اُترپردیش کی ۹۰؍سالہ صدیقہ احمدحسن۱۹۸۴ء سے ممبئی میں مقیم ہیں لیکن آج بھی پابندی سے ہرسال اپنے آبائی وطن شاہ گنج، جونپور ضرور جاتی ہیں، صحت کے ساتھ ہی حافظہ بھی خوب ہے، آج تک کبھی اسپتال میں داخل ہونےکی نوبت نہیں آئی، اپنا کام خود کرتی ہیں۔
EPAPER
Updated: May 11, 2025, 3:36 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
اُترپردیش کی ۹۰؍سالہ صدیقہ احمدحسن۱۹۸۴ء سے ممبئی میں مقیم ہیں لیکن آج بھی پابندی سے ہرسال اپنے آبائی وطن شاہ گنج، جونپور ضرور جاتی ہیں، صحت کے ساتھ ہی حافظہ بھی خوب ہے، آج تک کبھی اسپتال میں داخل ہونےکی نوبت نہیں آئی، اپنا کام خود کرتی ہیں۔
ممبرا کوسہ میں مقیم ۹۰؍سالہ صدیقہ احمد حسن کابنیادی تعلق اُترپردیش کے ضلع جونپور کے شاہ گنج سے ہے۔ روزگار کے سلسلے میں ان کے والد ۱۹۳۰ء کی دہائی میں کولکاتا چلے گئے تھے۔ صدیقہ بی کی پیدائش ۱۹۳۵ء میں وہیں کولکاتامیں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم کولکاتاکے اُردو اسکول میں حاصل کی۔ اسی درمیان کولکاتا میں اچانک پھوٹ پڑنےوالےفرقہ وارانہ فساد کے بعد انہیں شاہ گنج منتقل ہوناپڑا جہاں سے انہوں نے اُردو اور عربی میں مزید تعلیم حاصل کی۔ اس دورمیں بچپن کی شادی عام تھی، والدین نےان کا بھی نکاح ۱۲؍سال کی عمرمیں کردیا تھا تاہم ان کی رخصتی ۱۵؍سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ شادی شدہ زندگی کا بیشتر حصہ شاہ گنج میں گزرا۔ خاوند کے انتقال کےبعد۱۹۸۴ءمیں بڑے بیٹے کےہمراہ ممبئی منتقل ہوئیں تو پھر یہیں کی ہوکر رہ گئیں البتہ آج بھی پابندی سے ہرسال آبائی وطن یعنی شاہ گنج ضرور جاتی ہیں۔ عمر کی اس منزل تک پہنچنے کے بعد جسمانی کمزوری کاشکارضرور ہوئی ہیں لیکن آج تک کسی بیماری کی وجہ سے انہیں اسپتال داخل ہونےکی نوبت نہیں آئی۔ اپنا کام خود کرتی ہیں ۔ عبادت کے علاوہ گھرکے کچھ ضروری کاموں میں حصہ بھی لیتی ہیں۔ تندرستی کے ساتھ ہی حافظہ بھی بہت اچھا ہے۔
اس وقت صدیقہ بی کی عمر ۵؍سال تھی۔ والدین، ۲؍بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ کولکاتا کے بی بی بگان علاقے میں رہائش پزیر تھیں۔ اچانک وہاں فرقہ ورانہ فساد پھوٹ پڑا۔ پورے شہر میں لوٹ مار، آتشزنی اور خون خرابہ ہونے سے لوگ خوف وہراس میں مبتلاتھے۔ کرائے کا مکان تھا جو لبِ سڑک پر واقع تھا، اسلئےدن رات ہونےوالے شور شرابے اورلوٹ مار کی وجہ سے ان لوگو ں نے کئی دنوں تک گھر کے دروازے اور کھڑکیاں مقفل رکھی تھیں۔ فساد رکنے کےبجائے دن بدن بڑھتا ہی جا رہاتھا۔ ایسےمیں صدیقہ بی کے والد نےوہاں سے جان بچا کرنکلنےمیں عافیت سمجھی، بڑی مشکلوں سے بی بی بگان سے کولکاتا ریلوے اسٹیشن جانے کا انتظام کیا۔ صدیقہ بی اور ان کے بھائی بہنوں کو چادر میں چھپاکر، ڈراورخوف کے ساتھ اسٹیشن پہنچے تھے اور گائوں کیلئے ٹرین پکڑلی۔ کولکاتا اسٹیشن سے باہر نکلنےکےبعد ان کی جان میں جان آئی تھی۔ شاہ گنج پہنچ کران لوگوں کو اطمینان ہوا تھا۔
صدیقہ بی کی شادی، بچپن میں ان کے ایک قریبی عزیز کے گھر طےکردی گئی تھی۔ ۱۲؍سا ل کی عمر میں ان کا نکاح ہوا۔ چونکہ شادی رشتے داری میں ہوئی تھی، اسلئے دونوں ہی جانب کے مہمان مشترکہ تھے۔ باراتی اور گھراتی دونوں ہی ایک دوسرے سے آشناتھے۔ کھانےمیں نان، بکرے کےگوشت کاسالن، چاول اور زردے سے مہمانوں کی خاطر مدارت کی گئی تھی۔ اس دور میں باراتی ایک رات دلہن کےگھر قیام کیا کرتےتھے۔ ان کے ہاں بھی باراتی ایک رات رکے تھے۔ دوسرے روز صبح ناشتے کے بعد باراتیوں کو رخصت کیاگیاتھا۔ جہیز میں ضروری برتن، کپڑےکے علاوہ چند زیورات دیئے گئے تھے۔ جن میں سے کچھ زیورات صدیقہ بی نے اپنی بیٹیوں کو ان کی شادی پر دے دیئے اور کچھ زیورات جو پرانے اور خراب ہورہے تھے انہیں فروخت کردیا۔ ان کی شادی بڑی سادگی سے ہوئی تھی، آج کی شادیوں پر بے جااسراف سے انہیں حیر ت ہوتی ہے۔
صدیقہ بی کے بچپن اورلڑکپن کے دورمیں ان کے گھر میں پردے کی بڑی سختی تھی۔ انہیں اور ان کی چھوٹی بہن کو گھر سے باہر نکلنےکی اجازت نہیں تھی۔ کبھی کبھار کسی عزیز کے گھر، شادی بیاہ یاموت مٹی کے موقع پر جاتے تھے لیکن اُس وقت پردہ کی سخت پابندی تھی۔ اس عہدمیں آمدورفت کے ذرائع بھی بہت محدود تھے۔ یکہ گاڑی عام سواری تھی، ایک گھوڑے یا گدھے سے بندھی بگھی پر پردہ کیلئے چادر یا پردہ باندھ کر خواتین سفرکرتی تھیں۔ صدیقہ بی کو یکہ کے سفر سے بہت ڈر لگتا تھا لیکن اس کےعلاوہ سواری نہ ہونے سے مجبوراً یکہ سے سفرکرتی تھیں۔ ایک یکہ میں ۳۔ ۴؍ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی تھی۔ پورے یکہ کا کرایہ ۲؍ روپے تھا۔ گائوں کے کسی گھر کے سامنے یکہ آکر رکتاتو آس پاس کے بچے چہ میگوئیوں میں مصروف ہوجاتے اور معلوم کرنےکی کوشش کرتے کہ اس گھر کے لوگ کہاں جارہےہیں۔
صدیقہ بی کے خاندانی کھیت میں مختلف قسم کے اناج مثلاً گیہوں، باجرہ، دھان اورمٹر وغیرہ کی پیداوار ہوتی تھی۔ کھیتی باری کی ذمہ داری گائوں کے کسانوں کو ادھیا ( آدھا اناج کسان کا اور آدھاکھیت کے مالک کا) پر دے دیا تھا۔ کسان کھیتی کرتے جوبھی اناج گھر میں آتا، اسی سے گھر کےافراد کے کھانے کی ضرورت پوری ہوجاتی تھی۔ علاوہ ازیں ان کے والد نے گھر کے دالان میں مختلف قسم کی سبزی ترکاری مثلاً سیم، مولی اور تورئی وغیرہ کے پودے لگارکھے تھے۔ صدیقہ بی اور ان کی چھوٹی بہن ضرورت کے اعتبار سے ان سبزیوں کو توڑ کرکھانا پکاتی تھیں۔ ان کے گھر میں چکی بھی تھی، گھر میں ہی دال وغیرہ پیسی جاتی تھی۔ گھر کی عورتیں کھاناپکانےکے علاوہ دھان کو چھانٹنے ( چاول نکالنے) کا بھی کام کرتی تھیں۔
صدیقہ بی نے بھی اپنے بچپن میں گُڑیا گُڈے کاکھیل خوب کھیلا ہے۔ ان کی قریبی سہیلیاں جمیلہ، حسینہ اور صغراء مل کر گُڑیاگُڈے کی شادی کرتی تھیں۔ ان سہیلیوں کے کھیل کود میں گھر کے لوگ بھی حصہ لیتے تھے۔ صدیقہ بی نے ایک مرتبہ اپنی گُڑیاکی شادی اپنی سہیلی کے گڈے کے ساتھ بڑے دھوم دھام سے کی تھی۔ گُڑیا کے شادی کا کپڑا اپنی والدہ سے سلوایاتھا، ساتھ ہی شادی میں آنےوالوں کیلئے باقاعدہ گوشت پلائو ان کی والدہ نے پکایاتھا۔ گھر کے سبھی افراد نے بچوں کے کھیل میں شرکت کی تھی۔ بڑا لطف آیاتھا، تاہم ایک مرتبہ قریبی عزیز نے صدیقہ کو سمجھاتے ہوئے کہاکہ گڑیا گُڈے کی شادی شرعی طورپر مناسب نہیں ہے، ایسامت کیاکرو۔ اس دن کے بعد سے صدیقہ بی نے یہ کھیل کھیلنا بند کردیا، لیکن آج بھی انہیں گُڑیاگُڈے کی شادی کاکھیل یادہے۔
صدیقہ بی کے بچپن میں ، ان کےگائوں میں بجلی نہیں ہوا کرتی تھی۔ لوگ ہر موسم بغیر بجلی کے گزارتےتھے۔ گرمی کے موسم میں گرمی کی وجہ سے شدید تکلیف ہوتی تھی۔ لوگ ہاتھ کا پنکھاجھل کر گرمی کا مقابلہ کرتے تھے۔ شام ڈھلنے سے قبل گھروں میں رات کاکھانا پکالیاجاتاتھاتاکہ اندھیرے میں چولہے کے سامنے کھاناپکانے کی دِقت سے بچاجاسکے۔ لالٹین اور ڈھبری ( چراغ ) کی روشنی میں رات کاکھانا کھاتے تھے۔ شام ہوتے ہی پورے گائوں میں اندھیرا چھاجاتا تھا۔ مغرب کے بعد سڑکوں پر سناٹا ہوتا، لوگ اپنے اپنے گھروں کی راہ لے لیتےتھے۔
صدیقہ بی کے آباواجداد کی شاہ گنج میں کافی زمین تھی۔ اُس دورمیں زمین کی بہت زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ کچھ اچھے لوگ عزیز وں کے علاوہ غریب، مسکین اور مجبوروں کو بلامعاوضہ بھی زمین دے دیاکرتےتھے۔ صدیقہ بی کےسسرال والوں نے بھی دھوبی، نائواور لوہار وغیرہ کوزمین دے کر انہیں زندگی بسرکرنےکاموقع دیاتھا جس کےبدلےمیں دھوبی ان کے گھر کےکپڑے اور نائو گھرکے افرادکےبال وغیرہ بنایا کرتے تھےلیکن اب ان خاندان کے بچوں نے پڑھائی لکھائی کر کےاچھی ملازمت حاصل کرلی ہے۔ اب وہ دھوبی اور نائو کے روایتی کام نہیں کرتے ہیں لیکن ان زمینوں پر آج بھی ان کا قبضہ ہے۔ ترقی او رکامیابی حاصل کرنےکےباوجوداب بھی ان کے گھر کے افراد صدیقہ بی کے بال بچوں کی بڑی عزت کرتے ہیں ۔
صدیقہ بی کے گائوں میں ایک دائی ہواکرتی تھی۔ دائی کاگھر بھی صدیقہ بی کی زمین پربنا ہے۔ جب کبھی دائی کی ضرورت پڑتی، وہ فوراً حاضر ہوجاتیں۔ اس دورمیں بچے کے پیدائش پر دائی کو نقدی دینے کا رواج نہیں تھا۔ دائی کو معاوضے کے طورپر گاؤں کے لوگ گیہوں، چاول، دال اور دیگر اناج دیا کرتے تھے۔