مومن پورہ کے ۸۲؍سالہ مشتاق احمدانصاری نے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی ہے، اس کےباوجود اپنے مطالعہ کے شوق کی وجہ سے انہوں نے اتنی زبانیں سیکھ لی ہیں کہ اُردو کےعلاوہ انگریزی، ہندی، مراٹھی اور گجراتی کے اخبارات بھی آسانی سے پڑ ھ لیتےہیں۔
EPAPER
Updated: July 27, 2025, 1:11 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
مومن پورہ کے ۸۲؍سالہ مشتاق احمدانصاری نے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی ہے، اس کےباوجود اپنے مطالعہ کے شوق کی وجہ سے انہوں نے اتنی زبانیں سیکھ لی ہیں کہ اُردو کےعلاوہ انگریزی، ہندی، مراٹھی اور گجراتی کے اخبارات بھی آسانی سے پڑ ھ لیتےہیں۔
مومن پورہ کے ۸۲؍سالہ مشتاق احمدانصاری حافظ عبدالوہاب کی پیدائش بائیکلہ کےقریب واقع سرکاری اسپتال میں ۱۵؍اگست ۱۹۴۳ءکو ہوئی۔ مومن پورہ میونسپل اُردو اسکول سےپرائمری تعلیم حاصل کی۔ مالی مشکلات سے آگے کی پڑھائی نہیں کرسکے۔ اس کےباوجود مطالعہ کے شوق کی وجہ سے اُردو کےعلاوہ انگریزی، ہندی، مراٹھی اور گجراتی بھی پڑ ھ لیتےہیں۔ عملی زندگی میں پاور لوم کے کام سے وابستہ رہے۔ ۷۰؍سا ل کی عمر تک مشین پر خود کام کیا۔ جسمانی تکلیف سے محنت کا کام کرنا بندکردیاہے لیکن ابھی بھی کاروباری معاملات میں حصہ لیتےہیں۔ روزانہ دکان پر پابندی سے ڈیوٹی دیتےہیں۔ بچوں کی رہنمائی کرتےہیں ۔ اس کے ساتھ نماز روزہ کی پابندی بھی کرتےہیں۔
مشتاق احمدانصاری کے والد حافظ عبدالوہاب ایک مسجد میں امامت کرتے تھے اور رمضان میں تراویح کی نماز بھی پڑھاتےتھے۔ اس کے ساتھ ہی ذریعہ معاش کیلئے کپڑوں کی پھیری بھی کرتےتھے۔ برادران وطن کے تہواروں ، مثلاً دیوالی، گنپتی اورہولی وغیرہ کےموقع پر اُتر پردیش، مئوآئمہ سے خواتین کیلئے مخصوص چولی نما کپڑا منگواکر دادر، پریل اورلال باغ کےعلاقوں میں فروخت کیا کرتےتھے۔ ان تہواروں پرزیادہ کام ہونے سے وہ اپنے دونوں بیٹوں مشتاق اورمختار کےکندھوں پرکپڑے کی گٹھری رکھ کر انہیں بھی اپنے ساتھ لے جایا کرتےتھے۔ والدکےساتھ جانے کیلئے دونوں بھائیوں میں ہمیشہ تکرار ہوتی تھی۔ مشتاق اپنے ساتھ مختار کواور مختار اپنے ساتھ مشتاق کوبھی لے جانے کی ضد کرتے تھے۔
والدکی آمدنی محدود تھی، اسلئے کچھ حد تک تنگ دستی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ اُس دورمیں راشن کی دکان سے سستے داموں میں امریکن گیہوں اور چاول بھی ملتاتھا۔ اسی گیہوں، چاول سے گھروں میں کھانا پکتا تھا۔ مشتاق احمد نے امریکن گیہوں، چاول کےعلاوہ باجرہ، مکئی اور چنا بھی کھایاہے۔ مالی قلت سے گھر میں روزانہ دال بنتی تھی۔ گوشت کھانے کیلئے مہینوں انتظار کرنا پڑتاتھا۔ دیوالی اورہولی وغیرہ پر دھندہ اچھا ہونےپر، والد، مشتاق احمد کو ۵؍روپے دےکر باندرہ مذبح سے بکرے کی اچھی اور تازہ کلیجی، گردہ اور تلی وغیرہ خرید کرلانے کی تاکید کرتے تھے۔ اس دورمیں مشتاق احمد کی عمر۱۴۔ ۱۵؍ سال رہی ہوگی۔ گھر کا دینی ماحول ہونے سے، انہیں کرتا پائجامہ کے علاوہ پینٹ شرٹ پہننے کی اجازت نہیں تھی۔ والد ۵؍روپےکی نوٹ پائجامہ کے نیفا میں ٹھونس کر رسی سے اس حصے کو کس کر باندھ دیتے تھے تاکہ نوٹ کہیں گر نہ جائے یاکوئی چھین نہ لے۔ مشتاق احمد بڑی حفاظت سے نوٹ لےکر باندرہ جاکر کلیجی لایا کرتے تھے۔ جس روز کلیجی پکتی، گھر میں جشن کاماحول ہوتا۔ والدین کے علاوہ دونوں بھائی اور ۵؍ بہنیں اُس دن شکم سیر ہوکر کھاتے تھے۔
مشتاق احمد کی شادی ۲۰؍سا ل کی عمر میں ہوئی۔ ان کی شادی جس خاندان میں ہوئی تھی، وہاں ۲؍بہنوں کی شادی ایک ساتھ ہونی تھی جبکہ ان کےہم زلف عبدالعزیزکے چھوٹے بھائی، اسحاق کی شادی بھی، ساتھ میں ہونے سے ایک وقت میں ۳؍دولہے یکجاتھے۔ ان کے یہاں دولت کی فراوانی تھی، سلئے نکاح والے دن عبدالعزیز اور اسحاق، دونوں بھائی کوٹ پینٹ پہننے والے تھے جبکہ مشتاق احمد کےپاس اس کی گنجائش نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے حاضر دماغی سے کام لیا، مومن پورہ کےقریب واقع غفور منزل میں ان کےدوست عبدالواحد رہاکرتےتھے، ان سے پوراماجرہ بیان کیا تو انہوں نے اپنی شادی کی سفید شیروانی، مشتاق احمدکو دے دی۔ نکاح والے دن مشتاق احمدنے شیروانی پہنی جس کی وجہ سے مشتاق احمد، دونوں کوٹ پینٹ والے بھائیوں سے الگ، خوبصورت اور جاذب نظر دکھائی دے رہےتھے۔ انہیں اپنی اُس دن کی حاضر دماغی پر آج بھی رشک آتاہے۔ ولیمہ میں ، مومن پورہ محلہ کےفرش پر ٹاٹ بچھاکر تقریباً ۷۰۰؍مہمانوں کی دال گوشت سے ضیافت کی گئی تھی، نکاح والے دن بھی دال گوشت کااہتمام کیاگیاتھا۔
مشتاق احمدنے اپنے لوم کےکارخانےمیں موت کو اپنے سے بہت قریب دیکھا ہے۔ دراصل ایک لوم کی موٹر خراب ہوگئی تھی، وہ بن کرآئی تو اس کی وائرنگ وہ خود کرنے لگے۔ ایک تار میں کرنٹ آگیا تھا۔ وہ تار دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے چپک گیا۔ تار کےچپکتے ہی پورے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا جس کی وجہ سے ان کی حالت غیر ہوگئی تھی۔ پورا جسم ایک منٹ تک لرزتا رہا۔ خوش قسمتی سے ایک کاریگر کی نظر اُن پر پڑگئی، اس نے فوراً مین سوئچ آف کردیا۔ مین سوئچ آف ہوتے ہی وہ زمین پر گرکر بے ہوش ہوگئے۔ اس کےبعد انہیں علاج کیلئے نائر اسپتال داخل کیاگیا۔ ان کی ہتھیلی پرکرنٹ لگنے کانشان اب بھی موجودہے۔
مومن پورہ کےمعروف علمی وادبی عوامی ادارے سےبھی ان کاتعلق رہا۔ یہاں متعدد کمیونسٹ لیڈران اورادبی وعلمی شخصیات کو دیکھنے اور ان سے ملاقات کا موقع ملا۔ چونکہ ان کے والد حافظ تھے، دین ومذہب کے سخت پابندہونے سے ان کے گھر میں ٹیلی ویژن نہیں تھا۔ ایسےمیں مشتاق احمد ٹیلی ویژن دیکھنےکیلئے روزانہ رات کو کھانےکےبعد عوامی ادارہ چلے جاتےتھے۔ ایک دن عوامی ادارہ کے نگراں نے انہیں ٹوک دیا، اس کےبعد وہ ٹیلی ویژن دیکھنے کیلئے عوامی ادارہ کبھی نہیں گئے۔ انہیں فلم دیکھنےکا بھی شوق تھالیکن والدصاحب کی تنبیہ اور سختی کی وجہ سے فلم دیکھنے کیلئے وہ لال باغ اور پریل وغیرہ کے سنیماگھروں میں جایا کرتےتھے تاکہ کوئی شناسا دیکھ نہ سکے۔
مشتاق احمد کو مچھلی کاشکار کرنےکاشوق جنون کی حدتک تھا۔ مومن پور ہ کے ایوب باباکی دکان کے باہرآنے سامنے ۲؍پلاٹ پر ہمہ وقت مچھلی کاشکار کرنےکےشوقین بیٹھ کر گھنٹوں شکارکی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ کہاں او رکب جاکرشکارکرنا ہے۔ مچھلی کا شکارکیسے کرنا ہے کیا طریقہ کار اپنا نا ہے تاکہ آسانی سے زیادہ سے زیادہ مچھلیوں کا شکار کیا جا سکے۔ اسی جگہ سے مشتاق احمدکے دل میں یہ شوق پیداہوا۔ وہ ممبئی کے علاوہ بیرون ِممبئی مچھلی کا شکار کرنے کبھی تنہا توکبھی گروپ کے ساتھ جایا کرتےتھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’مچھلی کا شکار کرنے کیلئے میں اپنے دوستوں کے ساتھ ممبئی سے ۳۵۰؍ کلومیٹردور کوکن کے سرواں گاؤں تک چلاجاتا تھا‘‘ علی باغ تو اکثر تنہا جا کر شکار کرتے تھے۔ گروپ کے ساتھ جاتے تو شکار کی ہوئی مچھلی پکانے کیلئے تیل مسالہ اورچولہا وغیرہ بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ شکار کر کے وہیں مچھلی پکائی جاتی تھی اور اس کے بعد سب مل کر کھاتے تھے اور خوشی خوشی گھر لوٹتے تھے۔ انہیں مچھلی کا شکارکرنے کا ۵۰؍سالہ تجربہ ہے۔
۷۰ءکی دہائی میں ایک مرتبہ وہ اپنے آبائی گائوں لال گوپال گنج، چاچااور دیگر عزیزوں سے ملاقات کرنے گئے تھے۔ گرمی کازمانہ تھا، گائوں میں کم ہی گھروں میں پانی کانل تھا۔ شدید گرمی میں لوگ پانی بھرنےکنویں پر جاتے تھے۔ چاچا کےگھر میں بھی نل نہیں تھا، گھروالے کنویں سے پانی بھر کر لاتےتھے۔ ان کی پریشانی دیکھ کر مشتاق احمدنے چاچا سے پوچھا کہ نل لگانےپر کتناخرچ آئے گا؟ چاچانے کہا کہ ۷۰۰؍ روپے، مشتاق احمدنے دوسرے ہی دن گھر میں نل لگوانےکاکام شروع کروادیا اور ۲؍دنوں میں نل لگ بھی گیا۔ نل لگنے پرگھروالوں کو جوخوشی ملی تھی، اسے بیان نہیں کیاجاسکتا۔ گھرکے سبھی لوگوں نے مشتاق احمد کو بڑی دعائوں سے نوازاتھا۔
مومن پورہ جنکشن پرایک طرف مسلمانوں اور دوسری جانب ہندوؤں کی آبادی تھی، جوآج بھی ہے لیکن اب ماحول بدل گیاہے۔ پہلے اکثر یہاں کے ہندو مسلمانوں میں لڑائی ہوتی تھی۔ دونوں ہی جانب سےایک دوسرے پرپتھر اور سوڈے کی بوتل سے حملے کئے جاتے۔ جس کی وجہ سے دونوں ہی جانب کےلوگ زخمی ہوتےتھے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب اس طرح کی لڑائیا ں نہیں ہوتی ہیں۔