ملک کی تعلیمی صورتحال اور اس کے تئیں سماج کے نام نہاد ذمہ داران کی بے حسی کی عکاسی کرتا ہو ا ایک طنزیہ ڈراما۔
EPAPER
Updated: August 17, 2025, 2:33 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
ملک کی تعلیمی صورتحال اور اس کے تئیں سماج کے نام نہاد ذمہ داران کی بے حسی کی عکاسی کرتا ہو ا ایک طنزیہ ڈراما۔
( پردہ اٹھتا ہے، اسٹیج پر ۱۸؍کُر سیاں لگی ہیں، ہرکُرسی پر ایک شخص براجمان ہے، مسافر ایک ایک کے پاس جاتا ہے۔ شخص اور مسافر لائٹ کے دائرے میں آتے جاتے ہیں )
مسافر: ہیڈ ماسٹر صاحب ! آپ جس اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے وہ اسکول بند ہونے جا رہا ہے۔ کچھ کیجئے ہیڈ ماسٹر صاحب۔
ہیڈ ماسٹر: مَیں اب اُس اسکول سے ریٹائر ہو چکا ہوں، اب مجھے کیا پڑی ہے، اب جو لوگ اُس کے کرتا دھرتا ہیں، وہ سنبھالیں اُس اسکول کو دراصل جس دن میں وہاں سے اپنے پر اویڈنٹ فنڈ اور گریجویٹی کا چیک لے کر نکلا اُس دن کے بعد آج تک اُس اسکول کی سیڑھی نہیں چڑھا۔
مسافر: اُستاد محترم ! ایک بُری خبر ہے، آپ نے جس اسکول سے اپنے تدریس کا سفر شروع کیا تھا، اب وہ اسکول بند ہونے جارہا ہے۔
استاد: اب اس طرح جذباتی ہو کر کیا حاصل !مختلف وجوہات کی بنا پر وہ اسکول تو بند ہونا ہی تھا، سو ہو گیا اور اب مجھے اس سے کیا پڑی ہے؟
مسافر: سیٹھ جی! اللہ نے آپ کو نوازا ہے، اسلئے ہم آپ سے درخواست کر رہے ہیں، ہمارے محلّے میں پانچ بچّے ایسے ہیں جن کے پاس اُن کی فیس کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ سیٹھ جی اگر انھیں کسی نے سہارا نہیں دیا تو اُن کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔
سیٹھ جی : اُنھوں نے اتنے بڑے خواب دیکھے ہی کیوں ؟ اگر وہ فیس ادا نہیں کر سکتے تو اس کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں، آخر ہمیں کیا پڑی ہے؟
مسافر : ٹرسٹی صاحب ! آپ کے ٹرسٹ میں بچّے جا جا کر واپس آ رہے ہیں۔ پچاس ہزار کی فیس کیلئے بھی آپ کے یہاں سے ایک ایک ہزار کے چیک ہی مل رہے ہیں۔
ٹرسٹی: آپ کو سب سے پہلے ہمارے ٹرسٹ کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے، اس سال تو ہم ساری بڑی مساجد کو اٹالین جھومر دینے کو ترجیح دینے والے ہیں، اگر کچھ فنڈ بچا تو تعلیمی اسکالرشپ دیں گے، اور اب تو پوری قوم کوٹرسٹوں پر منحصر رہنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔
مسافر: اسکالر صاحب! آپ ماشا اللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، گولڈ میڈ لسٹ ریسرچ اسکالر ہیں، ہمارے محلّے میں ۸۔ ۱۰؍ طلبہ ایسے ہیں جو ٹیوشن کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔ آپ اگر انھیں ہفتے میں ایک بار کچھ پڑھا دیں۔
اسکالر: آپ جانتے ہیں کس سے بات کر رہے ہیں، میں آئی آئی ایم ٹا پر ہوں ، ملک کے نامور اسکالرس میں میرا شمار ہوتا ہے، اور آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ میں گلی محلّے کے بچّوں کو پڑھاؤں ، آخر مجھے کیا پڑی ہے؟
مسافر: ایڈیٹر صاحب !یہ قوم کے کچھ تعلیمی ایشوز ہیں اُن پر رائے عامہ تیار کرنے کیلئے آپ کےچینل کی ضرورت ہے۔
ایڈیٹر: ہم خبر بیچتے ہیں، یہ سوشل ورک وغیرہ ہمارا کام نہیں۔ تعلیمی ایشوز وغیرہ سے ہمیں یاہمارے چینل کو کیا پڑی ہے؟ خبر لائوخبر، سنسنی خیز خبر۔
مسافر: دانشور صاحب! آپ ما شاء اللہ خوب خوب نالج رکھتے ہیں ، آپ کی دانشوری کا چہار سُو چر چاہے۔ آپ قوم کے معاملات کے ضمن میں کچھ عملی اقدامات کیجئے، اس سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ آپ کے نظریات وغیرہ کو کتنا اور کس طرح عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔
دانشور : دیکھئے! اوّل تو میرا فلسفہ کسی کو سمجھ میں آنے والا نہیں، کیوں کہ میں اپنے عہد سے برسوں نہیں صدیوں آگے کی سوچتا ہوں ، اُس کی گہرائی و گیرائی تک پہنچنے کیلئے بہت سوجھ بوجھ اور ویژن کی ضرورت ہے۔ جو ہر کسی کے پاس نہیں ہے، لہٰذا ہر کوئی میری بات نہیں سمجھ سکتا، میں اپنے نظریات صرف پیش کروں گا، ان پر عملی اقدامات کی مجھے کیا پڑی ہے؟
مسافر: قائد ملّت صاحب ! آج ٹھیک بیس سال ہوئے سچر کمیشن کی رپورٹ کو جس سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے، یعنی آپ کی سیاسی قیادت مکمل نا کام ہو چکی ہے۔ اب آپ کم از کم تعلیمی محاذ پرمسلمانوں کی قیادت کیجئے۔ ان کا تعلیمی پچھڑا پن دُور کرنے کی کوشش کیجیے، جس سے وہ زمانے کی دھاراسے جُڑ جائیں۔
قائدِ ملّت : کس دنیا میں رہتے ہو تم ؟ دو بار راجیہ سبھا اور ایک مرتبہ ریاستی اسمبلی کا ممبر مَیں کیوں بنا، تمھیں معلوم ہے میں نے قوم کی کتنی خدمت کی ہے۔ اب یہ تعلیم تعلیم کی کیا رَٹ لگائے ہوئے ہو؟ کہاں سے تم لوگوں کے دماغ میں یہ بات آئی کہ صرف حصول تعلیم سے قوموں کی ترقی ہوتی ہے۔ مجھے دیکھو، میٹرک فیل ہوں لیکن آج کتنا کامیاب ہوں، پارلیمنٹ تک پہنچا ہوں، قوم ایسی ترقی کیوں نہیں کرتی، تم تعلیم تعلیم کا ایک ہی نعرہ لگاتے ہو، ہم نے ایک پارٹی میں غریبی ہٹاؤ کا نعرہ لگا یا پھر دوسری پارٹی میں ہلّہ بول، تیسری پارٹی میں بہن جی بہن جی کا وِرد کیا.... اور اب ہاتھ میں جھاڑو لیے سوو چھ بھارت کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ یہ آپ کے فرسودہ تعلیم تعلیم کے نعرے سے ہمیں کیا پڑی ہے؟
مسافر : عالمِ دین صاحب ! آپ تو قوم کی زبوں حالی دیکھ رہے ہیں، آپ سے قوم کی تعلیم میں بہتری کیلئے استدعا ہے۔
عالمِ دین: جناب ابھی ۱۴۰۰؍ برسوں میں تعلیم کی تعریف کا تعین ہی نہیں ہوا کہ کون سی تعلیم؟دینی یا عصری تعلیم اورہم یہاں یہ ڈِگریاں وغیرہ حاصل کرنے نہیں آئے ہیں ہم تو دنیا کی امامت کیلئے آئے ہیں۔ یہ قوم کی دنیاوی زبوں حالی سے ہمیں کیا پڑی ہے؟ ویسے آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ؟
مسافر: شاعر صاحب! آپ کے کلام کا جواب نہیں، البتہ اس سے نئی نسل بھی مستفیض ہو اِس لیے اُردو مدارس کا جاری رہنا ضروری ہے۔ آپ یقیناً اس کی بھی فکر کریں گے۔
شاعر: حضرت!سب سے پہلے تو آپ نے میرے ذہن کو منتشر کیا، ایک ایسی زمین میں غزل سوجھ رہی ہے جو حضرت میرؔ وداغؔ کا خاصہ رہا ہے۔ خیر، یہ آپ کی لا علمی، بے علمی یا کم علمی کا بین ثبوت ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ اردو شاعری بلکہ اردو ادب پر کبھی زوال آسکتا ہے۔ اُردو مدارس جاری رہیں یا نہ رہیں لوگ تفریح سے سبکدوش ہونے والے ہیں کیا ؟ مشاعروں سے بہتر کوئی تفریح ہو سکتی ہے کیا ؟ مدارس بند ہوتے ہیں تو اس سے فرق کیا پڑے گا۔ اُن اسکولوں کے گراؤنڈ تو باقی ہیں، اُن گراؤنڈ پر دیکھنا کیسے کیسے آل انڈیا مشاعرے یا انڈو پاک نہیں بلکہ عالمی مشاعرے برپا ہوتے ہیں اور سنئے جناب، تازہ غزل بھی سماعت فرمائیے۔
مسافر: مسٹر کامیاب ! آپ ما شاء اللہ کتنے کامیاب ہیں، آپ قوم کے بچّوں کو بھی کامیابی کے وہ نسخے بتادیجئے۔
مسٹر کامیاب : ارے بھئی یہ کامیابی ہم نے یوں ہی حاصل نہیں کی ہے، میں نے اپنی ساری توجہ اپنے بچّوں پر مرکوز کی۔ میرے چار بیٹے ہیں ، ایک کو تو گرین کارڈ بھی مل گیا، دوسرا ٹیکساس یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ کر رہا ہے۔ تیسرا آئی آئی ٹی کھڑک پور کیلئے کوالیفائی ہوا ہے، اور چوتھا نیوکلیئر فزکس میں ڈاکٹریٹ کررہا ہے، کون کہتا ہے مسلمان پڑھ نہیں رہے ہیں ؟ اب ہماری قوم کے نوجوانوں کو کہاں سمجھ میں آئیں گی اُن کی یہ اتنی بڑی ڈِگریاں۔ وہ تو صرف ڈیزل میکینک، موٹر میکینک ہی بننے والے، اب بھلا مجھے کیا پڑی ہے کہ میں ان کی ذہن سازی کروں ؟
مسافر : نوجوان!مجھے پتہ نہیں نئی نسل سے میں کتنی اُمید وابستہ رکھوں ؟ لیکن یہ تین تمہارے جیسے ہی نوجوان ہیں، انھیں کوئی رہنمائی نہیں ہے، کیا تم انھیں راستہ دکھاؤ گے؟
نوجوان: ہاں ، ہاں، انکل! ایک منٹ، ذرا میں یہ گوگل بند کر دوں ، اب کہئے ہاں بالکل میں اُنھیں ساتھ لے جاؤں گا آس پاس کے کالجوں میں۔ ایک آدھ ٹرسٹ میں لے جا کر فارم بھرنے میں مددکروں گا اور انکل یہ نئی نسل پر آپ کو بھروسہ کیوں نہیں ؟ صرف ہم ہی تو ہیں جن میں نفسا نفسی نہیں ہے۔ ہم خود غرض بھی نہیں ہیں اور یہ خود غرضی و مطلب پرستی کیلئے کوئی لاکھ ہمیں آمادہ کرے، ہم اُن کی نہیں سننے والے، یہ تینوں کون ہیں ؟ ہمیں ان سے مطلب نہیں ، امیر ہیں، غریب ہیں یہ بھی جاننا نہیں چاہتے، انکل یہ ہمارے دوست ہیں۔ ہم یہ بھی نہیں کہیں گے کہ ہمیں کیا پڑی ہے، ہمیں پڑی ہے انکل، یہ ہمارے جیسے نوجوان ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ ان کی کیفیت کیا ہے، کیوں کہ ہم بھی اس سے گزرے ہیں اور گزر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہم رِکشا شیئر کریں گے، دال چاول شیئر کریں گے، ہاٹ اسپاٹ شیئر کریں گے، کتابیں بھی شیئر کریں گے۔ ( پردہ گِرتا ہے)