Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: یہ تو اتنے زندہ ہیں کہ اپنے حق کیلئے دہلی پہنچ گئے ہیں

Updated: August 17, 2025, 2:30 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

بہار کے راگھوپور حلقے کے ۷؍ووٹرس جنہیں الیکشن کمیشن نے مردہ قرار دیا تھا، وہ راہل گاندھی کے ساتھ چائے کی چسکیاں لیتے نظر آئے۔ و

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

صاحبان، قدردان، مہربان!پائریٹس آف دی کیریبیئن کا نام تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ ہاں وہی کپتان جیک اسپائرووالی مزے دارفلم، جس کا شمار ہالی ووڈ کی مشہورفرنچائزی فلم میں ہوتا ہے۔ اس کی کہانی سمندری لٹیروں پر مبنی ہے۔ اب تک اس کے پانچ ’حصے‘ بن چکے ہیں۔ ۲۰۱۷ء میں اس کی پانچویں فلم’’پائریٹس آف دی کیریبئن : ڈیڈ مین ٹیل نو ٹیلس‘‘کے عنوان سے آئی تھی۔ ہندی پوسٹر میں اس باب کا عنوان تھا ’’مردے راز نہیں کھولتے‘‘آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم سوشل میڈیا کی کہی سنی بتانے کی بجائے لٹیروں کا قصہ کیوں چھیڑبیٹھے ہیں۔ تو تھوڑا سا صبر رکھئے۔ تار سے تار مل ہی جائے گا۔ کیونکہ اس ہفتے مردے نہ صرف زندہ ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے مردہ ہونے کا راز بھی کھول دیا۔ 
چلئے پہیلی نہ بجھاکرہم سیدھے موضوع پر آتے ہیں۔ بہار کے راگھوپور حلقے کے ۷؍ووٹرس جنہیں الیکشن کمیشن نے مردہ قرار دیا تھا، وہ راہل گاندھی کے ساتھ چائے کی چسکیاں لیتے نظر آئے۔ وہ حیران و افسردہ بھی ہیں کہ انہیں جیتے جی ماردیا گیا۔ ووٹر لسٹ سے ان کے ناموں کے حذف ہونے کی وجہ ان کا آنجہانی ہونا بتا یا گیا۔ اسلئے وہ راہل سے ملے اور ’’جو زندہ ہو توپھر زندہ نظر آنا ضروری ہے‘‘کا ثبوت پیش کیا۔ راہل کی ان ’مُردوں ‘ کے ساتھ ہونیوالی چائے پہ چرچا کی بڑی چرچا رہی۔ کچھ ووٹر یوگیندر یادو کے ہمراہ سپریم کورٹ پہنچے۔ کچھ نے الیکشن کمیشن کے دفترحاضری دی کہ بتاسکیں کہ’’ابھی ہم زندہ ہیں ‘‘یہی وجہ رہی کہ سوشل میڈیا میں بھی یہ موضوع چھایا رہا۔ کبیراں نامی صارف نے لکھا کہ ’’زیادہ کچھ نہیں، بس کچھ ’مردہ لوگ‘راہل (گاندھی) کیساتھ چائے پی رہے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن حذف شدہ ووٹروں کی لسٹ جاری کردے تو پھرمزید ایسے مردہ ووٹرز زندہ ہوجائیں گے۔ ‘‘شرون گرگ نے اس مضحکہ خیز صورتحال پر تبصرہ کیاکہ ’’راہل گاندھی کو چاہئے کہ وہ ۱۹۸۹ء کی ہالی ووڈ کی بلاک بسٹر کامیڈی فلم’ڈیڈ پوئٹ سوسائٹی‘ کی کہانی کو نئے رنگ و آہنگ میں ’ڈیڈ ووٹرس سوسائٹی ‘کے عنوان سے دوبارہ لکھیں۔ ‘‘ کیرتیش بھٹ نے طنزاً لکھا کہ ’’وہ لوگ سامنے آرہے ہیں جنہیں مردہ قرار دیا گیا اور ووٹر لسٹ سے نام کاٹ دیا گیا۔ سوچئے جو سچ مچ مردہ ہیں لیکن ووٹر لسٹ میں زندہ ہیں اگر وہ اپنا نام کٹوانے دفتر میں ان کے سامنے آجائیں تو؟‘‘امان خان نے تبصرہ کیا کہ ’’بندے میں دَم ہے۔ الیکشن کمیشن نے جن ۷؍لوگوں کو مردہ قراردیا تھا راہل گاندھی نے کل ان کے ساتھ چائے پارٹی کی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن کو ان حذف شدہ ۶۵؍لاکھ ووٹروں کی لسٹ جاری کرنی ہوگی اور اپنی ویب سائٹ پر دستیاب کرانا ہوگا۔ ‘‘ کلاسک موجیٹو نے لکھا کہ ’’راہل گاندھی نے مردہ افراد سے ملاقات کی۔ یہ لوگ الیکشن کمیشن کے مطابق مرچکے ہیں۔ یہ آدمی جمہوریت کے سب سے بڑے فراڈ کو بے نقاب کرنے کے مشن پر ہے۔ ‘‘روشن رائے لکھتے ہیں کہ’’راہل گاندھی: سنا ہے آپ لوگ مرگئے ہیں ؟ ووٹرس جن کے نام لسٹ سے نکال دئیے گئے اور الیکشن کمیشن نے انہیں مردہ قراردیا ہے، جواباً کہتے ہیں کہ: ہاں سر، جیتے جی ماردیا۔ راہل ہر دن الیکشن کمیشن کوضربیں لگارہے ہیں۔ ‘‘شاداب حسین نے لکھا کہ ’’ مردہ ووٹر کہہ رہے ہیں : ابھی ہم زندہ ہیں۔ لیکن سرکار ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ‘‘ پرشانت کمل نے مذکورہ ملاقات کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’الیکشن کمیشن کی نظر میں بہار کے یہ لوگ مردہ ہیں۔ ان کا نام ووٹر لسٹ سے کاٹ دیا گیا ہے۔ ارے یہ تو اتنے زندہ ہیں کہ اپنے حق کیلئے لڑتے ہوئے دہلی پہنچ گئے ہیں۔ اصل میں مرے تو وہ لوگ ہیں جو اپنی آنکھوں کے سامنے اتنی بڑی ناانصافی پر بھی چپ چاپ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ یا پھر اپنی خاموشی سے بھاجپا اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت کی تائید کررہے ہیں۔ ‘‘ سجیت کمبھار نے لکھا کہ ’’بہار کے بھوج پور کے مِنٹو پاسوان کو ایس آئی آر کے بعد ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں مردہ قرار دیا گیا۔ اپنا نام ہٹائے جانے پر مِنٹو خود الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچے اور کہا کہ میں زندہ ہوں۔ الزام لگایا کہ بوتھ لیول آفیسر ان کے گھر نہیں آئے اور بغیر تصدیق کے مردہ قرا ردیا۔ ‘‘
ایڈوکیٹ جتیندر گپتا نے لکھاکہ ’’اس یوم آزادی پر ہندوستانیوں کو کورٹ میں یہ ثابت کرنا پڑرہا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور اپنے حق رائے دہی کیلئے جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔ حکومت انہیں مردہ قرار دے کر یہ حق چھیننا چاہتی ہے۔ یہ سب کچھ نئے ہندوستان میں مبینہ طور پر ووٹرلسٹ کی بڑی گڑبڑی کے ذریعہ ہورہا ہے‘‘
محمد اعظم عالم نے تبصرہ کیا کہ ’’ایک جھٹکے میں لاکھوں نام ہٹادئیے گئے، زندہ انسان مردہ بنادئیے گئے۔ آج یوم آزادی پر یہ سوچئے گا کہ جو انسان بہار کی ووٹر لسٹ میں مرچکا ہے، آج وہ اپنے گھر پر ترنگا لہراتے ہوئے کیسا محسوس کررہا ہوگا؟ اس کے کرب و درد کا ہم اور آپ اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ ‘‘ 
آزادی اور نئے ہندوستان پر بات نکلی ہے تو پھر ایک دیگر معاملے کا ذکر ہوجائے۔ معروف شاعرونغمہ نگار جاوید اختر نے یوم آزادی پر تہنیتی پیغام جاری کیا کہ ’’تمام ہی ہندوستانی بھائی بہنوں کو یوم آزادی مبارک۔ ہمیں یہ نہیں بھولناچاہئے کہ آزادی ہمیں طشتری میں سجاکر نہیں ملی۔ ان مجاہدین آزادی کو سلام جو آزادی کیلئے تختہ دار پر چڑھ گئے اورانہیں بھی جنہوں نے اس کیلئے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ‘‘اس پر گول مال نامی ٹرول نے لکھا کہ ’’آپ کا یوم آزادی تو ۱۴؍اگست ہے ناں ؟‘‘ تو جاوید اختر نے اس بدمعاشی کا یوں جواب دیا کہ ’’بیٹا جب تمہارے باپ دادا انگریزوں کے جوتے چاٹ رہے تھے، میرے بزرگ دیش کی آزادی کیلئے کالاپانی میں مررہے تھے۔ اپنی اوقات میں رہو۔ ‘‘
دیش کے جنتا نامی ایک اور ٹرول نے بدتمیزی کی کہ ’’لیکن تم تو ٖغدار ہو‘‘اس پرجاوید اختر نے اسے کھری کھری سنادی کہ ’’غدار وہ ہیں جو تحریک عدم تعاون اور بھارت چھوڑو تحریک کے خلاف تھے۔ غدار وہ ہیں جنہوں نے جتنا ہوسکا انگریزوں کی مدد کی۔ غدار وہ ہیں جو ہمارے سمودھان اور ترنگے کے خلاف تھے۔ یہ پتہ لگاکر وہ کون تھے؟ اپنی جہالت تھوڑی سے کم کرلو۔ ‘‘سعید جونپوری نے فیس بک پر اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ان لوگوں کو جاوید اختر کی دیش بھکتی پر بھی سوا ل ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK