بھیونڈی کی معروف سماجی، سیاسی اور کاروباری شخصیت ۸۰؍سالہ حاجی محمد سعید انصاری کا آبائی وطن اعظم گڑھ ہے، ۱۴؍ سال کی عمر میں تلاش معاش کے سلسلے میں بھیونڈی آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے، عمر کے اس مرحلے پر بھی پوری طرح فعال اور سرگر م ہیں۔
EPAPER
Updated: August 10, 2025, 12:59 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
بھیونڈی کی معروف سماجی، سیاسی اور کاروباری شخصیت ۸۰؍سالہ حاجی محمد سعید انصاری کا آبائی وطن اعظم گڑھ ہے، ۱۴؍ سال کی عمر میں تلاش معاش کے سلسلے میں بھیونڈی آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے، عمر کے اس مرحلے پر بھی پوری طرح فعال اور سرگر م ہیں۔
بھیونڈی، دھوبی تالاب اسٹیڈیم کی معروف سماجی، سیاسی، ملّی اور کاروباری شخصیت حاجی محمد سعید شاہ محمد انصاری، اعظم گڑھ کےقصبہ مہاراج گنج کے اچی بت گائوں میں ۶؍جون ۱۹۴۵ءکو پیدا ہوئے تھے۔ گائوں کےمقامی مدرسے میں عربی اور اُردو کی تعلیم حاصل کرنے ساتھ ہی قرآن کریم کے کچھ پارے حفظ بھی کئے لیکن مالی دشواریوں کی وجہ سے آگے کی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے۔ ۱۴؍سال کی عمر میں والدمحترم کےساتھ ۱۹۵۹ءمیں ذریعہ معاش کی تلاش میں بھیونڈی منتقل ہوئے، جہاں ان کے والد پاور لوم میں ملازمت کرتےتھے۔ بھیونڈی کےرئیس ہائی اسکول کے سامنے ٹھیلے پر پھل بیچنے سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ سال ڈیڑھ سال بعد، اس کاروبار سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں والدکی ایماپر پاورلوم کے ایک کارخانے میں ملازمت اختیار کرلی۔ ۱۹۶۱ءمیں والد نے لوم شروع کرنےکیلئے درکار سامان، قسطوں میں جمع کر کے پہلا کارخانہ شروع کیا۔ یہاں سے حاجی محمد سعید کی کامیابی کادور شروع ہوا۔ کچھ ہی عرصے میں مالی مشکلات پر قابو پالیا۔ کاروبارمیں دن دونی رات چوگنی ترقی ہوئی۔ آج بھی پاورلوم کےکاروبارسےوابستہ ہیں، ساتھ ہی بلڈنگ میٹریل کابھی بزنس کررہےہیں۔
حاجی محمد سعید، شروع ہی سے غریب پروررہے ہیں۔ ان کی سماجی، تعلیمی، ملّی اورسیاسی خدمات کی فہرست کافی طویل ہے۔ مالی مشکلات اورکسمپرسی سےوہ خود توزیادہ نہیں پڑھ سکےلیکن قوم وملت کےبچوں کی پڑھائی سےمتعلق بہت سنجیدہ ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جس مدرسے سے انہوں نے پڑھائی کی ہے، آج وہ اس کے نائب صدر ہیں۔ وہ مدرسہ پہلے کی طرح نہیں ہے بلکہ اب وہاں پر سیکڑوں طلبہ علم کے زیور سے آراستہ ہورہےہیں۔ اس مدرسے کی مالی اعانت کےساتھ ہی اس کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتےہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنے گائوں کی ایک قدیم مسجد کو شہید کرواکر اس کی ازسرنو تعمیر بھی کروائی ہے۔ اسی طرح بھیونڈی کےنالاپار میں واقع ابوحنیفہ مسجدکی تعمیرنو میں بھی ان کا خاص تعاون رہا ہے۔ اس کےساتھ گائوں کی متعدد مساجد کی تعمیرمیں انہوں نے مددکی ہے۔ ان کا ایک اور کام ہے جس کی خوب پزیرائی ہوتی ہے۔ گزشتہ ۵۰؍ سال میں انہوں نے بیس سے زائد غریب اورمسکین لڑکیوں کی شادی کروا ئی ہے۔ بھیونڈی کے سیاسی گلیاروں میں بھی ان کا نام تعارف کامحتاج نہیں ہے۔ ۲۰۰۲ءمیں انہوں نے سماجوادی پارٹی جوائن کی تھی اور پھر کچھ ہی دنوں میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور دوراندیشی سے انہوں نے بھیونڈی کی سطح پر پارٹی میں نئی جان پھونک دی تھی۔ ان کی سربراہی میں سماجوادی پارٹی نے بھیونڈی میں جو کامیابی حاصل کی وہ اپنی مثال آپ ہے، لیکن وہ چونکہ سیاست کو اپنا ’اوڑھنا بچھونا‘ اور مالی مفاد کا ذریعہ نہیں بنانا چاہتے تھے، اسلئے ایک حد تک جانے کے بعد انہوں نےپارٹی سے علاحدگی اختیارکرلی۔ فی الحال وہ ایک معروف کاروباری، سماجی اورملّی شخصیت کےطورپرکامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
حاجی سعید انصاری کو موٹرگاڑی کاشروع سے شوق رہا ہے۔ اپنی گاڑی خریدنےکیلئے وہ روزانہ معمول کی ڈیوٹی کے علاوہ کپڑوں کو تہہ کرنے کا کام جسے بھیونڈی میں ’مہتا گیری‘ کہتے ہیں، کااضافی کام بھی کرتے وہ روزانہ ۱۵؍ تاکھا کی تہہ لگاتے تھے، جس سے انہیں ڈیڑھ روپے اضافی مزدوری ملتی تھی۔ اس پیسےکو وہ الگ جمع کرتے تھے۔ پیسہ جمع کرنےکےساتھ ہی وہ موٹرگاڑی کی تلاش میں بھی لگ گئے تھے۔ ۱۹۷۳ءمیں انہیں پتہ چلا کہ ایک گاڑی ۴؍ہزارروپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ وہ اسے خریدنا چاہتے تھےلیکن ان کے پاس اُس وقت تک صرف ۲؍ہزارروپے جمع ہوئے تھے۔ ایسی صورت میں انہوں نے اپنے قریبی دوست مصطفیٰ انصاری سے ۲؍ہزارروپے قرض لےکر وہ گاڑی خریدلی۔ اس کے بعد اس سے اضافی آمدنی کیلئے بھیونڈی سے ممبئی کیلئے کرائے پرچلواناشروع کیا۔ اُس دور میں فی مسافر۷؍روپے کرایہ تھا۔ ایک رائونڈمیں تقریباً ۸۰؍روپے ملنے لگےجبکہ خرچ کےنام پر ۲۰؍ روپےپیٹرول اور۱۰؍روپےیومیہ ڈرائیور کی تنخواہ تھی۔ اس طرح روزانہ ۵۰؍روپے کی آمدنی ہونے لگی، ساتھ ہی گاڑی سےتفریح کا شوق بھی پورا ہونےلگا۔ گاڑی سے سواری کا شوق اب بھی برقرار ہے۔ اپنی گاڑی سے تقریباً آدھے ہندوستان کاسفر وہ کرچکےہیں۔
حافظ سعید انصاری کو شروع ہی سے سیر وتفریح، عمدہ انواع واقسام کے پکوان سے لطف اندوز ہونےاور دوسروں کی مدد کرنےکاشوق رہا۔ گھڑ سواری کا بھی انہیں شوق رہا ہے۔ ۷۰ء کی دہائی میں بھیونڈی میں تانگے والوں کےپاس ہی گھوڑے ہوا کرتے تھے۔ جس کارخانے میں سعید صاحب کام کرتےتھے، وہیں قریب میں تانگے والے رات کے وقت اپنا گھوڑا باند ھ کر جاتےتھے۔ ایسے میں لوم میں آدھاگھنٹہ چلنےوالی کانڈی لگاکر وہ تانگے والے کاگھوڑا کھول کر نکل جاتے تھے، قرب وجوار کےعلاقوں میں ۲۰۔ ۲۵؍منٹ گھوڑا دوڑا کر واپس لاکر اسی جگہ باندھ دیتے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنی گھڑ سواری کا شوق بھی پورا کیا۔ انہوں نے ڈرائیونگ اور گھڑ سواری کو اپنے طور پر سیکھا، اس کیلئے کسی اُستاد کی خدمات حاصل نہیں کی۔
بھیونڈی کے ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۴ءکےفرقہ وارانہ فسادات کو سعید انصاری نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان فسادات میں ہندو مسلمان دونوں ہی کے ہونےوالے جانی اور مالی نقصانات سے انہیں بڑی تکلیف پہنچی تھی۔ ایک جانب جہاں شہر نفرت کی بھٹی میں جھلس رہاتھا، وہیں دوسری جانب کچھ لوگوں نےامن وامان کے قیام کیلئے اپنی جان کی بازی بھی لگا دی تھی۔ سعید انصاری ان لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہے۔ ان فسادات کےعلاوہ دیگر موقعوں پر وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ان کے بیٹے راجیوگاندھی نے بھیونڈی کادورہ کیاتھا۔ ان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں اور بھیونڈی کے حالات پر گفتگو ہوئی۔ اندراگاندھی کو، بھیونڈی کے لیڈر امین انصاری کےدفتر میں بھی بہت دیکھنے کاموقع ملا تھا۔
سعید انصاری ۱۹۸۸ءمیں حج بیت اللہ پر گئے تھے۔ مکہ پہنچنے پر اچانک ان کے معلم کو دل کادورہ پڑ گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں ممبئی لوٹنا پڑا تھا۔ ایسےمیں ایک ساتھی عازم کی درخواست پر سعید انصاری نے معلم کی حیثیت سے ساری ذمہ داریاں ادا کیں، ان کی رہائش، کھانے پینے کاانتظام اور حج کےارکان کی ادائیگی کی رہنمائی کےعلاوہ مکہ سے مدینہ جانے کے سفر کے انتظامات کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا تھا۔
۱۹۶۶ءمیں پونے کےکوئنہ میں آنےوالے زلزلے کا بھیونڈی پر بھی زبردست اثر ہواتھا۔ نصف شب اچانک پور ے شہر میں افراتفری مچ گئی تھی۔ زلزلےکےجھٹکے سے چھوٹے بڑے مکانات ہلنے لگے تھے۔ اپنی جان بچانےکیلئے بڑے کیا چھوٹے، سبھی اپنے اپنے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر جمع ہوگئےتھے۔ زلزلے کےدہشت سے لوگ اس رات کےعلاوہ دوسرے دن بھی اپنے گھروں میں جانے سےخوفزدہ تھے۔ اُس زلزلے میں جانی تونہیں البتہ مالی طورپر کافی نقصان ہواتھا۔ اُس وقت بھیونڈی میں جس طرح کی افراتفری تھی، وہ آج بھی ذہن پر نقش ہے۔
بھیونڈی ایک غریب پرور شہر ہے۔ اس کی مثال اس طرح بھی دی جا سکتی ہےکہ آج سے دو تین دہائی قبل تک مزدوری کیلئے بھیونڈی آنےوالوں کو بسی والے اُس وقت تک مفت کھاناکھلاتے تھے، جب تک کہ انہیں ملازمت نہیں مل جاتی تھی۔ اس وقت تک وہ مزدور بسی والے کے مہمان ہوتے تھے۔ اُس دور میں ۱۵؍دنوں کیلئے ۳؍ وقت (صبح کاناشتہ، دوپہر اور رات کاکھانا) کی خوراکی ۷؍روپے تھی جبکہ آج کی بسی میں ۲؍وقت کے کھانے کا ۱۱۰۰؍روپے ہے۔ بھیونڈی میں ایسے مزدوروں کی تعداد زیادہ ہے جو اپنے اہل وعیال کو گائوں میں چھوڑکر یہاں تنہا رہتے ہیں، اس لئے یہاں بسی بھی بہت ہے۔ ان بسیوں میں مزدوروں کو سستے دام پر اچھا کھانا مل جاتاہے۔
سعید انصاری جب لُوم میں ملازمت کرتےتھے، اس دور میں ایک میٹر کپڑے کی بُنائی کی مزدوری ۵؍پیسے تھی، ۱۵؍دنوں میں اگرکسی مزدور کی مزدوری ۵۰؍روپے ہوتی تو مالک، اس کی محنت پر خوش ہوکر ۱۰؍روپے بخشش دیتاتھا، اسی طرح مزدوروں کی حوصلہ افزائی کیلئے سائزنگ والے چند بیم کے آخری حصے میں ۱۰؍روپے رکھ دیا کرتے تھے، وہ بیم جس مزدور کے حصے میں آتی تھی، وہ ۱۰؍روپے اسے مل جاتے تھے۔ اس طرح مزدوروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی تاکہ وہ اپنے کام کو ایمانداری اور محنت کے ساتھ انجام دیں۔ اس وقت پیسے کی بڑی اہمیت تھی، آج ایک مزدور ۲۰۔ ۲۵؍ہزار روپے مہینے کمالیتاہے، لیکن آج یہ بھی کم ہے۔