ناگپاڑہ کے ۷۹؍ سالہ معروف سماجی کارکن عزیز مکی مکہ میں پیدا ہوئے تھے، گزشتہ ۲۰؍سال سے’ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فائونڈیشن‘ کے زیر اہتمام تعلیمی، طبی اور فلاحی سرگرمیاں انجام دے رہےہیں، جہاں سےہر ماہ ۵؍ سے ۷؍ ہزارمریضوں کی مدد کی جاتی ہے۔
EPAPER
Updated: March 02, 2025, 2:19 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
ناگپاڑہ کے ۷۹؍ سالہ معروف سماجی کارکن عزیز مکی مکہ میں پیدا ہوئے تھے، گزشتہ ۲۰؍سال سے’ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فائونڈیشن‘ کے زیر اہتمام تعلیمی، طبی اور فلاحی سرگرمیاں انجام دے رہےہیں، جہاں سےہر ماہ ۵؍ سے ۷؍ ہزارمریضوں کی مدد کی جاتی ہے۔
جنوبی ممبئی، ناگپاڑہ علاقے کی معروف سماجی، تعلیمی، سیاسی اور معاشی شخصیت شیخ عزیز احمد عبدالرحیم مکّی کی ولادت ۲۹؍اگست ۱۹۴۶ء کو سعودی عرب کے شہرمکہ میں ہوئی تھی۔ اسی لئے ’ مکی‘ ان کے نام کا ایک حصہ ہے۔ ناگپاڑہ میونسپل اُردو اسکول، احمد سیلر اور صابوصدیق ٹیکنیکل اسکول سے میٹرک پاس کرکے صابوصدیق کالج سے آٹوموبائل کا سرٹیفکیٹ کورس کررہے تھے کہ اچانک والد عبدالرحیم کی حرکت قلب بندہونے سے رحلت ہوگئی، جس کی وجہ سے پڑھائی چھوڑکر والدکے آبائی کاروبار سے وابستہ ہوگئے۔ بعدازیں اپنے طورپر بھی متعدد کاروبار مثلاً ٹرانسپورٹ، کنسٹرکشن اور راشن کی سپلائی وغیرہ کے کام سے وابستہ رہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سماجی، تعلیمی اور ملّی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یوں تومتعدد سماجی ادارو ں سے وابستگی رہی لیکن گزشتہ ۲۰؍برسوں سے ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فائونڈیشن کے زیر اہتمام، ناگپاڑہ پر واقع بی ایم سی گارڈن میں خدمت ٹرسٹ کے علاوہ دیگر چند سماجی اداروں کےاشتراک سے تعلیمی، طبی اور فلاحی سرگرمیوں کاسفر جاری ہے۔ یہاں ہر مہینے ۵۔ ۷؍ ہزارمریضوں کی مدد کی جاتی ہے۔ یہاں طبی خدمات کے متعدد شعبے ہیں جو بڑی ذمہ داری سے غریب عوام کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
عزیز مکّی کےطالب علمی کےزمانےکا ایک دلچسپ اور یادگار واقعہ ہے۔ ۱۹۶۰ءمیں صابوصدیق کالج کی سلورجبلی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے پنڈت جواہر لال نہرو کو مدعوکیاگیاتھا۔ کالج کےپروفیسر، اساتذہ اورطلبہ نے نہرو جی کے استقبال کیلئے متعدد قسم کی تیاریاں کی تھیں۔ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے طلبہ نے ایک ایسا کنول بنایاتھا، جس کے کھلنے پر اُس میں رکھے رنگ برنگے غبارے آسمان کی جانب خوبصورت انداز سے اُڑتے دکھائی دیئے تھے۔ اسی طرح کالج کے ایک ہال کےفرش پر ایسی لائٹنگ لگائی گئی تھی، جو انسان کے قدموں کےوزن کی مناسبت سے روشن ہونے والی تھی۔ ہال میں اندھیرا ہونے سے نہروجی کےقدموں کےوزن سےپھیلنے والی جگمگاتی روشنی بھی بڑی دلکش دکھائی دے رہی تھی۔ نہروجی نےان پروجیکٹ سےمتعلق تدریسی عملے اورطلبہ کی خوب ستائش کی تھی۔ اس موقع پر صابوصدیق کالج کےپروفیسر معروف سر، جوشاعر بھی تھے، نے’’یہ علم وہنر کی منزل ہے، یہ گہوارہ ہے فنکاروں کا‘‘نظم پیش کیا تھا، جونہروجی کو بہت پسندآئی تھی۔ انہوں نے اس نظم کو ۳؍مرتبہ سنا تھا۔ عزیزمکی کو ایسے اساتذہ سے علم حاصل کرنےپر فخر ہے۔
۸۰ءکی دہائی کی بات ہے، اس دور میں عزیزمکی ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ جن کمپنیوں کیلئے وہ کام کرتےتھے، ان میں دوائیوں کی کمپنیاں بھی شامل تھیں۔ متعدد دوائیاں بیرونی ممالک سے آتی تھیں، لیکن ممبئی کی بندرگاہوں پر اکثر مزدوروں کےمسائل اور مزدوری وغیرہ میں اضافہ کےمطالبات سےمتعلق یونینوں کی ہڑتال سے بندر گاہوں سے مال باہر لانا، جوئے شیر لانے کےمترادف تھا۔ ایسی صورت میں دوائیوں کی میعاد ختم ہونے اوردوائیوں کی قلت ہونے کے خدشے سے کمپنیوں کادبائو بڑھنے پر عزیزمکی بندرگاہوں سےمال باہر نکالنے کی کوشش کرتے تھے، جس کی وجہ سے یونینوں سے ٹکرائو ہوتا تھا۔ متعددمرتبہ ان پر یونین کے اراکین اور مزدوروں کی جانب سےپتھرائوبھی کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ کئی بار زخمی بھی ہوئے تھے۔
عزیزمکی ۹۰ءکی دہائی میں جنوبی ہند کے اپنے ایک دوست کے ہمراہ سنگاپور گئے تھے۔ ان کے دوست کاایک عزیزوہاں چارٹراکائونٹنٹ(سی اے) تھا۔ اس کےپاس ہندوستان کےعلاوہ دیگر ممالک کے سیاسی لیڈران کا اکائونٹ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی تھی۔ اس دور کےمتعدد ہندوستانی لیڈران کا اکائونٹ اس کے پاس تھا۔ سنگاپور میں ان لیڈران کے اکائونٹ اور مالی کاروبار کی تفصیلات دیکھ کر آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں ۔ اس کے ہندوستانی لیڈران سے قریبی مراسم تھے۔ ہندوستان میں ہونے والے اسمبلی اور لوک انتخابات کا ٹکٹ حاصل کرنے کیلئےلوگ سی اے صاحب سے رابطہ کرتےتھے۔
بابری مسجد کی شہادت کےبعد پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فسادات کےدوران سائن کے پرتیکشانگر میں پھنسے مسلمانوں کو وہاں سے نکال کر پرانے حج ہائوس میں منتقل کرنےمیں معروف سماجی اورملّی رہنما ضیاالدین بخاری کے شانہ بشانہ رہنےوالوں میں عزیزمکی بھی شامل تھے۔ بخاری صاحب نے اس مہم پر روانہ ہونے سے قبل اپنے ساتھیوں سے کہا تھاکہ وہ، گھروالوں سے یہ کہہ کر اجازت لیں کہ’، ’ ہم لوٹ کر آئے تو ٹھیک ہے ورنہ یہ سمجھ لیناکہ ہم پرتیکشانگرکےمتاثرین کی جان بچانےگئے تھے لیکن خود اپنی جان نہیں بچاسکے۔ ‘‘ بخاری صاحب کے ساتھ جوگروپ گیا تھا ان میں عزیزمکی کےعلاوہ واحدخان، احمد خان اورمحبوب گُڈو وغیرہ شامل تھے۔ پولیس سیکوریٹی میں ۴؍ٹرک پر ۱۵۔ ۱۴؍ رضاکاروں کاقافلہ روانہ ہوا تھا۔ راستےمیں ہوکاعالم تھا، پولیس اور فوج گشت کررہی تھی۔ کسی طرح یہ گروپ پرتیکشانگر پہنچا، وہاں کےمسلمان، جن میں مردوخواتین، بڑے بوڑھے، نوجوان اور بچےشامل تھے، سب کو ان ٹرکوں میں بھر کرجیسے ہی وہاں سے روانہ ہوئے، شرپسندوں نےقریب کی عمارتوں سے ٹرکوں پر آگ کےگولے پھینکے، جس کی وجہ سے کئی لوگ جھلس گئے تھے۔ ٹرکوں کے سامنے جانوروں کو کھڑا کردیاتھاتاکہ ٹرک آگے نہ بڑھ سکیں اور اگر ٹرکوں سے اُترکر جانوروں کوہٹانے کی کوئی کوشش کریں توان پر حملہ کر دیا جائے۔ اُن دنوں پولیس تماشائی بنی ہوئی تھی۔ دوپہرمیں ۲؍بجے نکلنےوالا قافلہ کسی طرح رات ۴؍بجے حج ہائو س پہنچا تھا۔ اس وقت ضیاالدین بخاری اوران کےدیگر ساتھی جذباتی ہوکر ایک دوسرے کی جان بچنے پر روروکر بغلگیر ہورہےتھے۔
۱۹۷۴ءمیں عزیز مکی ممبئی سے سنگاپورجارہےتھے۔ اچانک موسم کی خرابی سے ان کا جہاز ہوا میں خطرناک طریقہ سے ڈگمگانے لگاتھا۔ جہاز کے کیپٹن کی جانب سے موسم کی خرابی کی اطلاع دینے پر مسافروں کی حالت خراب ہوگئی۔ مسافروں کی آہ وبکاکی آوازوں سےجہاز میں خوفناک ماحول پیداہوگیاتھا۔ کچھ دیر بعد کیپٹن نےجہازکےخطرہ سے باہر ہونے کا اعلان کیا، یہ سن کرمسافروں کی جان میں جان آئی۔ جہاز کے لینڈ ہونےپر مسافراپنے عزیزوں سے مل کر جذباتی انداز میں رورہےتھے۔
عزیزمکّی کا ناگپاڑہ سے گہرا تعلق رہاہے۔ وہ اس علاقےمیں موجود ۴؍مندروں (جومستان تالاب، حجریا اسٹریٹ، پیرخان اسٹریٹ اورصوفیہ زبیر روڈ پر واقع ہیں ) کو قومی یکجہتی کی علامت قراردیتےہیں، ساتھ ہی ساروی ہوٹل کو علاقہ کالینڈمارک تسلیم کرتےہیں۔ ساروی ہوٹل اور کیڈی کمپنی (دوائوں کی دکان)کے مالک ایک تھے، جو ناگپاڑہ جنکشن پر واقع میمنی بلڈنگ میں عزیزمکی کے ہمسایہ تھے۔ اس دور میں کیڈی کمپنی سے دوائیں خریدنےکیلئے آنےوالے صارف کیلئے کیش کائونٹر پر ایک باکس میں چارمینار سگریٹ رکھی ہوتی، جسے سگریٹ پینا ہوتا، باکس سے نکال کر پیتا۔ ساروی ہوٹل کی سیخ، کباب، قیمہ اور دیگرپکوان کے ذائقہ میں اب بھی کوئی فرق نہیں آیاہے۔ عزیزمکی کےمطابق ساروی کے پکوان کاذائقہ آج بھی وہی ہے۔ بچپن میں ساروی ہوٹل کےباہر لگی بینچ پر فلم اداکار محمود اور معروف شاعر کیفی اعظمی وغیرہ کوبیٹھ کر چائے پیتے دیکھاتھا۔
ضیاالدین بخاری کےساتھ اٹل بہاری واجپئی اور ہیم وتی نندن بہوگنا سےممبئی میں ہونےوالی ایک ملاقات کےدوران سیاسی گفت وشنید کے درمیان بخاری صاحب نےواجپئی سے بڑے معنی خیز اندازمیں کہاتھا کہ ’اٹل جی اس مرتبہ ساتھ میں لڑیں گے یا آپس میں لڑیں گے‘ یہ سن کر واجپئی جی نے مسکراتے ہوئے کہاتھاکہ ساتھ میں لڑیں گے، جس پر بخاری صاحب نے کہاتھاکہ پھر باہمی اختلاف ختم کیوں نہیں کئے جاتے؟ عزیز مکی کےمطابق بڑے اور سنجیدہ لیڈران کی طنز ومزاح والی اس طرح کی گفتگو آج کے لیڈران میں نہیں دکھائی دیتی ہے۔