Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ایک مرتبہ میں نے ایک پہلوان کو شکست دے دی تھی جس پر پانچ روپے انعام ملا تھا ‘‘

Updated: May 18, 2025, 12:59 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

مدنپو رہ کے ۷۸؍سالہ انصاری صغیراحمد محمدرفیع کو فٹ بال کھیلنے اور اس کی کوچنگ کا۶۰؍سال کا شاندار تجربہ ہے، سبکدوشی کے بعد بھی فٹ بال سے دلچسپی کم نہیں ہوئی بلکہ آج بھی بلاناغہ وائی ایم سی اے گرائونڈجاکر فٹ بال سیکھنے والے بچوں کی رہنمائی کرتے ہیں

Ansari Sagheer Ahmad Muhammad Rafi. Photo: INN.
انصاری صغیر احمد محمد رفیع۔ تصویر: آئی این این۔

مدنپورہ، بکھار کی چال کے انصاری صغیر احمد محمد رفیع کی پیدائش ۱۴؍اپریل، ۱۹۴۶ءکو اُتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے مبارکپور گائوں میں ہوئی تھی۔ وہیں کے مدرسہ مصباح العلوم سے پانچویں تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آگے کی پڑھائی ممبئی سےکی۔ والد محترم ذریعہ معاش کیلئے ممبئی میں مقیم تھے۔ ۱۹۵۸ءمیں والد کے ہمراہ ممبئی آئے۔ اس کے بعد پتھروالی نائٹ اسکول سے آٹھویں تک پڑھائی کی۔ بعدازیں فٹ بال کے ماہر تقی جناب کے مشورے سے فٹ بال کھیلنا شروع کیا۔ فٹ بال کی بنیادپر انجمن اسلام اسکول میں آسانی سےمفت میں داخلہ مل گیا۔ یہاں اسکول کیلئے فٹ بال کھیلنے کےساتھ ہی میٹرک کاامتحان پاس کیا۔ اس کےبعد قلابہ میں ایک الیکٹرک سوئچ بنانے والے کارخانے میں ۴؍ سال تک ملازمت کی۔ پھر ڈیفنس اکائونٹ نیوی آفس، کوپریج (منترالیہ کے قریب) میں ملازمت کاموقع ملا۔ نوکری کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک مرتبہ پھر فٹ بال کی وجہ سے سدھارتھ کالج (فورٹ) میں مفت میں داخلہ مل گیا جہاں ۴؍سال تک ممبئی یونیورسٹی کیلئے سدھارتھ کالج کی نمائندگی کی۔ یہاں سے ملنےوالے اسپورٹس سرٹیفکیٹ کی بنیاد بینک آف بروڈہ میں ملازمت مل گئی۔ بینک آف بروڈہ کی ٹیم کیلئے ۱۵؍سال تک ریاستی سطح پر نمائندگی کی۔ بعدازیں بینک کی ٹیم کیلئے کوچ مقررہوئے اور ۲۰۰۶ء تک فٹ بال کوچ کے طورپر سرگرم رہے۔ 
۲۰۰۶ءکے بعد سے وائی ایم سی اے گرائونڈ پر جاکر چھوٹے بچوں کو فٹ بال کی کوچنگ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ آج بھی روزانہ مغرب کی نماز کےبعد کچھ وقت کیلئے وائی ایم سی اے گرائونڈ جاکر، فٹ بال کی پریکٹس کرنے والے بچوں کو دیکھتےہیں ۔ ان کے اورآج کے دور کی پریکٹس میں بڑا فرق ہے۔ اس دور میں پریکٹس کےدورا ن بچوں کوزیادہ تروقت بال کےساتھ دوڑایاجاتاتھاتاکہ وہ دوڑنےکےوقفہ میں بھی بال کے ساتھ رہیں لیکن آج بچوں کو بغیر بال کے کافی دیر دوڑایاجاتاہے، جس سےبچوں کی قوت مدافعت متاثرہوتی ہے۔ وہ بال کے ساتھ کم وقت گزارتےہیں اور دوڑتے زیادہ ہیں۔ 
صغیراحمدکو فٹ بال کھیلنے اور اس کی کوچنگ کا۶۰؍سالہ تجربہ ہے۔ ایک مرتبہ اولمپکس گیمز سےمتعلق، بنگلور میں فٹ بال کی ۴۰؍ روزہ ٹریننگ منعقد کی گئی تھی۔ پورے ملک سے فٹ بال کھلاڑیوں کومدعوکیاگیاتھا، ممبئی سے صغیر احمد کےعلاوہ محمدارشد کا انتخاب ہواتھا۔ یہاں سے ٹریننگ حاصل کرنے کےبعدانہیں دہلی میں منعقدہ تہنیتی تقریب میں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ جہاں فلم اداکار عامر خان اور عالمی شہرت یافتہ ٹینس کھلاڑی بورس بیکر کے ہاتھوں انہیں مذکورہ ٹریننگ میں حصہ لینےکیلئے سرٹیفکیٹ، فٹ بال اور ٹی شرٹ وغیرہ سےنوازاگیاتھا۔ ان کیلئے فٹ بال سے طویل وابستگی کا، یہ سب سے یادگار لمحہ تھا۔ 
صغیر احمد کو فلم بینی کا بہت شوق تھا۔ اپنی پسندکی فلم فرسٹ ڈے فرسٹ شو دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہندوستان کی کامیاب ترین فلم ’مغل اعظم‘ بھی پہلے دن اور پہلا شودیکھنے کی پوری کوشش کی تھی لیکن ٹکٹ نہ ملنے سے یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی، جس کا انہیں بہت دنوں تک افسوس رہا۔ کئی دنوں کی کوششوں کے باوجود انہیں ٹکٹ نہیں ملی۔ ایسے میں ایک دن ٹکٹ حاصل کرنےکی ایک ترکیب سوجھی۔ ٹکٹ کی قطار میں جاکر کھڑے ہوگئے، کچھ دیر بعد اپنے سے آگےوالے شخص سے کہاکہ میرا نمبر آپ کے بعد، مجھے کچھ کام ہے میں آتاہوں، یہ کہہ کر اس سے آگے بڑھ گئے، اسی طرح اس شخص کےآگے والے سےیہی جواز پیش کرکے اس سے بھی آگے بڑھ گئے، یہ سلسلہ ٹکٹ ونڈو تک جاری رکھا، بالآخر ٹکٹ ونڈ وپر پہنچ کر، ونڈو پر موجودپہلے شخص سے بھی یہی کہا کہمجھے ٹکٹ دینے والے سے کچھ پوچھناہے۔ یہ کہہ کر آگے بڑھے، ٹکٹ والے سے کسی طرح ایک ٹکٹ لے کر وہاں سے نکل گئے۔ قطار میں کھڑے لوگ شور مچاتے رہے، لیکن انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا، اس طرح مغل اعظم دیکھنے کی راہ ہموا رکی۔ 
مدنپورہ کےمعروف فٹ بال کوچ حسین کوکنی نے ایک مرتبہ غنی عطر کی چال، گھیلابائی اسٹریٹ میں ایک پروگرام رکھا تھا، جس میں مدنپورہ اوراطراف کے فٹ بال کھلاڑیوں کو مدعوکیاتھا۔ اس پروگرام میں فلم اداکار سلمان خان آئے تھے۔ انہیں فٹ بال کابڑا شوق ہے۔ وہ مدنپورہ کے ان فٹ بال کھلاڑیوں سے ذاتی طورپر ملاقات کرناچاہتےتھے، جنہوں نے فٹ بال کےذریعے سرکاری، نیم سرکاری اور بینک وغیرہ میں ملازمتیں حاصل کی تھیں۔ پروگرام میں صغیر احمد بھی موجود تھے۔ یہاں صغیر احمد کی سلمان خان سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نےیہاں موجود سبھی فٹ بال کھلاڑیوں کو مبارکباد دینے کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی تھی۔ 
صغیر احمد نے زندگی میں ایک مرتبہ موت کو بالکل قریب سے دیکھا ہے لیکن اللہ کےفضل سے اس حادثہ میں انہیں کچھ نہیں ہوا اوروہ بالکل محفوظ رہے۔ تقریباً ۳۰؍سال قبل وہ اپنے آبائی گائوں مبارکپور گئے تھے۔ ایک روز کسی کام سے دوسرے گائوں جانےکیلئے گھر سے نکلے، سواری نہ ملنے سے پریشان تھے۔ ایک موٹربائیک سوارسےلفٹ طلب کی۔ اس نے انہیں بٹھا لیا۔ مقررہ مقام پر بائیک سے اُترنے کے دوسرے لمحے ہی آنےوالی زوردارآواز کی جانب صغیر احمد متوجہ ہوئے۔ چوراہے پر ۲؍ موٹر گاڑیو ں کے درمیان آنے سے اسی بائیک سوار کی جائے وقوع پر ہی موت ہوگئی تھی۔ یہ حادثہ دیکھ کر صغیر احمد کی حالت خراب ہوگئی تھی۔ کچھ وقت میں پولیس آئی، صغیر احمدنے پولیس کو پورے واقعہ کی گواہی دی۔ اس درد ناک حادثے کو وہ اب بھی یاد کرکے افسردہ ہو جاتے ہیں۔ 
صغیر احمد کےوالد ممبئی میں مل مزدور تھے۔ مزدوری کےنام پر معمولی سی تنخواہ ملتی تھی، جس کی وجہ سے ان کی والدہ بڑی پریشان رہتی تھیں ۔ معمولی رقم میں ۷؍بچوں کی کفالت مشکل تھی۔ غربت کی وجہ سے گھرمیں بڑی دقتوں کا سامنا تھا۔ صغیر احمد کی والدہ بچوں کو پیٹ بھر کھاناکھلانے کی کوشش میں اکثر خود بھوکی سوجاتی تھیں ۔ بچے ان سے ساتھ میں کھانا کھانےکیلئے کہتے تو وہ کہتی تھیں کہ تم لوگ پہلے کھالوبعدمیں ، میں کھالوں گی۔ بچوں کوکھاناکھلانے کےبعد اکثر وہ خالی پتیلی گھر کے اندھیرے والے حصہ میں رکھ کر جھوٹ ہی پتیلی میں ہاتھ ڈال کرکھانا نکالنے اور کھانے کا دکھاوا کرتی تھیں جسے دیکھ کربچوں کو بڑی تکلیف ہوتی تھی لیکن ان کی والدہ انہیں تسلی دیتی تھیں کہ میں نے بھی کھانا کھا لیا ہے۔ 
صغیر احمد کو بچپن سے تیراکی کابڑاشوق تھا۔ گائوں کے تالاب میں اکثر تیراکی کیلئے جاتے تھے۔ ایک روز تیراکی کر کےتالاب کے کنارے بیٹھے تھے۔ وہاں موجود ایک شخص نے جوانہیں جانتاتھا، کہایہ چارآنہ لو، جائو میرے لئے نہانے کا صابن لے کرآئو، صغیر احمدچارآنہ لے کر وہاں سے رفو چکرہوگئے۔ کچھ دنوں بعد اس شخص کی صغیر احمد کے مامو ں حافظ عبدالحمید سےملاقات ہوئی، اس نے ان سے صغیر احمد کی شکایت کی۔ بعد ازیں ان کے ماموں نے گھر آکر ان کی بری طرح پٹائی کی تھی اوریہ تنبیہ کی تھی کہ آئندہ اس طرح کی شکایت کبھی نہیں آنی چاہئے۔ یہ جہاں ان کی زندگی کا ایک تاریک دن تھا، وہیں ان کی زندگی میں ایک روشن دن بھی آیا تھا۔ ایک مرتبہ گائوں میں ہونےوالےکشتی کے ایک مقابلے میں صغیر احمد نے اپنے سے بڑے اورطاقتور پہلوان کو شکست دے دی تھی جس پر خوش ہو کر ان کے ماموں حافظ عبدالحمید نے انہیں اس دور میں ۵؍روپے انعام دیئے تھے، جس سے انہیں بہت خوشی ملی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK