• Sun, 14 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

انسٹرومنٹ انجینئر، پورٹریٹ آرٹسٹ اور اُردو زبان کے عاشق باپو پٹوردھن

Updated: September 14, 2025, 12:39 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

سچے پکے ممبئی واسی ۸۳؍ سالہ پٹوردھن صاحب نے نہ صرف اردو سیکھی ہے بلکہ اُردو ہی پڑھتے اور بولتے ہیں۔ اب تک ۵۰۰؍ سے زیادہ لوگوں کو اُردو سکھا چکے ہیں اور اب بھی کمربستہ رہتے ہیں۔ ان کی اردو دوستی بہت سے اردو والوں کیلئے سبق ہے۔

Bapu Patwardhan. Photo: INN.
باپو پٹوردھن۔ تصویر: آئی این این۔

تھانے گھوڑ بند روڈ پر رہائش پزیر ۸۳؍سالہ شری کانت گنیش عرف باپوپٹوردھن کی پیدائش ۱۸؍اگست ۱۹۴۲ء کو جنوبی ممبئی کے گرگائوں کے دھابا واڑی میں ہوئی تھی۔ یہاں کےآرین ہائی اسکول سے میٹرک پاس کرکےبعد ولے پارلے کے پارلا کالج سے انٹرپاس کیا، جنوبی ممبئی کے سدھارتھ کالج سے بی ایس سی اور ماہم کی سینٹ زیوئرس ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ سے الیکٹرانک اینڈ ریڈیو انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ عملی زندگی کا آغاز بحیثیت انسٹرومنٹ انجینئرکیا۔ مارٹین اینڈ ہیرس، ٹیمپو انسٹرومنٹ اور جگ کمار اینڈکمپنی نامی اداروں سے۲۰۰۶ء تک وابستہ رہے۔ سبکدوش ہونے کے بعد بھی کنسلٹنٹ کی حیثیت سے سرگرم رہے، ساتھ ہی اپنی پسندیدہ اور چہیتی اُردو زبان سیکھی۔ اس کے علاوہ اعضاء عطیہ کی سرگرمی میں حصہ لیا۔ بچپن سے پنسل پورٹریٹ کاشوق رہاہے جو ہنوزبرقرار ہے۔ ان کے پاس پنسل پورٹریٹ اور روزنامہ انقلاب کے مختلف مشمولات کا بیش بہا خرانہ محفوظ ہے، جسے وہ اپنی زندگی کا قیمتی اثاثہ تصور کرتےہیں۔ 
باپوپٹوردھن کو اسکول کے دور سے پنسل پورٹریٹ بنانے کا شوق رہا۔ ان کے پاس آج بھی ان کے بنائے سیکڑوں پنسل پورٹریٹ محفوظ ہیں۔ انہوں نے سیاسی، سماجی، ادبی، فلمی اور دیگر شعبوں کے ماہرین کے متعدد پورٹریٹ بنائے ہیں، جن میں ان کے فیوریٹ فلم اداکار راج کپور بھی شامل ہیں۔ راج کپور سے۱۴؍دسمبر۱۹۶۳ء کو ان کی سالگرہ کے موقع پرچمبورکےآر کے اسٹوڈیومیں ہونےوالی ملاقات یادگار ہے۔ وہ اپنے ساتھ راج کپور کے ۱۰؍ پورٹریٹ لے گئے تھے۔ ان سبھی پورٹریٹس کوراج کپور نے بڑی توجہ سے دیکھ کر ان سب پراپنے آٹوگراف دیئے تھے، پٹوردھن کی فنکاری کااعتراف کرتےہوئے ان کی پیٹھ تھپتھپائی تھی اور ان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ مرزا غالب اور علامہ اقبال کےبھی پورٹریٹ انہوں نے بنائے ہیں۔ 
باپو پٹوردھن کواُردو زبان وادب سےبچپن سے محبت اور دلچسپی رہی۔ وہ بچپن سے تھیٹر سے وابستہ رہے۔ ڈراما وغیرہ میں کام کرنےکابھی شوق رہا۔ ڈراموں میں استعمال ہونےوالے اُردومکالموں نے انہیں اُردو سیکھنے کی ترغیب دی۔ عملی زندگی کی مصروفیت کی وجہ سے اُردو سیکھنے میں تاخیر ضرور ہوئی لیکن ملازمت سے سبکدوش ہونےکےبعد سب سے پہلے اُنہوں نے اُردو سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ ۲۰۰۷ء کی بات ہے، ایک روز پیدل چوپاٹی جارہےتھے۔ راستےمیں ایک عمارت کی دیوار پرہندوستانی پرچار سبھا کا ’اُردواور ہندی‘ سیکھئےہینڈ ل بل چسپاں تھا، اسے پڑھنے کے بعدوہ ہندوستانی پرچار سبھا پہنچ گئے۔ وہاں اُردو شعبہ کے انچارج محمد حسین پرکار سے ملاقات کی اور فوراً داخلہ لےلیا۔ بڑی دل جمعی سے اُردو سیکھناشروع کیا۔ ان کے اُردو سیکھنے کے جنون کااندازہ اس سے لگایا جا سکتاہےکہ دیگر طلبہ جو نصاب مہینوں میں پڑھتے، اس نصاب کو باپو پٹوردھن کچھ دنوں میں مکمل کرلیتے تھے۔ اس دوران انہوں نے اُردوکو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ حتیٰ کہ بس میں سفر کےدوران ملنے والی ٹکٹ پر بھی اُردو الفاظ لکھ کر گھریا ہندوستانی پرچار سبھا پہنچ کراس کے درست ہونے کی تصدیق کرتےتھے۔ ۲؍سا ل میں انہوں نے ہندوستانی پرچار سبھا کی اُردو سکھانےوالی کتاب ’آسان قاعدہ‘ کے ذریعہ اردو زبان سیکھ لی تھی۔ ان کی دلچسپی اور اُردو سےمحبت کے جذبہ سے متاثر ہو کر ان کے استاد محمد حسین پرکار نےانہیں مشورہ دیا کہ اب وہ دیگر طالب علموں کو سکھائیں۔ اُستاد محترم کی ہدایت پر باپو پٹوردھن ۲۰۰۹ء سے بالخصوص برادران وطن کوبلامعاوضہ اُردو سکھارہےہیں۔ اب تک ۵۰۰؍ سے زائد طلبہ کو اُردو سکھاچکےہیں۔ اُردو کی خدمت کا سلسلہ اب بھی دراز ہے۔ ان کے طلبہ بطور ہدیہ کچھ دینا بھی چاہتےہیں تو وہ یہ کہہ کرانہیں مطمئن کردیتےہیں کہ مجھے کچھ اور طلبہ دے دو، وہی میری فیس ہے۔ 
باپوپٹوردھن گزشتہ ۱۵؍سال سے پابندی سے روزنامہ انقلاب کا مطالعہ کررہےہیں۔ یوں تو وہ پورا اخبار پڑھتےہیں لیکن خاص طورپر انہیں ’فلموں میں اُردو ادب‘ کالم سے بڑی رغبت ہے۔ اس کالم کے تراشوں کاان کے پاس بڑا ذخیرہ ہے۔ جنہیں انہوں نے ڈائریوں میں چسپا ں کر رکھا ہے۔ وقتاً فوقتاً اس خزانہ سے محظوظ ہوتےرہتےہیں۔ 
باپوپٹوردھن نے ایک مرتبہ موت کو انتہائی قریب سےدیکھا تھا لیکن خوش قسمتی سے ان کے بیگ میں طبی آلات ہونے کی وجہ سے دہشت گردوں نے انہیں ڈاکٹر سمجھ کر نہ صرف بخش دیابلکہ بس کے دیگر مسافروں کی بھی ان کی وجہ سے جان محفوظ رہی۔ یہ ۹۰ء کی دہائی کی بات ہے، وہ طبی آلات کے آرڈدحاصل کرنےکیلئے نارتھ ایسٹ بارڈر (سرحدی علاقوں ) کےدورے پر گئے تھے۔ وہاں وہ بس میں سفر کر رہےتھے، اسی دوران دہشت گردوں کاایک گروہ منہ پر رومال باندھے اور ہاتھ میں پستول لئے سوار ہوا۔ ایک دہشت گرد نےپٹوردھن سے بیگ کھولنےکیلئے کہا۔ بیگ میں طبی آلات دیکھ کر دہشت گردوں نے انہیں ڈاکٹر سمجھ لیا۔ دوسرےلمحے دہشت گردوں نےانہیں سیلوٹ کرنا شروع کردیا۔ یہ منظر دیکھ کر باپو پٹوردھن حیرت زدہ ہوگئے۔ دہشت گردوں نے انہیں بحفاظت، ان کےہوٹل تک پہنچایا، ساتھ ہی بس کے دیگر مسافروں کی جان بھی بخش دی۔ بعدازیں اس بارےمیں معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلاکہ وہاں ڈاکٹروں کی بڑی قدر ومنزلت تھی، کیونکہ اس علاقے میں دہشت گردی اور افراتفری کی وجہ سے ڈاکٹر وہاں جانے سے گریز کرتےتھے۔ 
باپوپٹوردھن نے پنڈت نہرو کو قریب سے دیکھا ہے۔ بحیثیت وزیر اعظم وہ پونےکےدورے پر آئے تھے۔ ان کاقافلہ الکاٹاکیز کےراستے سےگزرنےوالاتھا۔ اس وقت پٹوردھن کے بڑے بھائی پونے میں رہتے تھے۔ ان سے ملاقات کیلئے باپوپٹوردھن پونے گئے تھے۔ جب انہیں معلوم ہواکہ پنڈت نہرو الکاٹاکیز سے گزرنےوالے ہیں توباپوپٹوردھن، ان کے بڑے بھائی اور ان کی بھتیجی، نہرو جی کے قافلے کو دیکھنےکیلئے مذکورہ راستے پر جاکر کھڑے ہوگئے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نہروجی بچوں سےبہت پیار کرتے تھے، باپو پٹوردھن کی بھتیجی کو دیکھ کر نہرو جی نے ایک لمحہ کیلئے اپنی کار اس کے قریب رکواکر، کارکی کھڑکی کاشیشہ اُتار کر، ان کی بھتیجی کے سرپرمسکراتےہوئے ہاتھ پھیرا اور آگے بڑھ گئے۔ 
اُردو کے شیدائی باپوپٹوردھن اپنی اہلیہ کے ساتھ اکثرچرنی روڈ سے اندھیری اپنی بیٹی کے گھر جاتے تھے۔ ٹرین میں ان کی بیوی کےہاتھ میں مراٹھی کالوک ستااور ان کےہاتھ میں اُردو روزنامہ انقلاب دیکھ کر دیگر مسافر تعجب کرتے تھے، کچھ مسافروں کی سمجھ میں یہ تضا د نہیں آتا تو وہ باپو پٹوردھن سے دریافت کرتےتھےکہ آپ اُردو اخبار پڑھ رہے ہیں، اور آپ کےساتھ جوخاتون ہیں ، وہ مراٹھی، اس کی کیا وجہ ہے، جس پر وہ انہیں بتاتےکہ میں بھی مراٹھی ہوں لیکن مجھے اُردو زبان پسند ہے، اس لئے میں اُردو اخبار پڑھتاہوں ۔ میں مراٹھا ہوں یا کسی اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہوں، اس کا کسی زبان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، زبان، زبان ہوتی ہے، زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، مجھے اُردو زبان اچھی لگتی ہے اس لئے میں اُردو کا اخبار پڑھتاہوں، یہ کہہ کر وہ سامنے والوں کو مطمئن کردیتےتھے۔ 
خیال رہےکہ اس کالم کو باپوپٹوردھن بڑی پابندی سے پڑھتے رہےہیں۔ تقریباً ایک سال قبل کالم کے تعلق سے اپنے خیالات کااظہارکرتےہوئے انہوں نےدریافت کرنےکی کوشش کی تھی کہ اب تک برادران وطن میں سے کسی کا احوال نہیں شائع ہوا ؟ کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے ؟ آج اس کالم کے ۲۰۰؍ویں سنگ میل پر ان کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK