Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ایک تقریب میں دلیپ کمار نے کہا تھا میں پٹھان سے آدھا کوکنی ہوگیا ہوں ‘‘

Updated: May 04, 2025, 1:06 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

چپلون، رتناگیری کے ۸۲؍سالہ محمد شریف حسین دلوی نے اپنے کریئر کا آغاز بطور معلم کیا تھالیکن بعد میں دبئی چلے گئے جہاں وہ ۲۹؍سال تک رہے، وہاں سے سبکدوش ہونےکےبعد ۲۰۰۴ء سے علمی، تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

Muhammad Sharif Hussain Dalvi Photo: INN.
محمد شریف حسین دلوی۔ تصویر:آئی این این۔

مرجولی، چپلون، ضلع رتناگر ی میں رہائش پزیر محمد شریف حسین دلوی کی پیدائش کوکن کے ضلع قلابہ (موجودہ رائے گڑھ) کے قصبہ ہرویت تحصیل شرح وردھن، میں یکم نومبر۱۹۴۲ءکو ہوئی۔ ۸۲؍سالہ محمد شریف حسین دلوی کی ابتدائی تعلیم کاآغاز ضلع پریشد تحتانوی اسکول سے ہوئی۔ ان کےوالد صاحب درس وتدریس کے پیشے سے منسلک تھے اور کوکن کےمتعدد اسکولوں میں اپنی خدمات اداکرتے رہے۔ اس دوران جہاں جہاں ان کا تبادلہ ہوتا رہا، اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ ہی رکھا۔ اسی انہوں نے تحصیل کھیڈ (رتناگیری ) قصبہ سولس اورکرجی اسکول سے ہفتم جماعت کا بورڈ امتحان سال ۱۹۵۵ءمیں امتیازی نمبر وں سے پاس کیا۔ اس وقت کے مشہور حاجی دائود امین ہائی اسکول، تحصیل چپلون سے گیارہویں جماعت کا بورڈ امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیااور درجہ بندی میں اوّل رہے۔ کالج کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر رتناگری کے آربی گوگٹے کالج میں داخلہ لیا۔ مالی دشواری بھی رہیں، اسلئے طالب علمی کے دور ہی میں آمدنی کا ذریعہ تلاش کیا اور پھر پیشہ معلمی کو اپنا لیاتاکہ والد کا ہاتھ بٹا سکیں۔ اس طرح عملی زندگی میں قدم رکھنے کا موقع نصیب ہوا۔ پیشہ ٔ معلمی کا آغاز اپنی مادرِ علمی حاجی دائود امین ہائی اسکول سے ہوا۔ بعدازیں تحصیل مہاڈ، قصبہ وہور کے فجندار ہائی اسکول میں اُردو، فارسی اور انگریزی جیسی زبانوں میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اسی دوران ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس کالج سے آرٹ ٹیچنگ ڈپلومہ کا کورس مکمل کیا۔ تدریسی ایام میں تحصیل معاش اور تعلیم کےفارمولے پر عمل کرتےہوئے، مہاڈ کے امبیڈکر کالج سے بحیثیت خارجی طالب علم بی اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۱؍سال تک تدریسی پیشے سے وابستہ رہنے کے بعد دبئی کا سفر کیا جہاں انہیں آٹوبزنس میں قسمت آزمائی کرنی پڑی۔ ۲۹؍سال تک دبئی میں خدمات پیش کیں۔ وہاں سے۲۰۰۴ء میں سبکدوش ہوئے۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد کل وقتی طورپر علمی، تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ 
چپلون میں ۲۳؍جولائی ۲۰۲۱ءکو ہونےوالی طوفانی بارش کا خوفناک منظر محمدشریف حسین دلوی ا سلئے نہیں بھولے ہیں کیونکہ ان کی والدہ نے یہ شب موت وزندگی کی کشمکش میں گزاری تھی۔ ہر شب کی طرح یہ شب بھی آئی تھی لیکن اپنے ساتھ فتنہ آشوب کا سامان بھی لے کر آئی تھی۔ تیز بارش کی شکل میں ایک قہر ٹوٹاتھا۔ اس پر مستزاد کوئنا ڈیم کاپانی بھی بلاکسی انتباہ کے نصف شب میں چھوڑ دیاگیاتھا، جس کی وجہ سے کوکن کی زمین ماتم سرا بن گئی تھی۔ سیلاب کی طغیانی نے آناً فاناً دیہات، چٹیل میدان، شاہراہوں، مضافات کی بستیوں اور شہرکے رہائشی اورکاروباری دکانوں اور مکانوں کو اپنی زد میں لے لیا تھا۔ مالی نقصانات کے ساتھ ہی انسانی جانوں کا بھی اتلاف ہوا تھا۔ اس درمیان دل دہلانےوالے ایک واقعے کو محمد شریف بھلا نہیں پارہےہیں۔ اس روز ان کی والدہ محمدشریف کے برادرخرد کے یہاں مقیم تھیں۔ نصف شب کو اپنے بیڈ روم میں تنہاسوئی تھیں۔ سیلاب کی کی وجہ سے بہت تیزی کے ساتھ پانی گھر میں گھس آیا تھا، کمرےکی کھڑکیاں اور دروازہ پانی کی شدت سے بندہوگئے تھے۔ والدہ ایلومنیم کی بیڈ پر سوئی تھیں ، وہ بیڈ پانی کی سطح پر تیرنے لگا تھا۔ سیلاب کی شدت دیکھ کر خاندان، گھر کے افراد اور برادری کے لوگ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد سب نے رات بھر کمرہ کے باہر ہی سے ان کی ہمت اور ڈھارس بڑھانےکی کوشش کی۔ والدہ نے تن تنہابیڈ پر بیٹھ کر رات گزاری، صبح تک دھیرے دھیرے پانی کی سطح میں کمی آئی، اس کے بعد کہیں جاکر بیڈ روم کادروازہ کھل سکا۔ اس طرح ۹۹؍سالہ والدہ موت کے چنگل سے بچ کر باہر آئیں۔ اس واقعہ کی یاد آتی ہے تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتےہیں۔ 
محمد شریف کے والد بزرگوار جس قصبہ میں معلمی کے فرائض انجام دے رہےتھے۔ وہاں کے اسکول میں متعدد طلبہ ایسے تھےجن کا رجحان تعلیم کی طرف کم، کھیل کود اور وقت گزاری میں زیادہ رہتاتھا۔ ان بچوں کے گروپ میں ۳۔ ۴؍ بچے لااُبالی، غیر ذمہ داراور غیر مہذب ذہینت کے مالک بھی تھے۔ والدصاحب کبھی کبھار ان بچوں کی سرزنش بھی کیا کرتے تھے۔ نتیجتاً ان طلبہ میں باغیانہ اور مخالفانہ ذہینت پروان چڑھنے لگی، جو آگے چل کر چوری اور ڈاکہ جیسی عادتوں میں بدل گئی لیکن وہ بچے اس کا انتقام خود ان سے لیں گے، اس کی توقع ہرگز نہیں تھی۔ 
واقعہ یہ ہے کہ محمد شریف کے والدصاحب معلم کے علاوہ پوسٹ ماسٹر کافریضہ بھی انجام دیتے تھے۔ یہ ۵۲۔ ۱۹۵۱ء کی بات ہے۔ محمد شریف جس مکان میں رہائش پزیر تھے، اس کے ایک کمرے میں پوسٹ آفس تھا۔ ایک شب محمد شریف اور گھر کے دیگر افراد بطور مہمان دوسری بستی میں گئے تھے۔ دوسرے دن واپسی پر مکان میں آنا ہواتو صدر دروازہ کا تالا ٹوٹا ملا۔ اندرقدم رکھتے ہی والد صاحب کی نگاہ پوسٹ آفس کی الماری پر گئی۔ دونوں کواڑ اَدھ کھلے ملے۔ الماری سے نقدی اور اہم دستاویزات غائب تھے۔ فوراً سرپنچ اور قریبی تحصیل پولیس اسٹیشن میں شکایت کی گئی۔ تحقیقات کے دوران بغل والے کمرے کابھی تالا ٹوٹا ہواملا۔ پولیس کی تفتیش میں دو نام سامنے آئے۔ دونوں کو حراست میں لیاگیا۔ ان سے پوچھ تاچھ کی گئی تو دونوں نے اقبال ِ جرم کرلیا۔ پتہ چلا کہ یہ نوجوان انہیں کے شاگرد تھے۔ پولیس نے سوال کیا کہ چوری کیوں کی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہمارے اُستاد بہت سخت تھے جو اکثر ہمیں ڈانٹتےاور ہماری سرزنش کرتے تھے، اسلئے ہم نے انہیں سبق سکھانے کیلئے ایسا کیاتھا۔ 
محمد شریف حسین شہنشاہ جذبات یوسف خان عرف دلیپ کمار کے بڑے مداح ہیں۔ دلیپ کمار نے اپنے فن کے ساتھ تو انصاف کیا ہی، انسانیت کی خاطرجو خدمات انہوں نے انجام دیں، وہ بھی ناقابل فراموش ہیں۔ ادبی تحریکیں ہوں، مشاعرے، کرکٹ ٹورنامنٹ، افطار پارٹی ہو، اس طرح کی تمام تقریباب میں شرکت کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر کوکن بینک کےایک ذیلی شاخ کی افتتاحی تقریب میں محمد شریف کو شرکت کرنےکاموقع ملا۔ اس تقریب میں دلیپ کمار نے ایک دلچسپ جملہ کہاتھا کہ ’’ میں کوکن بینک کا افتتاح کرتے کرتے پٹھان سے آدھا کوکنی ہوگیاہوں۔ محمد شریف کو دلیپ کمار کا یہ جملہ اتنا پسند آیا تھا کہ انہیں آج بھی یاد ہے۔ اس موقع پر دلیپ کمارنے بتایا تھا کہ اب تک وہ کوکن بینک کے ۹؍ ذیلی شاخوں کا افتتاح کرچکے ہیں۔ 
۱۹۷۱ءمیں جب پاکستان تقسیم ہوااور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا، اس دور میں حکومت ہندکی جانب سے چند احتیاطی اقد امات اختیا ر کئے گئے تھے۔ پورے ملک میں شام ہوتے ہی بلیک آئوٹ کانظم نافذ تھا۔ اس دوران لوگوں میں ایک ذہنی تنائو کے چلتے خوف وہراس کاماحول پیدا ہونا یقینی تھا۔ ہوسٹل کے بچے نصف شب تک جاگتےاور موم بتی کی روشنی میں پڑھائی کرتےتھے۔ بعض کمزور دل بچے رات کی تاریکی کی وجہ سے خوف کے مارے نیند سےہڑبڑا کر اُٹھ جاتے تھے۔ اس دوران کچھ بچے ہسٹریا نامی بیماری کے شکاربھی ہوگئے تھے۔ 
۱۹؍جون ۱۹۶۶ء میں مراٹھا سمراٹ کہے جانے والے بال ٹھاکرے نے اپنی سیاسی پارٹی شیوسیناکی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کے بعد شیوسینا کے ہندو توا ایجنڈے کوکامیاب بنانےکیلئے شیوسینا کی ذیلی شاخوں کاافتتاح کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ بال ٹھاکرے نے مہاڈ تحصیل میں شیوسینا کےدفتر کا افتتاح ۱۹۶۸ءمیں کیا، اس کی افتتاحی تقریب کیلئے، ماتوشری سے گھوڑ سوار، بسوں اور نجی کاروں کاایک کارواں چلا تھا جو راستوں سے گزرتےہوئے نعرے بازی کے ذریعے بستیوں کے لوگوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیداکردیا تھا۔ یہ ایک سیاسی چال تھی۔ اس وقت چلی گئی یہ سیاسی چال آج تک لوگوں کے دلوں پرقائم ہے۔ بعد میں ان کے انتقال کے بعد کہیں جاکر شیوسینا کا دبدبہ کم ہوا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK