کرلاپائپ روڈکے۸۲؍سالہ عبدالرشیدنے ۶۰؍سال تک شہر کی مختلف مساجد میں موذن کی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ وہ اذان کے وقت سے پہلے مسجد پہنچ جاتے تھے، آج بھی نماز، روزہ ، تلاوت اور دینی سرگرمیوں میں اسی طرح پابندی کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔
EPAPER
Updated: January 28, 2024, 4:31 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
کرلاپائپ روڈکے۸۲؍سالہ عبدالرشیدنے ۶۰؍سال تک شہر کی مختلف مساجد میں موذن کی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ وہ اذان کے وقت سے پہلے مسجد پہنچ جاتے تھے، آج بھی نماز، روزہ ، تلاوت اور دینی سرگرمیوں میں اسی طرح پابندی کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔
کرلا، پائپ روڈ، برہمن واڑی کے ۸۲؍سالہ عبدالرشیدعظمت اللہ شیخ روزنامہ انقلاب کا پابندی سے مطالعہ کرتےہیں۔ گوشہ ٔ بزرگاں کالم انہیں بے حد پسند ہے۔ کالم میں شائع ہونےوالے سن رسیدہ افراد کی زندگی اور ان کے تجربات کے مطالعہ سے انہیں بھی کالم میں جگہ پانے کی خواہش ہوئی، لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ وہ کالم نگار تک کیسے پہنچیں۔ انہوں نےاپنے بڑے بیٹے سے اس کا ذکر کیا۔ بیٹے نے اپنے ایک ساتھی سے مددطلب کی۔ اس طرح کالم نگار تک ان کی رسائی ہوئی۔ طے شدہ وقت پرکالم نویس کے برہمن واڑی پہنچنے پر، اہل خانہ نے گرمجوشی سے خیرمقدم کیا۔ سلام دعا کےبعد تقریباً ۵۰؍منٹ تک معلوماتی گفتگو ہوئی۔ جس سے کچھ پرانی کچھ نئی باتوں سے معلومات میں اضافہ ہوا۔
عبدالرشید سے ہونےوالی ابتدائی گفتگو سے اندازہ ہواکہ انہیں بات کرنےمیں تکلیف ہورہی ہے۔ استفسار کرنےپر پتہ چلاکہ چند مہینے قبل فالج کا اثر ہونے سے زبان میں لکنت آ گئی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ معمول کے مطابق بات چیت نہیں کرپاتےہیں۔ ایسی صورت میں ان کے بیٹے اور دیگر عزیزوں، جو اُن کی لکنت بھری زبان کو سنتے سنتے ان کی باتوں کو سمجھنے کے عادی ہوگئے ہیں، وہ سب بھی پوری گفتگو کےدوران موجود رہے۔ ان کی جن باتوں کو سمجھنے میں دقت ہورہی تھی، ان سب نے وہ باتیں بتائیں جس کی وجہ سے عبدالرشید سے گفت وشنید کرنےمیں آسانی ہوئی۔
عبدالرشید عظمت اللہ شیخ ۱۰؍جنوری، ۱۹۴۱ءکو اُترپردیش کے ضلع گونڈہ میں پیداہوئے۔ گھر سے ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع مدرسہ سے ۸؍ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ سے عربی کےعلاوہ فارسی، اُردو اور انگریزی کی پڑھائی کی۔ پڑھائی کے بعد کھیتی باری کا کام کیا۔ ۱۹۶۰ءمیں پہلی مرتبہ روزگار کی تلاش میں ممبئی آئے اور پھر یہیں کے ہوگئے۔ ممبئی آکر مدرسہ میں آگے کی پڑ ھائی کرنےکے ساتھ بچوں کو عربی کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ بطور موذن اندھیری کی نور مسجد، بائیکلہ کی موتی مسجد اور جوگیشوری کی متعدد مساجد میں ۱۸؍ سال اور ڈونگری چار نل کی نور مسجد میں متواتر ۴۰؍سال تکااذان دینے کی ذمہ داری نبھائی۔ مجموعی طورپر ۶۰؍سال تک اذان دینےکافریضہ ادا کیا۔ پیرانہ سالی کی وجہ سے اب کرلا پائپ روڈ پر مستقل سکونت اختیار کرلی ہے۔ نماز، روزہ، تلاوت اور دینی سرگرمیوں میں حصہ لینے کاسلسلہ اب بھی پابندی سے جاری ہے۔
عبدالرشید ۱۹۶۰ءمیں پہلی مرتبہ جب گونڈہ سے ممبئی آئے تھے، اس وقت ممبئی کیلئے گونڈہ سے براہ راست ٹرین نہیں تھی۔ وہ پہلے گونڈہ سےپسنجر ٹرین کےذریعے لکھنؤ پہنچے۔ جس کا کرایہ ایک روپے تھا۔ لکھنؤ سے ایک ٹرین جھانسی کیلئے روانہ ہوتی تھی جس میں ایک علاحدہ کمپارٹمنٹ ممبئی کےمسافروں کیلئے مختص تھا۔ جھانسی پہنچنے پر اس کمپارٹمنٹ کو ممبئی والی ٹرین سے جوڑ دیاجاتاتھا۔ اس طرح لوگ گونڈہ سے ممبئی پہنچتے تھے۔ لکھنؤ سے ممبئی کا کرایہ صرف ۱۳؍روپے تھا، لیکن ۲؍مقامات پر ٹرین کےبدلنے سےممبئی پہنچنےمیں کم وبیش ۳؍دن لگتے تھے۔
بابری مسجدکی شہادت کے بعد ممبئی میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادکےدوران عبدالرشید چار نل، ڈونگری کی نورمسجدمیں موذن تھے۔ پولیس نے پوری مسجدکا محاصرہ کررکھاتھا۔ کسی کو مسجدمیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اذان ہوتےہی پولیس مسجد کےدروازہ پر بندوق تان کر کھڑی ہوجاتی تھی۔ ایسےکشیدہ ماحول میں مسجدمیں ہفتوں گزارنےاور گھروالوں سے دورہونے کاشدید احساس ہواتھا۔ اسی دوران فساد اور پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہونےوالوں کوغسل دینے کامنظر بھی انہیں یاد ہے۔ متوفیوں کےگھر یااسپتال کےمردہ خانہ جاکربالخصوص پولیس کی گولیوں سے مرنے والوں کے زخموں سے چھلنی جسم کو دیکھ کر انہیں بہت تکلیف ہوتی تھی لیکن اللہ نےانہیں ہمت دی تھی۔ اس دوران انہوں نے ڈیڑھ ۲۰۰؍ مرحومین کاغسل کرایاتھا۔
۲۰۰۳ءمیں عبدالرشید نے حج کی ادائیگی کیلئےفارم بھرا تھا۔ خوش قسمتی کی بات تھی کہ عازمین کی فہرست میں ان کا نام بھی آگیاتھا۔ وہ ایک تھیلی میں ۲۵؍ ہزارروپے لے کرحج آفس جارہےتھے۔ نورمسجد کےقریب ایک دھوکہ بازنےانہیں روک کرکہاکہ تم کہاں جارہےہو؟ میں سی بی آئی کا افسر ہوں۔ تمہیں پولیس اسٹیشن میں بلایاگیاہے۔ اس طرح کی باتیں کرکے پہلے اس نے انہیں خوفزدہ کیاپھر پولیس اسٹیشن چلنےپر مجبورکرنے لگا۔ اسی دوران ان کے ہاتھ کی تھیلی ٹٹولتےہوئے اس نے تھیلی سے ۲۵؍ ہزار روپے نکال لئے۔ اسی درمیان عبدالرشید نے اس سےکہاکہ ٹھیک ہے، چلوپولیس چوکی، اس بیچ وہ یہاں سے مذکورہ رقم لے کر فرارہوگیا۔ اس کےجانے کےبعدعبدالرشید پولیس چوکی پہنچے، ڈیوٹی افسرسے پوری روداد بیان کی۔ وہاں پر موجود پولیس افسرنے بتایاکہ ہم نے کسی کونہیں بھیجاہے۔ تب انہیں احساس ہواکہ ان کےساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ اس کاانہیں بہت غم ہوا۔ ۴۔ ۵؍دنو ں تک انہوں نے کھانانہیں کھایا، صرف روتے رہے۔ انہیں محسوس ہورہاتھاکہ شاید وہ اب حج پرنہیں جاسکیں گے۔ ایسےمیں اللہ کےبندوں نے خاموشی سے ان کی مدد کی اور اسی سال وہ حج پر گئے۔
عبدالرشیدکے والد اور داداکی زندگی انتہائی مشقت بھری رہی ہے۔ کچھ پیسوں کیلئے یہ لوگ بیل گاڑی سے ۷۰۔ ۶۰؍ کلومیٹرکا فاصلہ ایک ہفتہ میں طےکرتےتھے۔ دراصل یہ لوگ اپنےگائوں سےدورجاکر گُڑ لاکرفروخت کرتے تھے۔ ۷؍دنوں کےکھانےپینے کاانتظام یعنی اناج وغیرہ ساتھ میں رکھ لیتے تھے۔ شام ہوتے ہی بیل گاڑی کسی مناسب جگہ کھڑی کرکے یہیں کھاناپکاتے، کھاپی کر سوجاتے اور صبح ہوتے ہی پھر سفر شروع کر دیتے تھے۔ ۷؍ دنوں کاسفرطے کر کےبازارپہنچتے وہاں سےگُڑکی خریداری کرتے اور پھر ۷؍دنوں کا سفرکرکے اپنے گائوں لوٹتے، یہاں پہنچ ہفتہ واری بازار میں گُڑ فروخت کرکےدوبارہ گُڑخریدنے چلے جاتے۔ اس طرح کچھ پیسےکماکر ان لوگوں نےاپنے بچوں کی پرورش کی تھی۔
عبدالرشیدنے ڈونگری کی نورمسجدمیں متواتر۴۰؍سال تک اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ اس دوران ان کاقیام کرلامیں تھا۔ وہ روزانہ علی الصباح ۵؍بجےکرلا سے لوکل ٹرین پکڑکر سنڈھرسٹ روڈ پہنچتے، فجرکی اذان سے کچھ دیر پہلےنو رمسجد پہنچ کر اذان دیتےتھے۔ کبھی ایسانہیں ہوا کہ وہ اذان دینے کےوقت سے پہلےوہ مسجد نہ پہنچے ہوں۔ اپنی ذمہ داری سے متعلق وہ اس قدر پابندرہے۔
بچپن اورنوجوانی کاوقت آبائی گائوں میں گزارنےوالے عبدالرشید، جب کھیتی باری کیاکرتےتھے۔ اس دورمیں لوگ گھر سےکھیت جاتے وقت، جانوروں سےاناج کومحفوظ رکھنےکیلئے لاٹھی، بلم اوردیگرہتھیار لے جاتے تھے۔ اس دور میں عموماًلکڑ بگھا، نیل گائےاور بھیڑیاوغیرہ کھیتوں میں گھس کر کھیتوں کو تباہ وبرباد کردیتےتھے۔ عبدالرشید کومتعدد مرتبہ ان جانوروں سے مقابلہ آرائی اور انہیں ماربھگانےکا تجربہ رہا ہے۔ ایک مرتبہ ان کےکھیت کےدرمیانی حصہ میں اُرد کی دال رکھی تھی، اسی جگہ ایک بکری بندھی ہوئی تھی۔ اچانک ایک بھیڑیا یہاں پہنچ گیا۔ اس نے بکری کو اُٹھانےکی کوشش کی لیکن وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ اسےنہیں اُٹھاسکا۔ اتنے میں عبدالرشیدکی نظر بھیڑیاپر پڑی، انہوں نے شور مچایا، اطراف کےدوسرے کسان بھی عبدالرشیدکی آواز سن کر وہاں پہنچ گئے۔ ان سب نے مل کر بھیڑیےکو تقریباً ۲؍کلومیٹر تک دوڑایاتھا، یہ واقعہ بھی انہیں اب تک یاد ہے۔