Inquilab Logo Happiest Places to Work

الیکشن کمیشن کا طرز ِعمل راہل کے الزامات کی توثیق کررہا ہے

Updated: August 17, 2025, 3:16 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

انتخابی کمیشن کا جوابدہی سے فرار اُس کے اپنےحق میں  ہے نہ حکومت کے اور نہ ہی جمہوریت کے، ایسے میں  اِس کے خلاف مہم کوعوامی تحریک میں  بدلنا ضروری ہوجائیگا۔

Rahul Gandhi has not only put the Election Commission in the dock with his revelations about "vote theft", but has also raised questions about the legitimacy of the Modi government. Photo: INN.
راہل گاندھی نے ’’ووٹ چوری‘‘سے متعلق انکشافات کے ذریعہ الیکشن کمیشن کو ہی کٹہرے میں  کھڑا نہیں  کیا بلکہ مودی حکومت کے جائز ہونے پر بھی سوال قائم کردیاہے۔ تصویر: آئی این این۔

’’ووٹ چوری‘‘ کا جو الزام ۷؍ اگست کی پریس کانفرنس میں راہل گاندھی نےلگایاتھا اور اسے جس طرح سماج کے ایک بڑے طبقے میں قبول عام مل رہا ہے نیزکانگریس جس طرح اس مہم کو دھیرے دھیرے عوامی مہم میں تبدیل کرنے میں  کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں اپنا اعتباربری طرح کھو چکا ہے۔ زمینی صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ الیکشن کمیشن کا دفاع کررہے ہیں، یا جو اس کے ساتھ ہیں، ان میں سے بھی بڑا طبقہ یہ سمجھ رہا ہے کہ چونکہ کمیشن ان کے ساتھ ہے اس لئے اس کا دفاع ان کی ذمہ داری ہے۔ یعنی یہ طبقہ بھی الیکشن کمیشن کی جانبداری کا قائل ہے۔ 
یہ ایک دن میں نہیں ہوگیا بلکہ اس کے پیچھے پوری ایک دہائی میں ہونے والے کئی عوامل ہیں جنہوں نے عوام کو اس جانب سوچنے بلکہ یقین کرنے پر مجبور کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب راہل گاندھی نے پریس کانفرنس کی اور ایک اسمبلی حلقے میں ایک لاکھ سے زائد ’’ووٹ چوری‘‘ کا انکشاف کرتے ہوئے’’شواہد‘‘ پیش کئے تو ایسا لگا جیسے ایک لاوا سا پھٹ پڑا ہے۔ ایک طرف جہاں ملک کی ایک بڑی تعداد کو راہل گاندھی کے انکشافات سے ان کے اپنے شبہات کی تصدیق ہوتی نظر آئی تو وہیں دوسری طرف لوگوں نے ملک بھر کی انتخابی فہرستوں کو کھنگالنا شروع کر دیا۔ اتفاق سے ان میں سے اکثر کو مایوسی نہیں ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ جنہوں نے راہل گاندھی کے انکشافات کی تردید کیلئے یہ عمل کیا وہ بھی انجانےمیں تصدیق ہی کر بیٹھے۔ اس کی سب سے بڑی اور مضحکہ خیز مثال ’’گولی مارو‘‘ کے بدنام زمانہ نعرہ سے پہچانے جانے والےسابق مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر ہیں۔ وہ رائے بریلی، قنوج، وائناڈ اور ڈائمنڈ ہاربرجیسے پارلیمانی حلقوں (جن کو اپوزیشن نےجیتا) میں فرضی ووٹرس کی موجودگی کا دعویٰ کرکے کانگریس پر جوابی حملہ کرنے کی کوشش میں براہ راست الیکشن کمیشن کو ہی نشانہ بنا بیٹھے۔ کانگریس نے بجا طور پر ان کے اسی بیان کی بنیاد پر ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی الیکشن کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جس الیکشن کمیشن نے کرناٹک کی ایک پارلیمانی سیٹ کے صرف ایک اسمبلی حلقے میں ایک لاکھ سے زائد اضافی ووٹرس کے شواہد پیش کرنے پر جواب دینے کے بجائے راہل گاندھی کو نوٹس جاری کر دیا اور حلف نامہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا وہی الیکشن کمیشن ۶؍ پارلیمانی حلقوں (ایک حلقے میں ۵؍ سے۷؍ اسمبلی سیٹیں ہوتی ہیں )کے تعلق سے مرکزی وزیر کے دعویٰ پر نہ کسی ردعمل کا اظہار کرتا ہے نہ ان سے حلف نامہ طلب کرتا ہے۔ 
ملک کے انتخابی نظام پر لب کشائی سے بڑے لیڈر بھلے ہی گریز کرتے رہے ہوں مگر عوامی سطح پر ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی الیکشن کے بعدسے ہی شبہ ظاہر کیا جارہاتھا۔ یکے بعددیگرے اسمبلی انتخابات میں چند ایک ریاستوں کے استثنیٰ کے ساتھ بی جےپی جس طرح ’’غیر مفتوح‘‘ بن کر ابھری اس کی وجہ سے زمینی اور عوامی سطح پر چہ میگوئیاں پہلے ہی شروع ہوگئی تھیں ۔ البتہ لوگوں کا شبہ ای وی ایم پررہا۔ ۲۰۲۳ء کے مدھیہ پردیش کے اسمبلی الیکشن میں شیوراج سنگھ چوہان حکومت کے خلاف واضح عوامی ناراضگی اور راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے مثبت اثرات کے باوجود یہاں جس طرح بی جےپی کی فتح ہوئی اس نے بڑے لیڈران کو بھی چوکنا کردیا۔ ان کے شکوک و شبہات کو مہاراشٹر کے ۲۰۲۴ء کے اسمبلی انتخابات کے نتائج اور الیکشن کمیشن کی حرکتوں نے یقین میں بدل دیا۔ اس طرح پہلی بار توجہ مشین سے ہٹ کر مشنری (الیکشن کمیشن) کی طرف مرکوز ہوئی۔ ۶؍ ماہ کی دقت طلب تحقیق و تجزیہ کے بعد راہل گاندھی نے بنگلور کی مہادیو پورہ اسمبلی حلقے کے تعلق سے جو انکشافات کئے انہوں نے مہاراشٹرا سمبلی الیکشن سے قبل اور لوک سبھا الیکشن کے بعد ۵؍ مہینوں میں ۴۰؍ لاکھ نئے ووٹرس کے اندراج کے معاملے کو تازہ کردیا ہے۔ پارلیمانی الیکشن میں ۴۸؍ میں سے صرف ۱۷؍ سیٹیں جیتنےوالے زعفرانی اتحاد نے جب اسمبلی الیکشن میں غیر معمولی اکثریت حاصل کرلی تو اپوزیشن نے اس جیت کیلئے ان ۴۰؍ لاکھ نئے ووٹرس کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا۔ اسی وقت پہلی بار’’فلوٹنگ ووٹرس‘‘کا مفروضہ بھی سامنے آیا اور یہ شبہ کیا جانے لگا کہ جس ریاست میں الیکشن ہوتا ہے اس ریاست میں دیگر ریاستوں کے بی جےپی حامی بطور ووٹر اپنا اندراج کرواتے ہیں اور اُس کی جیت کو یقینی بنانے کےبعد اُس اگلی ریاست کی طرف کوچ کر جاتے ہیں جہاں اگلا الیکشن ہونا ہوتا ہے۔ اس بیچ چند ایک ریاستوں میں اپوزیشن کو بھی جیتنے کا موقع دے دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ یکطرفہ نہ معلوم ہو اور اگر اپوزیشن واویلا مچائے تو اسے یہ کہہ کر خاموش کیا جاسکے کہ اسی الیکشن کمیشن اوران ہی ووٹنگ مشینوں نے تمہیں فتح بھی تو دلائی ہے۔ 
بہرحال اب جب کہ راہل گاندھی نے آر پار کی لڑائی کا آغاز کردیا ہے الیکشن کمیشن کیلئے ضروری ہے کہ وہ اُلٹا راہل گاندھی سےجواب مانگنے کے بجائے اُن سوالات کے جواب دے جو اس کے تعلق سے قائم ہورہے ہیں۔ جوابدہی سے انتخابی کمیشن کا فرار خود اس کے حق میں  ہے، نہ حکومت کے اور نہ ہی ملک کی جمہوریت کے۔ اگر الیکشن کمیشن جواب نہیں  دیتا اور ’اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘ والی کہاوت پر عمل کرتا رہتا ہے تواس سے نہ صرف کمیشن کی رہی سہی ساکھ بھی متاثر ہوگی بلکہ ۲۰۲۴ء کا پارلیمانی الیکشن اور وزیراعظم مودی کا تیسری بار وزیراعظم بننا ہمیشہ شک کے دائرہ میں  رہےگا۔ 
اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن جواب دینے کے موڈ میں  نہیں  ہے۔ راہل گاندھی کو نوٹس جاری کرنا اور ان سے حلف نامہ دائر کرنے کا مطالبہ کرنا، اس پس منظر میں  کہ مذکورہ نوٹس اور حلف نامہ کے مطالبہ کا اس معاملے میں   اطلاق ہی نہیں  ہوتا، یہ ظاہر کرتاہے کہ واقعی کچھ ایسی چیزیں   ہیں  جن کی کمیشن پردہ پوشی کرنا چاہتا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق راہل گاندھی کو نوٹس الیکشن کمیشن کی قانون کے ساتھ کھلواڑ کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ خود سابق الیکشن کمشنر او پی راوت معروف صحافی کرن تھاپر کے ساتھ گفتگو میں  بہت صاف طور پر کہہ چکے ہیں  کہ جس دفعہ ۲۰(۳) (بی) کے تحت کرناٹک اور مہاراشٹر کے چیف الیکٹورل آفیسرس نے راہل گاندھی سے حلف نامہ داخل کرنے کا مطالبہ کیا ہے وہ ووٹر لسٹ کی نظرثانی کی صورت میں  کسی ووٹر کی جانب سے اپنے تعلق سے کسی دعویٰ کی صورت میں   جاری کیا جاتاہے۔ 
ایسی صورت میں اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا کہ کمیشن پر اٹھنے والے سوالات کے جواب حاصل کرنے کیلئے کانگریس اپنی مہم کو عوامی تحریک میں تبدیل کرے اور حکومت اور کمیشن دونوں  پر دباؤ ڈالے کہ وہ جواب دیں۔ سیاسی طور پر راہل گاندھی نے مہادیو پورہ اسمبلی حلقے میں  ایک لاکھ سے زائد مبینہ فرضی ووٹرس اور کئی ووٹرس کے نام سے ایک سے زائد ووٹ ڈالے جانے کے اپنے طور پر جو شواہد پیش کئے ہیں  ، ان کے ذریعہ انہوں  نے ایک تیر سے ۳؍ کامیاب شکار کئے ہیں۔ ایک طرف جہاں انہوں  نے مودی حکومت کے ہی ’جائز‘ ہونے پر سوالیہ نشان لگادیا ہے وہیں  الیکشن کمیشن کی بھی قلعی کھول دی کہ آئینی ادارہ ہونے کے باوجود اس کی غیر جانبداری مشکوک ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپوزیشن کو متحد اور ’انڈیا‘ اتحاد میں  نئی روح پھونکنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ چوتھا فائدہ انہیں  ملنےوالی عوامی حمایت میں اضافہ اور ووٹنگ کے تعلق سے عام شہریوں   کا پہلے سے زیادہ الرٹ ہوجانا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK