر علاج تھا، اتفاق سے دلیپ کمار کے بھائی احسان خان اور منوج کمار کے والد بھی وہیں پر زیر علاج تھے، اس موقع پر دلیپ صاحب سے شمیم کی قریبی ملاقات ہوئی۔ سلام دعا کےبعدکچھ دیر تک باتیں بھی ہوئیں۔ کچھ دنوں بعدشمیم کے متعلقین کے گھر کی شادی میں دلیپ کمار اور سائرہ بانو آئے تھے۔ اُس موقع پرشمیم کےبیٹے نے دلیپ صاحب سے آٹو گراف کی درخواست کی تھی جس پر دلیپ صاحب نے کہا کہ یہ محفل آٹو گراف والی نہیں ہے، پھر کبھی....یہ بات سائر ہ بانونے بھی سنی اور بچے کا مایوس چہرہ بھی دیکھا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر بچے کواپنا آٹوگراف دےدیا۔ 
۱۹۷۰ءمیں بہوگنا ایک سیاسی تقریب میں حصہ لینے کیلئے ممبئی آئے تھے۔ شان مکھانند ہال، ماٹونگا میں ان کا پروگرام تھا۔ شمیم کو معلوم ہواتو وہ بھی ملاقات کی غرض سے وہاں پہنچ گئے۔ بہوگناجی اسٹیج پر تھے، ایسے میں شمیم نے ایک رقعہ پر اپنا نام لکھا اور کسی طرح اسٹیج پر پہنچ کر وہ رقعہ ان کے حوالے کردیا۔ وہ رقعہ دیکھتےہی، بہوگنانے کہا کہ بابو شمیم کیسے ہو؟ ممبئی میں کیا کر رہےہو؟اور کتنے دنوں سے ہو؟ اور پھر نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے پرچے کو اپنی جیب میں رکھ لیا۔ کچھ دنوں بعد الہ آباد سے انہوں نے اس رقعہ کاباقاعدہ جواب بھیجا۔ 
۷۰ءکی دہائی میں جب وہ کھار کے جواہر نگر میں رہنے گئے تب ان کی چال میں ان کے سارے ہمسایوں کا تعلق برادران وطن سے تھا۔ ان تمام سے ان کے اچھے مراسم تھے۔ ۱۹۸۴ءمیں ہونےوالے فرقہ وارانہ فساد کےدوران ان کے ہمسایوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیا تھا لیکن بیرونی علاقوں کے شرپسندوں نے زیادہ پریشان کیا تو انہوں نے وہاں سے منتقل ہوجانے میں ہی عافیت سمجھی۔ وہ وہاں سے اپنے بھائی کے گھر ورسوا منتقل ہو رہے تھے، اُس وقت بھی ان کے ایک ہمسائے رنجیت سنگھ عرف مٹھو نے ان کی بڑی مدد کی تھی۔ انہوں نے ان کے گھروالوں کو ٹیکسی میں بٹھا کر خود بائیک پر اپنے کندھے پر لائسنسی بندوق تانے، انہیں پہنچایا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK