• Sun, 23 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گوشہ بزرگاں: اندراگاندھی نے بھیونڈی کے دورے پر کہا تھاکہ شہر میں ترقی چاہئے تو امن کا قیام ضروری ہے

Updated: November 23, 2025, 5:07 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

بھیونڈی کے ۷۵؍سالہ محمد شفیع مقری بہت زیادہ تعلیم نہیں حاصل کرسکے لیکن دوسروں کی تعلیم کیلئے وہ شروع ہی سے جدوجہد کرتے رہے، ان کیلئے یہ فخر کی بات ہے کہ انہوں نے جس ادارے (رئیس اسکول) سے تعلیم حاصل کی، بعد میں اسی کے چیئرمین بنے۔

Muhammad Shafi Muqari, a famous educational and social figure of Bhiwandi. Photo: INN
بھیونڈی کی مشہورتعلیمی اور سماجی شخصیت محمد شفیع مقری۔ تصویر:آئی این این
بھیونڈی،واجہ محلہ کے ۷۵؍ سالہ محمد شفیع محمدمیاں مقری کی پیدائش ۱۴؍ جون ۱۹۵۱ء کو ہوئی تھی۔پرائمری تعلیم پتھروالی اسکول اور سیکنڈری کی پڑھائی رئیس ہائی اسکول سےمکمل کی۔ گھر کے معاشی حالات اچھے نہیں تھے،اسلئے بھیونڈی کے بی این این کالج میں ایک سال پڑھائی کر کے تعلیم ادھوری چھوڑی دی اور تھانے میں اپنے بہنوئی کی چپل کی دکان پر کام کرنے لگے۔ وہاں پر انہوں نے ۵؍سال تک کام کیا۔  بعدازیں پاور لُوم کے آبائی پیشے سے وابستہ ہوئے ۔ ۲۰۰۰ء تک لُوم کے کاروبار میں مصروف رہے۔ اس دوران اوراس کے بعد بھی ان کی سماجی، فلاحی، تعلیمی اور ملّی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی مصروفیت برقرار رہی۔انہیں خدمات کے پیش نظر کوکن مسلم ایجوکیشن سوسائٹی (کے ایم ای ایس) میں کئی عہدوں کیلئے منتخب ہوئے اور پھر رئیس ہائی اسکول  کا چیئرمین بننے کا اعزاز بھی  حاصل رہا۔ یہ کسی کیلئے بھی فخر کی بات ہے کہ وہ جس ادارے سے تعلیم  حاصل کرے، بعد میںاسی کا چیئرمین بن جائے۔ اس کیلئے وہ فقیہ خانوادے کے مشکور ہیں۔ وہ ۲۰۲۰ء تک کےایم ای ایس کے ساتھ کافی سرگرم رہے۔ فی الحال ان کی سرگرمیاں محدود ضرور ہوئی ہیں لیکن آج بھی وہ متعدد سماجی، تعلیمی اورملّی ادارو ں کیلئے اپنی خدمات پیش کررہےہیں۔بھیونڈی امن کمیٹی کےممبرہونےکے ناطے انہیں اب بھی پولیس محکمہ کی میٹنگوںمیں مدعو کیا جاتاہے۔ انہوں نے شروع  ہی سے ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھائی ہے ،انہیں کسی کےساتھ ہونے والی ناانصافی برداشت نہیں ہے ۔ دوسروںکی مددکرنا ،ان کی خاص خوبی ہے ۔ 
بھیونڈی کے ۴۔۵؍ قدیم خانوادوں،مثلاً نرول، مدعو، خطیب ، بیگ اور واجہ برادری میں شفیع مقری کا خاندان بھی شامل ہے ۔شفیع مقری کے آبا واجداد متعدد پیشوں سے وابستہ رہے ۔ ان کےدادا پردادا کسی زمانے  میں جنگل کی لکڑیوں سے کوئلہ بنا کر محکمہ ریل کو سپلائی کرتے تھے، جس سے کوئلہ والا انجن چلا کرتا تھا۔ بعدازیں لُوم اور بنائی کے کاموں سے منسلک رہے۔ لُوم کے کام کے دوران رومال وغیرہ کی بنائی کا کام کیا ۔ رومال پر بنائی جانے والی چوکڑی کو اس دور میں مکری کہا جاتا تھا، اسی مناسبت سے ان کے خاندان کا نام مقری پڑ گیا۔ ان کے خاندان نے شمالی  ہندوستان سے روزگار کی تلاش میں بھیونڈی آنے والوںکو رومال اور کپڑا بننے کا کام فراہم کیا۔ان مزدوروںکو بھیونڈی میں آباد کرنےکیلئے باقر فقیہ نے درگاہ روڈ پر۴؍ بڑی چالیں بنائی تھیں، جن میں ان مزدوروں کو معمولی کرائے پر رہائش فراہم کی گئی تھی ۔ یہاں سے موصول ہونے والی کرائے کی رقم ایک مقامی مسجد کیلئے وقف کر دی گئی تھی۔ 
۲۰۰۴۔۲۰۰۵ء میں کے ایم ای ایس کے صدر اسلم فقیہ تھے ۔ اسی دور میں شفیع مقری کو رئیس ہائی اسکول کا چیئرمین مقرر کیا گیاتھا ۔ اپنی چیئرمین شپ میں شفیع مقری نے اسکول   اور وہاں کے طلباء کی تعلیمی ترقی کیلئے متعدد اقدامات اُٹھائے تھے جن سے رئیس ہائی اسکول کامعیار کافی بہتر ہواتھا اور ایس ایس سی میں بھیونڈی کے  ٹاپ ۱۰؍ طلبہ میں رئیس ہائی اسکول کے طلباء کی اکثریت ہوتی تھی ۔ انہوں نے سب سے پہلے اسکول کے پرانے اور خستہ حال بلیک بورڈ کو تبد یل کیا تھا۔ا ن کا خیال ہے کہ نمایاں بلیک بورڈ سے کلاس روم کے معیار کا بڑا قریبی رشتہ ہوتا ہے ۔ چھوٹا اور بوسیدہ بلیک بورڈ ہونے سے جہاں اساتذہ اپنی پوری بات بورڈ پر درج نہیں کر پاتے تھے وہیں طلباء بھی گنجلک بورڈ پر تحریر عبارتوں سے تذبذب میں مبتلارہتےتھے ۔وسیع اور نمایاں بورڈ لگنے سے کلاس روم کےساتھ اساتذہ اور طلباء کی تعلیمی دلچسپی بڑھی تھی۔ بعد ازیں طلباء کے تعلیمی معیار کو بڑھانے کیلئے انہوںنے والدین کیلئے ایک مہم شروع کی تھی، جس کے تحت ہر طالب علم کی تعلیمی صلاحیت کا خاکہ ان کے والدین کے سامنے رکھی گئی  تاکہ والدین کو اپنے بچے کی حقیقی صلاحیت کا اندازہ ہوسکے۔ جو بچے پانچویں جماعت میں پہنچنے کے بعد اپنا نام تک نہیں لکھ پاتے تھے، اس مہم کے شروع ہونےسے ان طلباء نے سنجیدگی سے پڑھائی کرنے پر توجہ دی۔اس کے علاوہ بھی اسکول اورطلباء کے تعلیمی معیار کو فروغ دینے کیلئے انہوں نے متعدد اسکیموں پر عمل کیا جس کاخاطر خواہ نتیجہ سامنے آیا۔ ان کامیابیوں کیلئے وہ کے ایم ای ایس کے سابق صدر اسلم فقیہ اور ان کے رفقاء کےعلاوہ پرنسپل فیضان احمد اقبال احمد اور ضیاءالرحمان انصاری اور جملہ عملے کے تعاون کو خاص اہمیت دیتےہیں۔
بھیونڈی کے ۱۹۸۴ء فساد کےبعد اندرا گاندھی نے بھیونڈی کا دورہ کیاتھا۔ ڈاک بنگلہ میں ان کی میٹنگ تھی۔ میٹنگ میں شفیع مقری نے بھی شرکت کی تھی۔ اندراگاندھی نے اپنی تقریر میں کہاتھا کہ فساد ملک کی ترقی کیلئے نقصاندہ ہوتے ہیں، شہر میں اگرترقی چاہئے تو امن بہت ضروری ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کے بہکاوے میں نہ  آنے کی بات بھی کہی تھی۔
شفیع مقری کا بھیونڈی امن کمیٹی کا ممبرہونےاور پولیس اسٹیشن سے گھر قریب ہونےکی وجہ سے پولیس نے  فساد کےدوران انہیں بلاکر کہا  تھا کہ فساد کی وجہ سے ہم اپنے گھروں پر نہیں جا رہے ہیں، کئی دنوں سے سوئے نہیں ہیں، کھانے پینے کا بھی انتظام نہیں ہے ۔ایسے میں شفیع مقری نے اپنے گھر سے پولیس والوں کے کھانے پینے کا انتظام کیا تھا۔  
شفیع مقری نے بھیونڈی کے علاوہ ملک کے ان مختلف مقامات کا دورہ کیاہے جہاں فساد ہونے کی وجہ سے انسانی جانیں تلف ہوئی تھیں اور تباہی مچی تھی۔ انہی فساد متاثرہ علاقوںمیں بہار کا بھاگلپور شامل ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ریلیف لے کر بھاگلپور گئے تھے۔ وہاں کی تنظیموں  نے انہیں فساد متاثرین کے علاوہ ان کنوئوں کا دورہ کرایا تھا، جنہیں بے قصوروںکی لاشوں سےبھر دیاگیاتھا۔ تقریباً ۵۔۶؍کنوئوں کا دورہ کرنے کےبعد مزید کنوئوں پر جانے کی ہمت نہیں ہوئی تھی،اسلئے وہ متاثرین کی مدد کرکے لوٹ آئے تھے لیکن وہاں کی صورتحال اب بھی نہیں بھولے ہیں۔
۸۰ء کی دہائی کی بات ہے، بھیونڈی میں تیلگوفلموںکے فحش پوسٹر عام سڑکوں کی دیواروں، الیکٹر ک پول اور ٹرانسفارمر پر لگائے جاتے تھے جنہیں دیکھ کر بالخصوص نوجوانوں پر بڑا برا اثر پڑ رہا تھا۔اس روش سے شفیع مقری بہت بدظن تھے ۔برداشت کے باہر ہونے پر انہوں نے ان پوسٹروں کے خلاف بھیونڈی پولیس میں تحریری شکایت کی اور ان پوسٹروں  پر پابندی عائد کرنے کامطالبہ کیا۔متواتر کوششوں سے پولیس نے کارروائی کی ،بعدازیں فحش پوسٹر لگانے کا سلسلہ ختم ہوا ۔
محمد شفیع مقری اور ان کے مکان مالک محمد اسحاق خوشحال کا بھیونڈی کورٹ میں ایک کیس جاری تھا ۔ایک مقام پر دونوں فریقین سمجھوتہ پر آمادہ ہوگئے۔ دونوں نے فیصلہ کیاکہ ہم توسمجھوتہ کرلیں گے لیکن ہمارے وکیلوں کو کب یہ منظور ہوگا،چنانچہ محمد شفیع نے محمد اسحاق کو مشورہ دیا کہ بھیونڈی کے وکیل عموماً جمعہ کو تھانے کورٹ جاتے ہیں ،ہم جمعہ کی تاریخ لے کر جج کےسامنے اپنی تجویز پیش کرتے ہیں ۔ منصوبہ کے مطابق جمعہ کو دونوں پارٹیوں نے جج کےسامنے اپنی بات رکھی ، جج نےان کے وکیلوں سے متعلق سوال کیا ،جس پر شفیع مقری نے جج سے کہا کہ جب فریقین  مصالحت کیلئے تیار ہیں تو پھر اس معاملے میں وکیلوں سے اجازت کی کیا ضرورت ؟ جس پر جج نےکہاکہ آپ دونوں کی شناخت کون کرےگا؟ محمد شفیع نے اسی وقت نیاز احمد نامی ایڈوکیٹ کو بلایا،جو دونوں پارٹیوں سے واقف تھے ۔ انہوںنے دونوں کی شناخت کی ،اس طرح شفیع مقری نے جج کو قائل کرکے اپنی بات خود منوالی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK