عوام کچھ بھی برداشت کرسکتے ہیں لیکن ’ووٹ چوری ‘نہیں، ایسے میں اپوزیشن کیلئے ضروری ہےکہ احتجاج تک محدود نہ رہے بلکہ پورا مسئلہ عوامی بنانے پر توجہ دے۔
EPAPER
Updated: August 17, 2025, 3:18 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
عوام کچھ بھی برداشت کرسکتے ہیں لیکن ’ووٹ چوری ‘نہیں، ایسے میں اپوزیشن کیلئے ضروری ہےکہ احتجاج تک محدود نہ رہے بلکہ پورا مسئلہ عوامی بنانے پر توجہ دے۔
آزادی کے کم وبیش ۸۰؍ سال بعداگر ملک کے سیاسی حالات اس قدر تبدیل ہوچکے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی اور سب سے قدیم اپوزیشن جماعت کانگریس حکمراں جماعت بی جےپی پر ’ ووٹ چوری ‘کاالزام لگارہی ہےتواس سےدوپہلوسامنے آتے ہیں ۔ پہلا یہ کہ ملک کا عوامی سیاسی شعور اب کسی نتیجہ خیز رخ پر گامزن ہونے کو ہے، دوسرا یہ کہ ملک کے انتخابی نظام میں کوئی بہت بڑی خامی ہے جس کی اصلاح جلد ممکن نہیں۔ ملک کاانتخابی نظام غیر معمولی ہےکیونکہ اس کا تعلق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سےہےجہاں تازہ اعدادوشمار کے مطابق ۹۹ء۱؍ کروڑ رائے دہندگان ہیں۔ ایک ایک ووٹ کی اپنی ا ہمیت ہے۔ ایک ایک ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔ ایک ایک ووٹ سے حکومت گرسکتی ہے، بن سکتی ہے۔ شاید اسی لئےموجودہ حکمراں جماعت کی پوری توجہ اب ووٹروں پر ہےکہ جو بھی نیا ووٹر آئے، وہ حکمراں جماعت کو ووٹ دینے کا ذہن لے کرآئے۔ راہل گاندھی نے ’ووٹ چوری ‘ کے الزامات کے تحت جو انکشافات کئے ہیں ان کی بنیاد پریہ نتیجہ ا خذ نہیں کیاجاسکتا کہ ان سے ووٹ دینے والوں کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔ ہر الیکشن میں ووٹ دینے والے باہرنکلتے ہیں، شام ۵؍ بجے تک ووٹ ڈالتے ہیں، اسکے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے مختلف حلقوں میں اور مجموعی طورپر پولنگ فیصد ظاہر کیاجاتا ہے، انتخابی ملازمین ای وی ایم پیک کرکے اسٹرانگ روم تک پہنچاتے ہیں اورانتخابات مکمل ہوجاتے ہیں۔ بہاراوربنگال کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں یہی سب ہونا ہے لیکن سوال یہ ہے’ ووٹ چوری ‘ کا کیا ہوگا ؟ووٹ چوری اگر ہوئی ہے تو اسے روکا کیسے جائےگا؟
حکومت کی جانب سے لاکھوں نئے ووٹرکم مدت میں جو بڑھائے گئے ہیں، لاکھوں جعلی ووٹروں کا جو معاملہ ہے، ایک ایک پتے پر سیکڑوں رائے دہندگان کی جوتعداد ہے، یہ سب سیاسی طورپر کوئی مسئلہ ہے بھی یا نہیں، اسے بطورمسئلہ دیکھا جانا چاہئے بھی یانہیں، یہ موضوع اہمیت رکھتا ہے۔ اپوزیشن کی نظر میں یہ ’ووٹ چوری‘ ہےلیکن حکومت کے بھی جوابی الزامات ہیں کہ’’ اپوزیشن بنگلہ دیشیوں اور روہنگیا باشندوں کے نام ووٹر لسٹ میں شامل کروارہا ہے۔ ‘‘یعنی رائےدہندگان میں اضافہ کا معاملہ حکومت اپنے طورپر دوطرفہ کرنا چاہتی ہے ۔ کسی ریاست میں اگر اپوزیشن پارٹی برسراقتدار ہےتووہاں حکومت دراندازوں اورغیرقانونی تارکین وطن کے حوالے سے ووٹر لسٹ میں دھاندلی اوربے ضابطگی کے الزامات لگاسکتی ہے۔ جہاں این ڈی اے کی کوئی اتحادی جماعت حکمراں ہےوہاں حکومت کا مقصد ووٹروں کو اپنے حق میں کرنا ہوتا ہےاوراس کیلئے وہ کچھ بھی کرسکتی ہے، مثال کے طورپربہار میں ووٹر لسٹ کی جامع نظرثانی (ایس آئی آر) کے ذریعے جو کیاگیا۔ ا گر اس کے ذریعے ووٹر لسٹ کی اصلاح مقصود تھی تویہ مقصد پورا نہیں ہوسکا۔ زندہ افرادکومردہ قراردےکران کے نام فہرست سے نکال دئیے گئے۔ ایک ایک گھر پر۲۰۰؍ سے ۲۵۰؍ افرادکے نام ووٹر لسٹ میں شامل کئے گئے۔ یعنی اصلاح کے نام پر خرابی ہی سامنے آئی۔
حقیقتاً یہ عمل کوئی ایسا نہیں ہے کہ ایک دویا تین مہینے میں مکمل کر لیا جائے اور پھر اس پر اعتراـض اور نام شامل یا حذف کرنے کرانے کیلئے صرف ایک مہینے کا وقت دیاجائے۔ بہار میں ۷ء۲۴؍ کروڑ ووٹروں نے ایس آئی آر مہم کے دوران فارم بھرا۔ ۶۵؍ لاکھ ووٹروں کے نام کاٹے گئے۔ یہ کروڑوں اور لاکھوں ووٹروں کا نام شامل کرنے اور نکالنے کا کام کیا اتنا آسان اور کم وقت طلب ہےکہ کچھ مہینے میں ہی ہوجائےاوراس کیلئے بھی آدھار کارڈ جیسی بنیادی دستاویز کوناقابل قبول قراردیاجائے اورپوری کارروائی بھی اس وقت کی جائےجبکہ ریاست میں اسمبلی انتخابات کوکچھ مہینے باقی ہوں۔ بہار میں اتنی عجلت کی ضرورت کیا تھی ؟ تیجسوی یادو یہ سوال اٹھا چکے ہیں اور راہل گاندھی اب پورا کچا چٹھا ہی لے کر سامنے آچکےہیں۔
بہار ایس آئی آر کے ذریعے۶۵؍ لاکھ عوام کوجو ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں، فہرست سے نکال دیا گیا اوران میں وہ’ متوفی‘ ووٹر بھی ہیں جن سے راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں ملاقات کی تھی اور طنزاًالیکشن کمیشن کا شکریہ ادا کیاتھا۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ یہ پوری کارروائی کس رخ پر اورکس طرح کی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اعدادوشمار ظاہر کردئیے ہیں لیکن اس نے اس مہم کاطریق کار بتانے سے گریز کیا ہے۔ کچھ تصویریں سامنے آئی ہیں جن میں بوتھ لیول افسران اوررائے دہندگان ٹیبل پر فارم بھرتے ہوئےاوردستاویزات دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ ۸؍ کروڑ کے قریب رائے دہندگان کے ساتھ یہ پوری کارروائی اتنی جلد کرلی گئی جسے حالانکہ ابھی پہلا مرحلہ قراردیاجارہا ہے، پھر ملک بھر میں انتخابی فہرستوں میں خامیوں کو ان ۱۰؍، ۱۱؍ برسوں میں دور کیوں نہیں کیاجا سکا ؟ایس آئی آر کا جو تماشا بہار میں دکھایا گیا، وہ اگر ضروری تھا تو کیا مہاراشٹر ا سمبلی انتخابات میں ضروری نہیں تھا، حالانکہ اس ریاست میں ایس آئی آر یا ایسی کسی مہم کے بغیر ہی چند مہینوں میں لاکھوں ووٹروں کا ا ضافہ کردیاگیا اورلوک سبھا انتخابات کے برعکس اسمبلی انتخابات کے نتائج حکمراں اتحادکے حق میں رہے۔
اس پورے منظر نامےمیں فی الوقت صرف حکومت اور اپوزیشن ہے لیکن اپوزیشن کویہ موقع مل گیا ہےکہ وہ پارلیمنٹ کے باہر حکومت پرپوری طرح حاوی ہوسکتی ہے۔ ’ ووٹ چوری ‘ اپنے آپ میں ایک عجیب اصطلاح ہے۔ اب اگرکسی ریاست کے کسی ضلع کے کسی شہر یا گرام پنچایت کے کسی بوتھ پر ووٹ دینے پہنچے کسی ووٹر کو لسٹ میں اپنا نام نہ ملے تواس کے ذہن میں یہی ’ووٹ چوری‘ کا تصور آئے گااوروہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کی پوزیشن میں ہوگا۔ یہ صورتحال ہرریاست میں نہیں ہے مگر ایس آئی آر کے بعد بہار میں پیدا ہوچکی ہے اور الیکشن کمیشن کا اسے ملک گیر نافذ کرنے کابھی منصوبہ ہے۔ اب اگر یہ شبہ ہےکہ الیکشن کمیشن حکومت کی ایماپریہ مہم ایک سازش کے طورپرچلا رہا ہے توعوام اپنے طورپر آگے بڑھ کربی ایل او یا ا لیکشن کمیشن تک پہنچیں، اپنے ناموں کی جانچ کریں، کچھ تبدیلی یا ترمیم ضروری ہوتو کرائیں، یہ کام الیکشن کمیشن کے دفتر میں سال بھر کیاجاسکتا ہے۔ اس کیلئے کسی مہم کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر عوام اپنے طورپربیداری کا ثبوت دیں گےجس کا وقت اب آچکا ہے، توالیکشن کمیشن کیلئے ایسی کسی مہم کیلئے موقع ہی نہیں رہے گا۔ یہ ہر لحاظ سے عوامی بیداری کا زمانہ ہے اور ووٹ چوری کی حقیقت اس بیداری کی لہر کو مزید مضبوط کرسکتی ہےبشرطیکہ اپوزیشن اسے بھرپور انداز میں عوام سے متعلق کرےیعنی عوامی بنائے ۔ اب حکومت اور الیکشن کمیشن کو چھوڑ دیاجائے اور اس پر اتفاق کرلیاجائے کہ ان سے کوئی توقع نہیں ہے۔ اس ملک میں عوام کچھ بھی برداشت کرسکتے ہیں لیکن ’ووٹ چوری ‘برداشت نہیں کرسکتے۔ اسی بنیادپر ایس آئی آر اوراس کے مضحکہ خیز اعدادوشمار کی پُر زور مخالفت ہندوستانی سیاست کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتی ہے۔