بی جے پی لیڈر منوہرلال دھاکڑ کا جو ویڈیو کلپ گزشتہ دنوں وائرل ہوا ہے، اسے محض اخلاقی پستی کہنا کافی نہیں ہوگا بلکہ یہ بدکرداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
EPAPER
Updated: June 01, 2025, 2:52 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
بی جے پی لیڈر منوہرلال دھاکڑ کا جو ویڈیو کلپ گزشتہ دنوں وائرل ہوا ہے، اسے محض اخلاقی پستی کہنا کافی نہیں ہوگا بلکہ یہ بدکرداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اقتدار سے کانگریس کی بے دخلی کے مختلف اسباب میں ایک بڑا سبب اس پارٹی کے بعض لیڈروں کا وہ نخوت آمیز رویہ بھی تھا جواقتدار کے زعم کا پروردہ تھا۔ طویل مدت تک برسراقتدار رہنے کی بنا پر اس پارٹی کے کچھ لیڈر خود کو تمام آئینی ضابطوں اور سماجی تقاضوں سے بالاتر سمجھنے لگے تھے۔ عوام سے سیدھے منہ بات نہ کرنا، ان کے مسائل کو مسلسل نظر انداز کرنا ان لیڈروں کا شیوہ ہو گیا تھا۔ بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں نے اس صورتحال سے استفادہ کرتے ہوئے دھرم آمیز سیاست کے دام میں عوام کو اس طور سے محصور کرلیا کہ ان کیلئے اقتدار کی راہ ہموار ہو گئی۔ مرکزی اقتدار کے تیسرے دور اور مختلف ریاستوں میں اقتدار پر قابض ہونے کی وجہ سے بھگوا لیڈر وں کی خاصی تعداد اب اسی نخوت زدہ اور بعض صورتوں میں آمرانہ رویہ کا مظاہرہ کر رہی ہے جو آئینی ضابطوں اور اخلاقی حدود و قیود کو اپنی مرضی اور خواہش کے آگے ہیچ سمجھتا ہے۔ اگر اس حوالے سے کانگریس اور بی جے پی لیڈروں کا موازنہ کیا جائے تو بھگوا پارٹی کا پلڑا بھاری نظر آئے گا۔ اس پارٹی میں ایسے لیڈروں کی فہرست خاصی طویل ہے جو اشتعال انگیز اور منافرت آمیز بیانات سے سماجی امن کو متاثر کرتے رہے ہیں اور بعض بھگوا لیڈر اس سے بھی دو قدم آگے نکل کر اخلاقی پستی کے ایسے بدترین واقعات کو سرانجام دینے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے جو مہذب سماج کے دامن پر بدنما داغ ہیں۔
انتخابی ریلیوں میں عوام اور سماجی ترقی کیلئے بڑے بڑے وعدے کرنے اور خواتین کی خانگی اور سماجی زندگی کو بہتر بنانے کے تئیں اپنی فکر مندی کا اظہار کرنے والے بھگوا لیڈر نہ صرف ان باتوں کو یکسر بھول جاتے ہیں بلکہ بعض موقعوں پر اپنی خواہش کی تکمیل میں اخلاقی قدروں کو پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اپنے سیاسی رتبہ کے زعم میں اخلاقی اقدار کو پامال کرنے کا تازہ ترین معاملہ مدھیہ پردیش کے مندسور سے تعلق رکھنے والے منوہر لال دھاکڑ کا ہے۔ دھاکڑ کا جو ویڈیو کلپ گزشتہ دنوں وائرل ہوا، اسے محض اخلاقی پستی کہنا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ یہ بدکرداری کا ایسا شرمناک معاملہ ہے جس نے ان معاشروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جہاں جنسی معاملات میں خاصا آزادانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ دھاکڑ نے اپنی کنیت کو سرراہ جو عملی شکل دی وہ نہ صرف اس کے کردار کی اصلیت اجاگر کرتی ہے بلکہ اس نفسیات کو نمایاں کرتی ہے جو اقتدار سے قربت کے سبب خود کو تمام حدود و قیود سے بالاتر سمجھتی ہے۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بھگوا پارٹی نے دھاکڑ سے اپنا تعلق منقطع کر لیا ہے اور عدالت نے اسے ضمانت بھی دے دی ہے لیکن جو بنیادی سوال ہے وہ اب تک باقی ہے کہ آخر ایسی مذموم حرکتیں کرنے والے لیڈروں کو یہ ہمت اور حوصلہ کہاں سے ملتا ہے کہ وہ خود کو آئین، قانون اور سماج سے بالاتر سمجھتے لگتے ہیں ؟
اس سوال کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ حصول اقتدار کے بعد اس پارٹی نے ملک گیر سطح پر فرقہ ورایت کے جس رجحان کو مقبول بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اس نے شدت پسند ہندوتوا کے پیروکاروں کا ایسا گروہ پیدا کردیا جو دھرم کے سہارے اپنی بداعمالیوں کا دفاع کرتا ہے۔ اس گروہ کا ہر رکن خود کو لیڈر سمجھتا ہے اور اس بنا پر وہ سماجی نظم و نسق اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے والے ہر سطح کے اداروں کو اپنی مرضی کا تابع سمجھتا ہے۔ چونکہ ارباب اقتدار اس گروہ کی ایسی حرکتوں پر دانستہ آنکھیں بند کئے رہتے ہیں لہٰذا ان کا حوصلہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ سر راہ بد فعلی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دھاکڑ نے ضمانت ملنے کے بعد اپنے دفاع میں جو دلیل پیش کی ہے وہ نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی مذموم حرکت کرنے والے دھاکڑ جیسے نام نہاد لیڈر یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسی دلیلں انھیں قانونی کارروائی کی زد میں آنے سے بچنے کی راہ فراہم کر سکتی ہیں۔ دھاکڑ کا یہ کہنا ہے کہ ویڈیو بنانے میں اے آئی کا استعمال کیا گیا ہے جس کا مقصد مجھے بدنام کرنا ہے۔ اے آئی کے شعبہ میں امریکہ اور چین کی غیر معمولی ترقی بھی دھاکڑ کی اس دلیل کے آگے بے حقیقت نظر آنے لگی ہے۔ دھاکڑ کی اس دلیل کی سچائی کا پتہ لگانا اب عدالت کے ذمہ ہے اور ایسے حساس معاملے کی سچائی جاننے کے عمل میں اے آئی کا ایسا ماہرانہ استعمال کرنے والوں کا پتہ لگانابھی ضروری ہے تاکہ انھیں اس تکنیک میں مزید قابل رشک کام کرنے پر آمادہ کیا جا سکے جو اے آئی کے معاملے میں امریکہ اور چین کی ہمسری کرنے میں معاون ثابت ہو۔
دھاکڑ کی طرح بلیا کے بی جے پی نیتا ببن سنگھ رگھو ونشی کابھی ایک فحش ویڈیوگزشتہ دنوں وائرل ہوا۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد انھوں نے بھی یہی دلیل پیش کی کہ یہ دراصل انھیں بدنام کرنے کی سازش ہے۔ حالانکہ بی جے پی نے انھیں پارٹی سے نکالنے کے ساتھ ہی بلیا کی رسڑا کو آپریٹیو شوگر مل کے چیئرمین کے عہدے سے بھی برطرف کر دیا ہے۔ بھگوا لیڈروں کی فحش حرکتوں کی یہ دو حالیہ مثالیں ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو بھگوا لیڈروں کی ایک طویل فہرست تیار ہو سکتی ہے جن کی بدفعلی کا شکار خواتین ہوئی ہیں۔ اے آئی کے استعمال میں نت نئے تجربات کے پیش نظر اگر دھاکڑاور رگھوونشی کی دلیل کو یکسر مسترد نہ بھی کیا جائے تو بھی کلدیپ سینگر، سندیپ سنگھ، کنہیا لال مشرا اور منی رتنا نائیڈو جیسے بی جے پی لیڈروں کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ ان کے علاوہ بھی کئی اور نام اس میں جوڑے جا سکتے ہیں ۔ ان میں کچھ تو ریاستی کابینہ کا حصہ رہے ہیں اور کچھ ضلع اورشہر کی سطح پر بی جے پی کے بڑے لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔
عورتوں کے منگل سوتر کی حفاظت کیلئے فکر مندی کا مظاہرہ کرنے والے وزیر اعظم نے عورتوں کو جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے والے ان بھگوا لیڈروں کے متعلق کچھ کہنے کی زحمت اب تک گوارہ نہیں کی۔ عوام کے ہر چھوٹے بڑے سکھ، دکھ سے واقفیت کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم ایسے حساس اور انسانیت سوز واقعات سے بے خبر کیوں کر رہ سکتے ہیں ؟سوال یہ ہے کہ کیاعورتوں کے خانگی اور سماجی مرتبہ کو پر وقاربنانے نیز مالی اعتبار سے انھیں خود کفیل بنانے کی باتیں صرف انتخابی ریلیوں میں تالیاں بجانے کیلئے ہی ہوتی ہیں ؟ خواتین کی عزت افزائی کی یہ باتیں اور عملی سطح پر بی جے پی لیڈروں کی ایسی کارستانیاں قول و فعل کے اس تضاد کو نمایاں کرتی ہیں جو بھگوا لیڈروں کی سیاسی شناخت کا نمایاں حوالہ بن چکا ہے۔ یہ تضاد نہ صرف سماجی امن اور ترقی کی راہ کو پیچیدہ بناتا ہے بلکہ اس سے عوام کے اندر عدم تحفظ کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ انھیں نفسیاتی سطح پر معذور بنا دیتی ہے۔ ملکی سطح پر نظم و نسق کو بہتر بنانے اور قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کرنے والے ارباب اقتدار کو صرف زبانی دعوؤں سے عوام کو ورغلانے کے بجائے اس ضمن میں ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔
ارباب اقتدار کو ایسے شر پسند اور بدکردار عناصر کی پشت پناہی کا رویہ ترک کردینا چاہئے۔ ان عناصر کے مذموم کارناموں کےسامنے آنے پر انھیں پارٹی سے ہٹا دینا یا عہدے سے برطرف کر دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ قانونی سطح پر اس شفافیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جوانھیں کیفر کردار تک پہنچاسکے۔ دھاکڑ اور رگھوونشی جیسوں کو یہ احساس دلانا بھی ضروری ہے کہ اقتدار سے قربت کی بنا پر وہ قانون اور سماجی اخلاقیات کے ان ضابطوں سے بالاتر نہیں ہو سکتے جو کسی مہذب سماج کی تعمیر اور تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ جن معاملات میں سیاسی لیڈروں نے خواتین کے ساتھ جنسی یا جسمانی زیادتی کی ان معاملات کی قانونی کارروائی کوصرف اس بنا پر پیچیدہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے کہ خاطی کا تعلق برسر اقتدار پارٹی سے ہے۔ ممکن ہے کہ یہ حکمت عملی خاطی کا دفاع کر دے لیکن اس سے متاثرہ انصاف سے محروم رہ جائے گی اور یہ صورتحال نہ صرف خواتین کو خوف اور دہشت میں زندگی بسر پر مجبور کرے گی بلکہ اس سے جمہوریت کی بقا پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ سیاسی لیڈروں کی اخلاقی پستی سماجی سطح پر جو مسائل پیدا کرتی ہے وہ مسائل نوجوان نسل کو گمراہ کر سکتے ہیں اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے معاملا ت کی وجہ سے جو جگ ہنسائی ہوتی ہے اس کا مداوا بہ آسانی ممکن نہیں۔