Inquilab Logo Happiest Places to Work

عزیز طلبہ! سب سے اسمارٹ چیز آپ کی جیب میں نہیں، سر میں ہے، جس کا نام ’دماغ‘ ہے

Updated: August 10, 2025, 2:29 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

سوشل میڈیا پر لوگ مسلسل ایک دوسرے سے مواز نہ کرتے رہتے ہیں۔ اس میں صرف ٹیکسٹائل کمپنیوں کا فائدہ ہوگا، پلاسٹک سرجری والوں کی نکل آئے گی کیونکہ اس میڈیا میں اسمارٹ دکھائی دینا ایک بڑی خوبی یا صفت کبھی جاتی ہے۔

No supercomputer has a brain-like quality. Photo: INN.
دماغ جیسی خوبی کسی سپر کمپیوٹر میں نہیں ہے۔ تصویر: آئی این این۔

ہندوستانی معاشرے میں مایوسی کا شکار ہونے کیلئے کسی بہانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ امتحان میں ناکامی، قرض سے بیزاری، پسند کی شادی نہ ہونا وغیر ہ وجوہات کی بناء پر بے شمار لوگ مایوسی یا ڈ پریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے اب یہ بھی نظر آنے لگا ہے کہ سوشل میڈ یا لوگوں میں ڈپریشن پیدا کر رہا ہے۔ موبائیل کی اسکرین پر نظریں لٹکائے رکھنے سے شروع ہونے والی بظاہر معمولی بیماری آگے چل کر ڈپریشن یا شدید قسم کی مایوسی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ چڑ چراہٹ سے یہ بیماری شروع ہوتی ہے، پھر نیند غائب ہونے لگتی ہے۔ یادداشت ماؤف ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ذہنی و جسمانی تھکاوٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ سیز و فینا ( یعنی ہرایک پر شک کرنا)اور اینگزائٹی ( ہمیشہ تشویش ناک کیفیت میں رہنا ) بھی فرسٹریشن یا ڈ پریشن ہی کی دین ہے۔ سائنس نے خوب خوب ترقی کی البتہ ابھی تک ڈپریشن یا شدید قسم کی مایوسی کا کوئی علاج اُس کے پاس نہیں ہے۔ جب کوئی شخص ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے اور اُسے ماہر امراض نفسیات کے پاس لے جایا جاتا ہے تو وہ سُپر اسپیشلسٹ ڈاکٹر صرف نیند کی گولیاں دے دیتا ہے یعنی جب تک ان گولیوں کا اثر رہے گا، وہ نیند کے غلبے میں رہے گا اور تشدد کا اظہار نہیں کرے گا۔ آگے چل کر وہ ان گولیوں کے ذریعے ہی نارمل بنا رہے گا۔ اللہ کرے کہ ایسا کچھ نہ ہو ورنہ ہمیں ڈر اِس بات کا بھی ہے کہ سائبر بیماریوں کے علاج کیلئے کئی جھولا چھاپ ڈاکٹر اور نیم حکیم بھی وجود میں آئیں گے۔ 
سوشل میڈیا پر لوگ مسلسل ایک دوسرے سے مواز نہ کرتے رہتے ہیں۔ اس میں صرف ٹیکسٹائل کمپنیوں کا فائدہ ہوگا، پلاسٹک سرجری والوں کی نکل آئے گی کیونکہ اس میڈیا میں اسمارٹ دکھائی دینا ایک بڑی خوبی یا صفت کبھی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے پیغامات میں آج سب سے زیادہ پسندیدہ نشانی ہے’ تَھمس اَپ‘ کی۔ جی ہاں ہرکوئی صرف انگھوٹھے کا نشانی چاہتا ہے یعنی لوگ اس کو پسند کریں، اس کے کاموں کو پسند کریں۔ لائک اور صرف لائک۔ جو بھی ناپسندیدگی کا نشان بھیجے گا، اُسے دشمن سمجھا جاتا ہے حتی کہ لوگ اس لائک کے مطابق ڈھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اپنے مقصد حیات، اپنے طریقہ کار اپنی طرزفکر کو چھوڑ کر دوسروں کے جیسا بننا اور سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ 
آج والدین اپنے بچوں کو محلّوں کے نکّڑوں پر جانے سے منع کرتے ہیں کہ وہاں نہ جانے کیسے کیسے تخریب کار لوگ جمع ہوں گے۔ آج دنیا کے سارے شاطر تخریبی ذہن کے حامل افراد سوشل میڈ یا پر جمع ہوتے ہیں۔ اُن میں سے کئی اپنی شاخت تبدیل کر، فرضی اکاونٹ کے ذریعے اُس میڈیا میں موجودرہتے ہیں۔ ان کو پہچاننا بھی دشوار ہوتا ہے۔ کئی لوگ اُن کے ذریعے لُوٹے بھی جاتے ہیں اس کے باوجود ہمارے نو جوانوں کی ایک بڑی تعداد انجانے افراد سے دوستی کرتی ہے اور لُٹتی بھی ہے۔ 
نو جوانو ! اسمارٹ فون کے ضمن میں ذہنی مریض بننے کی حد تک شدّت آپ کی طبیعت میں آنے سے قبل یہ جان لیجئے کہ آپ کیلئے اس دھرتی کی سب سے اسمارٹ چیز آپ کی جیب میں نہیں بلکہ آپ کے سر میں ہے، جس کا نام ’دماغ‘ ہے۔ وہ اس قدر طاقتور ہے کہ اس میں دنیا کے کسی بھی سو پر کمپیوٹر سے کئی ہزار گنا استعداد اِس میں موجود ہے لہٰذا آپ ہر بار اپنے دماغ نامی سُپر ترین کمپیوٹر سے پوچھو کہ آپ کی جیب میں اسمارٹ فون ہے اس کا کیسے اور کتنا استعمال کیا جائے۔ آپ کی جیب میں موجود سو پر اسمارٹ فون صرف انفارمیشن یا معلومات رکھتا ہے۔ کسی پروگرام پر ہدایت کے مطابق عمل کرتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ جب کہ انسان کے پاس قوت فکر، قوت احساس، بصیرت، حکمت، ہمدردی، انسانیت، تخیل، احسان مندی، احترام، دُوراندیشی، صبر اور نہ جانے کتنے اوصاف موجود ہیں۔ کیا ان سارے انسانی اوصاف میں سے ایک بھی وصف کسی سو پر ترین کمپیوٹر میں موجود ہے؟ نوجوانو! آپ میں سے ہر ایک کے پاس یہ اوصاف موجود ہیں لہٰذا آپ کے حق میں بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی زندگی کی ساری ہدایات اپنے دماغ سے لیں ، جیب میں موجود اسمارٹ فون سے نہیں۔ 
ہمارے یہاں والدین کیلئے یوں تو فرزند پروری کبھی اور کسی زمانے میں کوئی آسان کام نہیں رہا ہے مگر اب سوشل میڈیا کی بنا پر دُختر پروری بھی مشکل اور کٹھن بن گیا ہے۔ دہائیوں نہیں بلکہ صدیوں تک فرزند ’خاندان کا چراغ‘ اور دُختر ’پرایا دَھن‘ بنے ہوتے ہیں البتہ اب جبکہ فرزند یا دُختر دونوں ہر روز ۶؍ سے ۸؍ گھنٹے تک اسکرین پر آنکھیں گاڑے بیٹھے ہیں اور اس صدی سے پہلے غلط حرکت پر بچّے شرمندگی محسوس کرتے تھے اور جو کچھ کیا ہوتا اُس کو بھول جاتے تھے مگر اس صدی نے یہ تحفہ دیا ہے کہ شرمندگی کے آثار کو محفوظ کرلیا جاتا ہے اور وہ بھی اپنی گیلری میں ! پہلے یہ تحقیق کا موضوع تھا کہ بداخلاقیات کے منبع کون کون سے ہیں اب زیادہ تر سوشل میڈیا میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔ کیا پھر بھی والدین اپنے بچّوں کو اخلاقیات کے شکاریوں کیلئے لقمۂ تر بننے دینے پر آمادہ ہیں ؟ 
والدین اپنے بچّوں کی زندگی کے ایڈ من بن جائیں۔ والدین کا ان کے بچّوں کیلئے مشیر بنناز یادہ سود مند ہے، یہ نسبت ان کے منیجر بننے کے۔ ان کی زندگی کے منیجر بن کر انھیں صرف ہدایات دیں گے تو ہرگز مثبت نتائج بر آمد نہیں ہوں گے البتہ اگر آپ ان کی زندگی کے ایڈمن یا منتظم بن کر یقیناً کامیاب ہوں گے۔ لیجئے اپنے بچّے کی زندگی کے کامیاب ایڈمن بننے کے نسخے:
(۱) دین ہی اساس ہو : آپ کو زندگی کی اساس دین ہی ہونی چاہئے، بچّے اس سے اپنی زندگی کے رُخ کا تعین بخوبی کر پائیں۔ 
(۲) قول وفعل میں تضاد نہ ہو: والدین کے کردار کا سب سے باریکی سے مشاہدہ بچّے ہی کرتے ہیں۔ والدین کے قول و فعل میں یکسانیت ہو تو بچّوں کی کردار سازی کیلئے والدین کو بہت زیادہ محنت درکار نہیں ہوتی۔ اپنے بچّوں کی زندگی کے کامیاب ایڈ مِن بننے کیلئے والدین کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہئے۔ 
(۳) گھر یلو مضامین نہ پڑھائے جائیں : دنیا کی کسی اسکول میں غیبت نامی مضمون نہیں پڑھا یا جاتا، یہ ہمارے گھروں میں پڑھایا جانے والا مضمون ہے۔ غیبت، حسد اور سازش وغیرہ سے والدین اگر خود دُور رہیں تو وہ اپنے بچّوں کی زندگی کے کامیاب ایڈمن بن جائیں گے۔ 
( ۴) وقت اور وعدے کی پابندی : وقت اور وعدے کی پابندی سکھانے اور پڑھانے کا مضمون نہیں ہے وہ صرف برتنے کی چیزیں ہیں۔ بچّے اگر والدین کے برتاؤ میں یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان کے والدین کے کچھ اصول ہیں، وہ ہر قیمت ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو وہ بہر صورت وقت اور وعدے کے پابند ہوتے ہیں۔ وقت کے حد درجہ پابند اور وعدے کے مکمل پاسدار ہیں تو یہ سارے اوصاف بچّوں میں خود بخود آجاتے ہیں۔ انھیں ڈانٹتے رہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ 
موبائل یا اس سے کہیں زیادہ طاقتورٹیکنا لوجی بھی وجود میں آجائے، کسی بھی روپ میں آجائے، اگر والدین صرف شفیق نہیں بلکہ رفیق والدین بن جائیں تو وہ ٹیکنا لوجی آپ کے بچّوں پر کوئی غلط اثر نہیں ڈال پائے گی، نہ انھیں کبھی بہکا پائے گی۔ سوشل میڈیا کے اندھیارے سے نکال کر اپنے بچوں کو زندگی کی دھارا سے جوڑنے کا عمل کٹھن ضرور ہے لیکن مشکل نہیں، یعنی لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK