بھیونڈی کے ۷۵؍سالہ اسرار احمدانصاری عرف کامریڈ اسرار گزشتہ ۴۵؍ سال سے ایل آئی سی آف انڈیا سے وابستہ ہیں ، اس کے ساتھ ہی سی پی آئی ایم کےفعال لیڈر ہیں اور شہر کے کئی سماجی، فلاحی، ادبی اور تعلیمی اداروں سے جڑے ہوئے ہیں۔
EPAPER
Updated: November 02, 2025, 12:59 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
بھیونڈی کے ۷۵؍سالہ اسرار احمدانصاری عرف کامریڈ اسرار گزشتہ ۴۵؍ سال سے ایل آئی سی آف انڈیا سے وابستہ ہیں ، اس کے ساتھ ہی سی پی آئی ایم کےفعال لیڈر ہیں اور شہر کے کئی سماجی، فلاحی، ادبی اور تعلیمی اداروں سے جڑے ہوئے ہیں۔
بھیونڈی کی مشہور و معروف شخصیت ۷۵؍ سالہ اسرار احمد انصاری عرف کامریڈ اسرار، ضلع الہ آباد کے لال گوپال گنج کے قصبہ امرائو گنج میں ۱۷؍ نومبر۱۹۵۰ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم وہیں گاؤں میں حاصل کی۔ بعدازیں والدین ذریعہ معاش کیلئے مالیگائوں آئے تو آگے کی تعلیم یہاں سے حاصل کی۔ حالانکہ والدین انہیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے، لیکن ان کی طبیعت پڑھائی کی طرف مائل نہیں تھی۔ ممبئی دیکھنے اور تفریح کے شوق میں ۱۰؍سا ل کی عمر میں مالیگائوں سے تنہا بھیونڈی منتقل ہوئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ والدین انہیں تلاش کرنے کی غرض سے بھیونڈی آئے تھے۔ یہاں عزیزوں نے والدین کو سمجھایا کہ مالیگائوں کے مقابلے بھیونڈی میں ذریعہ معاش کے مواقع بہتر ہیں چنانچہ وہ بھی بھیونڈی منتقل ہوگئے اور پاور لوم کے آبائی کاوربار سے وابستہ ہوگئے۔
والدین نےاسرار احمد سےبھی یہی کام کرنے کیلئے کہا، لیکن انہیں پاور لوم کا کام پسند نہیں تھا، اس کے باوجود والدین کے اصرار اور ضرورت کے پیش نظر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس پیشے سے کچھ عرصے تک وابستہ رہے۔ اُس دور میں ایل آئی سی آف انڈیانے بھیونڈی میں پیش قدمی کی تھی۔ ۳۴؍سا ل کی عمر میں وہ ایک دن منڈئی سے گزر رہے تھے، ان کے ایک شناسا عبدالخالق نے انہیں ’کامریڈ‘ کہہ کر پکارا۔ ان کے پاس جانے پر انہوں نے کہا، کہاں غائب ہو یار، کافی دنوں سے دکھائی نہیں دیئے۔ بعدازیں ایل آئی سی کی ایجنسی لینے کی روداد بیان کر کے کہا کہ تمہیں آرٹ کے بارے میں معلومات ہے لہٰذا میری ایجنسی کا سائن بورڈ ڈیزائن کرادو۔ اسرارانصاری نے آرٹسٹ کو بلاکر ایجنسی کی جگہ دکھائی اور اپنی رہنمائی میں بورڈ بنواکر لگوادیا۔
ایل آئی سی کاچیئرمین عام طور پر اس طرح کی کسی ایجنسی کادورہ نہیں کرتاہے، لیکن اتفاق سے اُس وقت کے چیئرمین کسی کام سے بھیونڈی کے قریب آئے تھے۔ انہوں نے عبدالخالق کو ملاقات کیلئے اپنے پاس بلایا تھا۔ ان سے ملاقات کے دوران عبدالخالق نے ایجنسی کا دورہ کرنے کی درخواست کی۔ ان کے اصرار پر چیئرمین ان کی ایجنسی پر آگئے۔ اتفاق سے اس وقت اسرار احمد بھی ایجنسی پر موجود تھے۔ عبدالخالق نے چیئرمین سے اسرار احمد کاتعارف کراتےہوئےکہا کہ انہوں نے ہی ایجنسی کا سائن بورڈ بنایا ہے۔ اس طرح پہلی ہی ملاقات میں چیئرمین، اسرار احمد سے بے حد متاثرہوئے اور انہیں ایجنسی شروع کرنےکی پیشکش کی۔ اسراراحمد نے اپنی کم تعلیمی لیاقت کا ذکر کیا، جواب میں چیئرمین نے کہا کہ اس کی فکر تم مت کرو، اگر ایجنسی کھولنا چاہتے ہو تو اپنی اسکول کی سرٹیفکیٹ لائو، باقی کام میرا ہے۔ اسرار احمد نے انہیں سرٹیفکیٹ منگوا کر دیا۔ چیئرمین نےایجنسی دینے کی درخواست پر دستخط کرکے ان کےنام سے ایجنسی جاری کرنےکی ہدایت دی، بس پھر کیا تھا۔ چند دنوں میں ان کی ایجنسی شروع ہوگئی۔ انہوں نے پہلے سال ۱۳؍ اور دوسرے سال ۲۱؍لاکھ روپے کاکاروبار کیا۔ اس دورمیں جب ہزار ۲؍ ہزار بڑی رقم تھی۔ پہلے سال اسرار احمد کو ۹؍ہزار روپے بطور کمیشن موصول ہوئےتو وہ گھبرا گئے کہ کہیں غلطی سےتو اتنی بڑی رقم نہیں آگئی ہے۔ سارے حساب کتاب کی جانچ کی تومعلوم ہوا کہ کمیشن کی رقم درست ہے۔ تب سے وہ آج تک ایل آئی سی آف انڈیا کیلئے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں ۔ ۴۵؍سالہ خدمات کی بناپرانہیں ایل آئی سی آف انڈیا کے چیئرمین کلب کا رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا، جو ایل آئی سی کی اعلیٰ ترین باڈی ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے اب وہ فعال نہیں ہیں لیکن ان کی ایجنسی اب بھی کام کررہی ہے۔
غربت کے باوجود اسراراحمد کے والد انہیں پڑھانا چاہتے تھے لیکن انہیں پڑھائی میں دلچسپی نہیں تھی، اسلئے انہوں نے زیادہ پڑھائی نہیں کی جس کا انہیں اب بہت افسوس ہورہا ہے۔ ان کاخیال ہے کہ اگر والدکی بات مان کر پڑھائی کی ہوتی تو آج کا ان کامقام کچھ اور ہوتاہے۔ اسی بنا پر انہوں نے اپنے ۵؍ بچوں ( ۲؍بیٹوں اور ۳؍بیٹیوں )کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا ہے۔ سب اعلیٰ منصب پر فائز ہیں ۔ بچوں کی کامیابی میں انہیں اپنی کامیابی دکھائی دیتی ہے۔
ابتدا میں پاور لوم اور پھر ایل آئی سی سے وابستہ رہتے ہوئے انہیں سیاسی سرگرمیوں سے بھی دلچسپی رہی۔ اسی وجہ سے اُس دورکے معروف سی پی آئی ایم لیڈر گوداوری پورلیکر کا دامن تھام لیا تھا۔ ان کے ساتھ خوب کام کیا۔ سی پی آئی ایم سے منسلک ہونے سے انہیں کامریڈ کا خطاب ملا، جس سے انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ پارٹی کیلئے انتھک محنت کرنےاور ایمانداری کی بنا پر انہیں بھیونڈی کا سیکریٹری بھی بنایا گیا۔ وہ اب بھی سی پی آئی ایم سے وابستہ ہیں۔ گزشتہ ۴۵؍سال سے وہ پارٹی کیلئے سرگرم ہیں۔ اس دوران انہوں نے بھیونڈی کے علاوہ پال گھر، دھانو اور اطراف کے دیگر آدیواسی علاقوں کا دورہ کیا اور آدیواسیوں کی زندگی کو قریب سے دیکھا۔ ان کی غربت دیکھ کر اسرار احمد بہت پریشان ہوتے تھے، اسلئے جب کبھی ان کے علاقوں میں جاتے، آدیواسیوں کیلئے اناج اور ان کے بچوں کیلئے بسکٹ لے جاتے تھے۔ انہوں نے اس دور میں اپنے آس پاس آدیواسیوں کو کھانے کے نام پر اناج کھاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ درختوں کی چھال گرم پانی میں اُبال کر پیتے تھے، اسی سے اپنی بھوک مٹاتے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر ان کادل بڑا دکھتاتھااسی وجہ سے وہ جب بھی دورہ پر جاتے، آدیواسیوں کیلئے کھانے پینے کی اشیاء لے کر جاتےتھے۔
اسراراحمد کے معروف شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی سے قریبی مراسم تھے۔ حالانکہ ان کاتعلق سی پی آئی ایم اور کیفی صاحب سی پی آئی سے وابستہ تھے۔ دونوں پارٹیوں میں اکثر نوک جھونک بھی ہوتی تھی۔ اس کے باوجود اسراراحمد اکثر ان کی رہائش گاہ ’جانکی کوٹیر‘جاتے تھے۔ کیفی صاحب سی پی آئی ایم کے رضاکاروں کی بھی بڑی قدر کرتے تھے۔ اسرار احمد نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ اگر کوئی بات انہیں ناگوار گزرتی تو بلاجھجھک سامنے والے کو ڈانٹ بھی دیتے تھے، اسرار احمد بھی ان کی اس عادت کا شکار ہوچکے ہیں ۔ ایک مرتبہ مذکورہ جماعتوں سے متعلق کسی بات پر کیفی صاحب نے اسرار احمد سے کہا تھا کہ تم ایک اچھے اور باصلاحیت رضاکار ہو، ان باتوں میں کیوں پڑ تے ہو، اپنا کام ذمہ داری سے نبھائو، بس یہی ضروری ہے۔ کیفی صاحب کی نصیحت اب بھی انہیں یا دہے۔
اسرار احمد کو ڈراما دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ ایمرجنسی کےدور میں وہ بھیونڈی سے ڈراما دیکھنے کیلئے پرتھوی تھیٹر (جوہو، سانتاکروز ) جایا کرتے تھے۔ جس دن انہیں ڈراما دیکھنا ہوتا تھا، ۳۰؍روپے کا انتظام کر کے گھر سے نکلتے تھے۔ پرتھوی تھیٹر میں اس وقت ڈراما کا ٹکٹ ۲۰؍ روپے کا ہوا کرتا تھا۔ ۲۰؍روپے کا ٹکٹ لیتے اور ۱۰؍روپے دیگر اخراجات پر صرف کرتے۔ ڈراما دیکھ کر رات میں ایک بجے کے قریب بھیونڈی واپس ہوتے تب جاکر کھانا کھاتے تھے۔
سی پی آئی ایم سے منسلک ہونے کی وجہ سے انہیں ۲؍مرتبہ پارلیمنٹ میں جانے اور وہاں کی کارروائیوں کو دیکھنے اور سننے کا بھی موقع مل چکا ہے۔ اس دوران انہوں نے اس دور کے بڑے بڑے سیاسی لیڈران کو بہت قریب سے دیکھا اور پارلیمنٹ میں بحث کے دوران ان کے پیش کردہ دلائل سے استفادہ بھی کیا۔ اسی طرح مہاراشٹر اسمبلی سیشن میں بھی متعدد مرتبہ جانے کاموقع ملا ہے۔