Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’اُس دور میں دولہےکی بیل گاڑی آگے اورباراتیوں کی بیل گاڑیاں پیچھے چلتی تھیں ‘‘

Updated: May 25, 2025, 1:14 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

ناگپاڑہ، کلیئر روڈ کے پروفیسر حاجی نتھو بھائی کلانیہ نے نہایت کسمپرسی کے حالات میں تعلیم حاصل کی اور پھر پوری زندگی تعلیم ہی سے وابستہ رہے، مہاراشٹر کالج سے سبکدوش ہوئے تو انتظامیہ میں شامل ہوگئے اور بطور جنرل سیکریٹری اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

Professor Haji Nathubhai Kalaniya. Photo: INN.
پروفیسر حاجی نتھو بھائی کلانیہ۔ تصویر: آئی این این۔

ناگپاڑہ، کلیئر روڈ کے ۸۶؍سالہ پروفیسر حاجی نتھو بھائی کلانیہ کی پیدائش گجرات کے بھائونگر ضلع کے بھورنگڑا گائوں میں ۳۱؍جولائی ۱۹۳۹ءکو ہوئی تھی۔ ان کی پیدائش حج والے دن ہوئی تھی، اسلئے والدین نے ان کا نام حاجی رکھا۔ گائوں کے گجراتی میڈیم اسکول سے ۷؍ویں تک تعلیم حاصل کی۔ گائوں میں آگے کی پڑھائی کا نظم نہ ہونے سے یہاں سے۱۵۔ ۱۲؍کلومیٹر کی دوری پر واقع ساور کنڈلا گائوں کے نوتن ودیالیہ سے میٹرک کی تعلیم پوری کی۔ بعدازیں ایک میمن فیملی کے توسط سے آگے کی پڑھائی کیلئے ممبئی منتقل ہوئے۔ جوگیشوری کےاسماعیل یوسف کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں سے سائنس فیکلٹی میں انٹر سائنس کیا۔ اس کے بعدانہیں آئی آئی ٹی بامبے، انجینئرنگ میں داخلہ مل گیاتھا لیکن مالی مشکلات کی وجہ سےداخلہ نہیں لے سکے، اسی دوران ٹی بی کے مرض میں مبتلاہونےکی وجہ سے ڈاکٹر نے انہیں ممبئی سے منتقل ہونے کامشورہ دیا۔ اس کے بعد وہ پھر گجرات چلے گئےاور وہاں کےموربی ضلع کے مہندر سنگھ جی سائنس کالج سے سائنس میں گریجویشن کیا۔ بعدازیں جام نگر کے ڈی پی پی کالج سے ایم سی کیا۔ عملی زندگی کا آغاز مہوا (گجرات ) کے پاریکھ کالج سےبحیثیت لیکچرار کیا۔ اسی دوران اسی میمن فیملی کے توسط سے جنہوں نے تعلیمی سفر میں مدد کی تھی، انجمن خیرالاسلام ٹرسٹ کے بانیان میں سے ایک محمد علی مٹھاسےملاقات ہوئی۔ انہوں نے مہاراشٹر کالج میں ملازمت کی پیشکش کی۔ اس طرح ۱۹۶۹ءمیں لیکچرار کی حیثیت سے مہاراشٹرکالج جوائن کیااور ۱۹۹۹ءمیں بطورپر وفیسر وہیں سبکدوش ہوئے۔ کالج کے تئیں ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے ٹرسٹ نے انہیں منیجنگ کمیٹی میں شریک ہونے کا موقع دیا۔ اس کے بعد سے وہ اب بھی اس باوقار ادارے کی منیجنگ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری کے عہدہ پر فائز ہیں اور عمر کے اس مرحلے پر بھی کالج کے دن دونی رات چوگنی ترقی کیلئے کوشاں ہیں۔ علاوہ ازیں متعدد تعلیمی، سماجی اور فلاحی اداروں سے وابستہ ہیں۔ 
پروفیسر حاجی کلانیہ کاتعلق ایک غریب خانوادے سے رہا ہے۔ جس وقت ان کے والد کا انتقال ہوا، ان کی عمر صر ف ڈیڑھ سال تھی۔ ۶؍بھائیوں اور۳؍بہنوں کی کفالت والدہ کیلئے آزمائش بھرا رہا۔ ان حالات میں ۲؍وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بڑا مسئلہ تھا۔ اُس وقت راجہ کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ پسماندہ طبقے کے لوگ مثلاً ہری جن، بھنگی اور دیگر پچھڑی ذات کے لوگ، لوہار، حجام، درزی، موچی اور اس طرح کے دیگر پیشہ ور افراد سال بھر گائوں کے متمول گھرانے کےافراد کیلئے کام کرتے تھے۔ مثال کے طورپر حجام ان کےگھروں کے افراد کے بال داڑھی مفت میں بناتےتھے، اس کے عوض انہیں پیسہ نہیں اناج دیا جاتاتھا۔ پروفیسر کلانیہ کاتعلق گھانچی خاندان سے ہے، ان کے گھرمیں تل اور مونگ پھلی کا تیل نکالنے کا کام ہوتاتھا۔ جس کےعوض انہیں مزدوری نہیں بلکہ اناج ملتا تھا۔ اسی اناج سے ان کے گھر میں کھانا بنتاتھا۔ 
 مفلسی کی وجہ سے پروفیسر کلانیہ کاتعلیمی دور آزمائش بھرا رہا۔ ساتویں کے بعد آگے کی پڑھائی کیلئے وہ اپنے گائوں سے ۱۵؍ کلومیٹر کی دوری پر پسماندہ طبقے کے نوجوانوں کیلئے بنائے گئے ایک ’چھاترلیہ‘ میں داخلہ لے کر آگے کی پڑھائی کرناچاہتےتھےلیکن ان کے پاس چھاترلیہ کی ۵؍روپے فیس کابھی انتظام نہیں تھا۔ قریبی متعلقین سے ۵؍روپے قرض لے کر انہوں نےچھاترلیہ میں قیام وطعام کی سہولت حاصل کی تھی۔ یہاں رہ کر انہوں نے ایک قریبی اسکول سے میٹرک کاامتحان پاس کیا تھا۔ اسی طرح کالج کی پڑھائی کےدوران ایک کالج میں داخلہ تو حاصل کرلیا تھا لیکن کھانے کےماہانہ ۱۵؍روپے کا بندوبست نہ ہونے کی صورت میں انہوں نے ایک اسکیم کے تحت ساڑھے ۷؍ روپے کی اسکالر شپ حاصل کرلی تھی۔ یہ رقم وہ کھانا دینےوالی بائی کو دے کر ۲؍ کے بجائے صرف ایک وقت کھانا کھاتے تھے۔ ایک دن بائی نے ان سے پوچھ لیاکہ تم ایک وقت کھانا کیوں کھاتے ہو، جس پر انہوں نے کہاکہ میرے پیٹ میں تکلیف ہے اسلئے صرف ایک وقت کھانا کھاتا ہوں لیکن سچائی یہ تھی کہ دوسرے وقت کے کھانے کاپیسہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھوکے رہتےتھے۔ اس طرح کی متعدد آزمائشوں اور مصائب سے گزرتے اور ان کامقابلہ کرتے ہوئے انہوں نے اپناتعلیمی سفر مکمل کیا تھا۔ 
ان دنوں گاؤں میں امن و سکون، بھائی چارگی اورقومی یکجہتی کا بول بالاتھا۔ لوگوں کے پاس پیسے نہیں تھے لیکن زندگی پُرسکون تھی، رات کو کھلے آسمان کے نیچے بلاکسی خوف کے لوگ چارپائی بچھا کر سوجاتے تھے۔ چاروں طرف خاموشی ہوتی، رات کے وقت صرف کتوں کے بھونکنےکے سوا کوئی آواز نہیں سنائی دیتی تھی، مور کی آواز سے لوگوں کی صبح ہوتی تھی۔ آج رات توکیا دن میں ڈر لگتا ہے۔ لوگ ہندومسلمان کے نام پر تفرقہ پھیلا رہےہیں جبکہ اس دور میں گنگاجمنی تہذیب عروج پر تھی، ہندومسلمان کو مسلمان ہندو کو دیکھ کر ان کی خیر خیر یت معلوم کیا کرتےتھے۔ 
اس دورمیں گجرات میں بارات بیل گاڑیوں پر جاتی تھی۔ دولہےکی بیل گاڑی سب سے آگے ہوتی تھی بعدازیں باراتیوں کی بیل گاڑیاں ہوتی تھیں۔ شادی کے وقت دولہاکو ۳؍دنوں کا راجہ تسلیم کئے جانے کی بھی ایک رسم تھی۔ ایسےمیں بارات کے وقت اگر گائوں کے مہاراجہ کی موٹرگاڑی سامنے آجاتی تو وہ اپنی گاڑی کنارے لگا کر دولہا کی بیل گاڑی کوآگے جانے کی اجازت دیاکرتےتھےکیونکہ ان کاخیال تھاکہ مہاراجہ تو راجہ ہوتا ہی ہے لیکن دولہا صرف ۳؍دنوں کا راجہ ہوتاہے، اسلئے اسے اہمیت دی جانی چاہئے۔ شادیاں بڑی سادگی سے ہوتی تھیں۔ پروفیسر کلانیہ کی شادی ۱۹۶۷ءمیں صرف ایک ہزارروپے میں ہوئی تھی جس میں دلہن کے زیورات بھی شامل تھے۔ اُس وقت سونا ۱۲۰؍روپےتولہ تھا۔ مہر کی رقم گھروالوں کی مالی حیثیت کےمطابق قاضی صاحب طے کیاکرتے تھے۔ 
مہاراشٹر کالج سے دیرینہ وابستگی اور اس کےبانیان منشی محی الدین گورکھپوری، یوسف یحییٰ، محمدعلی مٹھا، اسماعیل خان اور حبیب سیٹھ وغیرہ کا پروفیسرکلانیہ بڑا احترام کرتےہیں ۔ وہ منشی گورکھپوری کے اس واقعہ کو نہیں بھول سکے ہیں۔ ایک روز صبح پونے ۷؍بجے کالج پہنچنے پر، صدر دروازہ پر منشی صاحب کو دیکھ کرحیرت ہوئی۔ انہوں نے پوچھا’’سر اس وقت آپ یہاں ؟‘‘ اس پر انہوں نے ایک یادگار جملہ کہاتھا کہ ’’کل جب تمہارے ہاتھوں میں اس ادارے کی باگ ڈور چھوڑکر جائوں تو یہ احساس نہ ہوکہ کالج کی تعمیر وترقی میں تساہلی برتی گئی ہے، اسی لئے پوری رات یہاں گزاری ہے، اب گھر جارہاہوں۔ ‘‘ اس وقت کالج کی عمارت کی تیسری منزل کی ڈھلائی کا کام جاری تھا، اس کی نگرانی کیلئے منشی گورکھپوری نے پوری رات وہیں گزاری تھی۔ ایسے قوم کے ہمدردر اور ذمہ دار لوگ ہوا کرتےتھے۔ 
مہاراشٹرکالج کی تعمیرکیلئے ان ذمہ داران نے اپنی قوت کے مطابق بھر پور کوششیں کی تھیں لیکن مٹھاصاحب کا ایک واقعہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وہ فجر کی نماز اکثر حاجی علی درگاہ کی باہر کی مسجدمیں پڑھنے جایاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ مٹھا صاحب اور پروفیسرکلانیہ نماز پڑھنے گئے تھے۔ نماز پڑھ کرباہر نکلنے پر ایک عرب کو غریبوں میں ۱۰۰؍ روپے کی پرانی بڑی نوٹ تقسیم کرتےدیکھ کر مٹھا صاحب نے پروفیسر کلانیہ سے قطار میں لگنےکیلئے کہا، جس پر پروفیسر کلانیہ نے کہاکہ یہ غریبوں کا حق ہے، مٹھا صاحب نے اصرار کرکے انہیں قطار میں کھڑا کردیااور خود بھی پیچھے کھڑے ہوگئے۔ ۲۰۰؍ روپے ملنے کےبعد انہوں نے اس کی رسید بنائی اور کالج فنڈمیں رقم جمع کرادی۔ اس طرح فنڈ جمع کرکے کالج کی تعمیر عمل میں آئی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK